data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا پر ویڈیوز بنانا اور انہیں مختلف پلیٹ فارمز پر شیئر کرنا لاکھوں افراد کے لیے معمول بن چکا ہے۔

ہر بار جب کوئی صارف اپنے فون پر کوئی ایپ کھولتا ہے تو مختصر ویڈیوز کی نہ ختم ہونے والی قطار اس کے سامنے آ جاتی ہے۔ یہی رجحان اب آمدنی کا ایک نیا ذریعہ بھی بن چکا ہے، جسے کچھ لوگ کل وقتی روزگار کی صورت میں اختیار کر چکے ہیں جبکہ کئی افراد اسے پارٹ ٹائم طور پر استعمال کرتے ہیں۔

بظاہر یہ دنیا دلکش اور آسان دکھائی دیتی ہے، مگر حالیہ تحقیق نے اس پیشے کے پس پردہ ایک سنجیدہ پہلو کو بے نقاب کیا ہے۔

امریکا میں کی جانے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق وہ افراد جو سوشل میڈیا کے لیے باقاعدگی سے ویڈیوز، تصاویر یا دیگر مواد تیار کرتے ہیں، ذہنی امراض کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

ہارورڈ ٹی ایچ چن اسکول آف پبلک ہیلتھ کی اس تحقیق نے واضح کیا کہ آن لائن کریٹرز کی ایک بڑی تعداد انزائٹی، ڈپریشن، برن آؤٹ اور جذباتی دباؤ جیسے مسائل سے گزر رہی ہے۔ یہ مطالعہ شمالی امریکا کے 500 ایسے افراد پر مشتمل تھا جو فل ٹائم یا پارٹ ٹائم کریٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

اس حوالے سے دستیاب اعداد و شمار کافی چونکا دینے والے ہیں۔ تحقیق کے مطابق 62 فیصد کریٹرز نے برن آؤٹ، یعنی شدید ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ کی شکایت کی۔ اسی طرح 65 فیصد افراد مسلسل اپنے مواد کی کامیابی کے دباؤ میں رہتے ہیں اور ہر ویڈیو یا پوسٹ کی کارکردگی اُن کی ذہنی کیفیت کو متاثر کرتی ہے۔

سب سے تشویشناک پہلو یہ سامنے آیا کہ تقریباً 69 فیصد کریٹرز مالی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جس کے باعث انہیں ہر وقت یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ اگلی ویڈیو یا آئندہ مواد ان کی آمدنی برقرار رکھنے کے لیے کافی ہوگا یا نہیں۔

اس تحقیق نے یہ بھی بتایا کہ کچھ افراد اپنے کام سے متعلقہ دباؤ کے باعث خودکشی کے خیالات بھی رکھتے ہیں، اگرچہ وہ عملی طور پر ایسا اقدام نہیں کرتے۔

محققین کے مطابق سوشل میڈیا پر اپنے آپ کو مسلسل پیش کرنا اور لاکھوں لوگوں کی رائے کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ وہاں تنقیدی تبصرے، نفرت آمیز رویے، تمسخر اور تحقیر کرنے والے جملے عام ہیں، جو کریٹرز کی ذہنی صحت کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل کریٹرز کو اپنے فالوورز سے جڑے رہنے کا مستقل دباؤ رہتا ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے کچھ دن نیا مواد پوسٹ نہ کیا تو ان کی رسائی، مقبولیت اور آمدنی کم ہو سکتی ہے۔ یہی دباؤ انہیں بے چینی، ڈپریشن اور جذباتی تھکن میں مبتلا کرتا ہے۔

اس کے علاوہ ذاتی زندگی اور آن لائن کام کے درمیان توازن رکھنا بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ انہیں ہر وقت نئے تصورات، نئے رجحانات اور نیا مواد تیار کرنے کی فکر ستاتی رہتی ہے۔

محققین نے واضح کیا کہ ایسے کریٹرز اکثر خود کو ناکافی سمجھنے لگتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ ان کا کام کمزور ہے یا وہ دوسرے کریٹرز جتنا موثر مواد نہیں بنا پا رہے۔ اس خود ساختہ موازنہ اور مثالی کارکردگی کے دباؤ سے ذہنی صحت بتدریج متاثر ہوتی ہے۔ جب لاکھوں صارفین مسلسل ایک شخص کے مواد پر اپنی رائے دیتے رہیں تو ہر تبصرہ، ہر ریویو اور ہر عددی نتیجہ اُس کی ذہنی کیفیت پر اثر چھوڑتا ہے۔

تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا کی دنیا ایک جانب بے شمار مواقع فراہم کرتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ ذہنی اور جذباتی چیلنجز بھی ساتھ لے کر آتی ہے۔

ماہرین نے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اور کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ آن لائن کریٹرز کے لیے ذہنی صحت کی سہولیات، آگاہی اور معاونت کے نظام کو بہتر بنائیں تاکہ اس صنعت کا بڑھتا ہوا دباؤ اُن کی زندگیوں پر کم منفی اثر ڈالے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سوشل میڈیا کرتے ہیں کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

