امریکی بینک کا ریکوڈِک منصوبے کے لیے 1 ارب 25 کروڑ ڈالر قرض دینے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
امریکی ایکسپورٹ-امپورٹ (ایگزم) نے پاکستان میں ریکوڈک منصوبے کے لیے کے لیے 1 ارب 25 کروڑ ڈالر کا قرض دینے کا اعلان کر دیا۔
نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ایگزم بینک کے سربراہ نے بتایا کہ بینک پاکستان میں ریکو ڈِک منصوبے کے لیے 1 ارب 25 کروڑ ڈالر کا قرض دے گا، یہ قرض ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت امریکا 100 ارب ڈالر لگا کر اہم معدنیات، جوہری توانائی اور گیس کی سپلائی کو اپنے ملک اور اتحادی ممالک کے لیے مضبوط بنانا چاہتا ہے۔
فنانشل ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں چیئرمین جان یووانووچ نے کہا کہ پہلے مرحلے میں پاکستان، مصر اور یورپ میں مختلف منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک ان ذرائع پر بہت زیادہ بھروسہ کر رہے تھے جو اب ان کے لیے مناسب یا قابل اعتماد نہیں رہے۔
جان یووانووچ کے مطابق ہم وہ سب کچھ نہیں کر سکتے جس کی کوشش کر رہے ہیں، جب تک کہ اہم خام مال کی یہ بنیادی سپلائی چین محفوظ، مستحکم اور فعال نہ ہو۔
انہوں نے ایف ٹی کو بتایا کہ بینک کے پاس کانگریس کی جانب سے مجاز کردہ 135 ارب ڈالر میں سے 100 ارب ڈالر اب بھی خرچ کرنے کے لیے باقی ہیں۔
ان کے مطابق بینک کے ابتدائی معاہدوں میں نیویارک کی کمیوڈٹیز گروپ ہارٹری پارٹنرز کی جانب سے مصر کو فراہم کی جانے والی 4 ارب ڈالر کی قدرتی گیس کے لیے کریڈٹ انشورنس گارنٹی بھی شامل ہوگی۔
ایگزم بینک نے اس حوالے سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
روس ٹرمپ امن منصوبے سے متفق، یوکرین رکاوٹ ہے: صدر پیوٹن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے 28 نکاتی امن منصوبے پر اصولی طور پر اتفاق کر لیا تھا، تاہم یوکرین کی مخالفت کے باعث امریکا نے اس پر پیش رفت روک دی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یہ بات کریملن میں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کے اجلاس کے دوران کہی، اجلاس کے آغاز میں چیئر آف فیڈریشن کی سربراہ ویلنٹینا ماتویینکو نے پیوٹن سے ٹرمپ کے منصوبے اور الاسکا میں ہونے والی ملاقات سے متعلق سوال کیا۔
پیوٹن نے جواب میں بتایا کہ امریکی انتظامیہ نے روس سے لچک دکھانے کی درخواست کی تھی، اور روس نے ان تجاویز سے اتفاق کر کے اپنا مثبت مؤقف واضح کر دیا تھا۔
صدر پیوٹن کے مطابق ٹرمپ کا امن منصوبہ الاسکا ملاقات سے پہلے بھی زیرِ غور تھا اور ملاقات میں روس نے دوبارہ اس سے اتفاق کی تصدیق کی، روس نے چین، بھارت، برازیل، جنوبی افریقہ، کوریا اور او ڈی کے بی کے تمام اتحادی ممالک کو مکمل طور پر اعتماد میں لیا، اور تمام شراکت دار ممالک نے اس ممکنہ معاہدے کی حمایت کی۔
پیوٹن نے الزام لگایا کہ امریکی انتظامیہ مذاکرات میں خاموشی اس لیے اختیار کیے ہوئے ہے کہ یوکرین اس منصوبے کو منظور کرنے پر آمادہ نہیں، یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی اب بھی روس کو اسٹریٹیجک شکست دینے کے وہم میں مبتلا ہیں اور انہیں میدانِ جنگ کی اصل صورتحال کا ادراک نہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 4 نومبر کو یوکرین دعویٰ کر رہا تھا کہ کوپیانسک میں صرف 60 روسی فوجی موجود ہیں، جبکہ حقیقت میں اس وقت پورا شہر روسی فوج کے کنٹرول میں آچکا تھا اور صرف چند علاقوں میں کلیئرنس آپریشن جاری تھا۔
صدر پیوٹن نے کہا کہ اگر یوکرین ٹرمپ منصوبے کو قبول نہیں کرے گا تو ایسے واقعات دیگر محاذوں پر بھی دہرائے جائیں گے، تاہم انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ روس امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ تمام نکات پر عملی گفتگو شروع کی جائے۔
اجلاس کے اختتام پر صدر نے 2026 میں روس کی او ڈی کے بی چیئرمین شپ اور نیو کولونیلزم کے خلاف روسی حکمتِ عملی سے متعلق پالیسی امور پر بھی گفتگو کی۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو امن معاہدہ قبول کرنے کے لیے آئندہ جمعرات تک کا وقت دیا ہے۔
دوسری طرف کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے تصدیق کی ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین میں امن قائم کرنے کے لیے امریکی تجویز کردہ 28 نکاتی منصوبے پر رابطوں کی نوعیت اور سطح ابھی طے نہیں ہوئی ہے۔
پیسکوف نے بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مذاکرات کی ضرورت اور رابطوں کی نوعیت پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