تاخیر، نقائص اور سیاسی دباؤ پر مشتمل تیجس طیارے کی کہانی

بھارت کے ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (HAL) اور ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) کے تیار کردہ ہلکے وزن والے، دیسی جنگی طیارے تیجس کے حادثے نے لڑاکا جیٹ کی آپریشنل تیاری، حفاظتی معیارات اور دیرینہ تکنیکی دشواریوں کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیا ہے۔ اس طیارے کی کہانی تاخیر، نقائص اور سیاسی دباؤ  پر پھیلی ہوئی ہے۔

 یہ حادثہ، جو دبئی ایئر شو میں عوامی ایروبیٹک ڈسپلے کے دوران پیش آیا، نے ہوا بازی کے ماہرین اور فوجی تجزیہ کاروں کو نظامی ناکامیوں کے سلسلے پر غور کرنے پر مجبور کردیا جس نے تیجس پروگرام کو کئی دہائیوں سے دوچار کر رکھا ہے۔

اگرچہ صحیح وجہ ابھی تک زیرِ تفتیش ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ تکنیکی خرابیوں، ترقی میں نظاماتی مسائل اور آپریشنل دباؤ نے حادثے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تیجس پروگرام، جس کا مقصد ہندوستان کی خود انحصاری کی علامت بننا تھا، اس کے بجائے یہ ایک کیس سٹڈی بن گیا ہے کہ کس طرح بار بار تکنیکی ناکامیاں، سیاسی دباؤ اور انتظامی ناکامیاں تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتی ہیں۔

بھارتی خود انحصاری کے تصور کو دھچکا لگا ہے۔  بھارت کے ’’ آتم نربھرتا بھارت‘‘ (خود پر انحصار کرنے والا بھارت) اور "میک ان انڈیا" اقدامات کے ایک حصے کے طور پر تیجس قومی فخر کی علامت بن گئی ہے۔  بھارتی فضائیہ نے مستقل طور پر اس کی رینج، کارکردگی اور مینٹیننس پر تحفظات ظاہر کیے تھے۔

ذرائع کے مطابق تکنیکی خامیوں کے باوجود طیارے کو دبئی ایئر شو بھیجنے کا فیصلہ سیاسی دباؤ اور بیانیہ سازی کے تحت کیا گیا تاکہ بھارت دنیا کے سامنے اپنی فوجی نشاۃ ثانیہ پیش کرسکے ۔ لیکن نتیجہ اس کے برعکس مکمل تباہی کے صورت میں نکلا۔ 

تیجس پروگرام، جو 1980 کی دہائی میں شروع ہوا تھا، کو ہندوستان کا پرچم بردار مقامی لڑاکا قرار دیا گیا، جو جنگی ہوا بازی میں ملک کی خود انحصاری کی علامت ہے۔ تاہم تقریباً چار دہائیوں کی ترقی تاخیر اور تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔ یہ طیارہ صرف پچھلی دہائی میں کام کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس وقت بھی یہ مسائل سے دوچار ہے۔

ہوابازی اور ایروناٹکس کے ماہرین کے مطابق تیجس کے انجن کے ساتھ جاری مسائل خریداری اور سپلائی چین کے مسائل سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس طیارے کی ٹائم لائن 40 سالوں پر محیط ہے۔ یہ ٹائم لائن غیر مستحکم ڈیزائن کی ضروریات، تکنیکی خلا اور ہوائی جہاز کے لیے حتمی ترتیب کو منجمد کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔

 کئی سالوں میں، HAL کو کوالٹی کنٹرول کے بار بار مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے جس نے تیجس کے بیڑے کی حفاظت اور بھروسے سے سمجھوتہ کیا ہے۔ بھاری سرمایہ کاری کے باوجود HAL کی پیداواری صلاحیت IAF کے اندر تیجس طیاروں کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

 سیال کے لیک ہونے، پینل کی غلط ترتیب، مہروں پر وقت سے پہلے پہننے اور زمینی مسائل کی رپورٹوں نے تیجس کے بیڑے کو پریشان کر رکھا ہے۔ کوالٹی کنٹرول میں آٹومیشن کی کمی نے پیداوار کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گاڑیوں کے پارٹس کی درآمدات میں 123 فیصد کا بڑا اضافہ، مقامی مارکیٹ پر شدید دباؤ
  • دہشتگردی کی روک تھام کے لیے افغانستان پر بڑھتا عالمی دباؤ اور پاک افغان کشیدگی میں ثالث ممالک کا کردار
  • بچوں کے لیے محدود اسکرین ٹائم صحت مند بھی ہو سکتا ہے، تحقیق
  • رات کے وقت پستے کھانے کے صحت بخش فوائد سامنے آگئے
  • بھارت نے امریکی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے، روس سے تیل کی درآمد بند
  • امراض قلب سے بچنے کیلیے بالغ افراد کو 7 سے 9 گھنٹے نیند ضروری ہے، تحقیق
  • اختلاف رائے کو جابرانہ ہتھکنڈوں سے دبانا جمہوری اقدار کی سنگین پامالی ہے، میرواعظ
  • تاخیر، نقائص اور سیاسی دباؤ پر مشتمل تیجس طیارے کی کہانی
  • ناک سے خون آنا: کب معمولی ہے اور کب سنگین علامات کا اشارہ؟