سیاسی کشیدگی، افغان ٹریڈ ہول سیل ڈیلرز کے کروڑوں ڈوب گئے
اشاعت کی تاریخ: 20th, November 2025 GMT
راولپنڈی:
پاکستان اور افغانستان میں سیاسی کشیدگی سے طورخم بارڈر سے تجارت کی کئی ہفتوں سے مسلسل معطلی کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد کے 2 درجن بھر چھوٹے بڑے ہول سیل ڈیلرز بڑے تاجروں کے کروڑوں روپے ڈوب گئے ہیں اور یہ تاجر کروڑ پتی سے ککھ پتی بن گئے۔
ان ہول سیل ڈیلرز نے افغان تاجروں کو انگور، قندھاری انار، سبزی خصوصی طور خشک پھل ،کشمش، خشک خوبانی کیلیے ایڈوانس میں ادائیگیاں کی تھی اس سبزی پھل انگور انار خشک میوہ جات کے بھرے کنٹینرز ٹرالے کئی ہفتوں سے طورخم افغان علاقے میں کھڑے ہیں۔
اب یہ پھل سبزی انار انگور گلنے سڑنے سے بہت سے ٹرالے واپس افغان منڈیوں میں جانا شروع ہوگئے، انہوں نے اس کے متبادل رقوم کی پاکستانی تاجروں ہول سیل ڈیلرز کو ادائیگی سے بھی انکار کرتے کہا ہے کہ یہ تمام مال افغان سرحد کئی ہفتے سے موجود ہے خراب گلنے سڑنے والے پھل کے افغان تاجر ذمہ دار نہیں ہیں۔
راولپنڈی اسلام آباد کی ہول سیل منڈیوں کے تاجروں نے بتایا ہول سیل ڈیلرز نے 4 ، 5 ،8 ، 10 کروڑ اور ایک بڑے تاجر گروپ کے 15 کروڑ بھی شامل ہیں خشک میوہ جات بابت افغانی متبادل کے لئے 15 سے 20 فیصد کٹوتی ساتھ ڈیل کے لئے رضا مند دکھائی دیتے ہیں۔
انجمن تاجراں سبزی منڈی کے صدر غلام قادر میر نے بتایا کے جڑواں شہروں سمیت انگور انار کی 600 سے 700 روپے کلو قیمت کی وجہ بھی یہی ہے کہ افغانستان سے ان پھلوں کی سپلائی بند ہو گئی ہے، ان کے سرحد پار کھڑے کنٹینرز ٹرالوں کو آخری بار پاکستان آنے کی اجازت دے دی جائے ۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
92 فیصد تاجروں نےصورتحال منفی قراردیدی،گیلپ سروے
لاہور:گیلپ سروے نے معاشی بہتری کے حکومتی دعوﺅں کاپول کھول کے رکھ دیا، 92 فیصد کاروباری طبقے نے کاروباری صورتحال منفی قرار دے دی، 88 فیصد کا مستقبل سے مایوس، ملکی سمت سے متعلق کاروباری اداروں کی رائے منفی 8 فیصد ہو گئی۔
گیلپ پاکستان نے بزنس کانفیڈنس انڈیکس 16ویں ویوکی رپورٹ جاری کردی ہے۔سروے کے نتائج کے مطابق اگرچہ 2025کی دوسری سہ ماہی کے مقابلے میں ملک کی مجموعی سمت کے بارے میں کاروباری اعتماد میں معمولی کمی آئی ہے تاہم مجموعی طورپر کاروباری اعتماد اب بھی 2024کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں مثبت ہے۔
موجودہ کاروباری صورتحال کے بارے میں مثبت تاثر گزشتہ سروے کے 20فیصد سے کم ہوکر 8فیصد ہوگیا ہے، جواس بات کی عکاسی ہے کہ گزشتہ سروے کے مقابلے میں کاروباری اداروں کی ایک نسبتا کم تعداد موجودہ حالات کو بہتر سمجھتی ہے۔
اسی طرح مستقبل کی توقعات کے بارے میں کاروباری اداروں کی رائے میں کمی آئی ہے اور گزشتہ سروے کے 22فیصد مثبت کے مقابلے میں کاروباری اداروں کی رائے 12فیصد مثبت ہوگئی ہے۔
ملک کی سمت کے بارے میں بھی کاروباری اداروں کی رائے گزشتہ سروے کے منفی 2فیصد کے مقابلے میں منفی 8فیصد ہوگئی ہے۔
اس کمی کے باوجودگزشتہ سالوں کے مقابلے میں کاروباری اعتماداب بھی بہتر ہے جو مستقبل میں بہتری کی امید ہے۔
سروے کے نتائج کے مطابق افراطِ زر اب بھی سب سے بڑا چیلنج ہے اور33فیصد شرکا نے اشیا کی قیمتوں میں استحکام کی فوری ضرورت پر زوردیا ہے۔
اگرچہ حالیہ سہ ماہیوں میں مہنگائی میں کمی کے رجحان کے باوجودچند ماہ سے خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ملک میں لوڈشیڈنگ کا بحران اب بھی جاری ہے اور سروے کے نتائج کے مطابق گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی 42فیصد کاروباری اداروں نے لوڈشیڈنگ کی اطلاع دی ہے۔
حکومت کی جانب سے بجلی کے انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے باوجودبجلی کی مسلسل فراہمی میں رکاوٹ پیداواری سرگرمیوں اور مجموعی معاشی کارکردگی کو متاثر کررہی ہے۔
معاشی حکمت عملی کے حوالے سے 46فیصد کاروباری اداروں نے پاکستان تحریکِ انصاف کے مقابلے میں موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے جس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 5فیصد اضافہ ہواہے۔
گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور اکنامک انڈیکٹرز سیریز کے ڈائریکٹر بلال گیلانی نے سروے کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ اس سروے میں اگرچہ اس سہ ماہی میں کاروباری اعتماد میں معمولی کمی آئی ہے تاہم رجحان اب بھی مثبت ہے۔
انہوں نے کہاکہ کاروباری اداروں کا واضح پیغام ہے کہ صرف استحکام کافی نہیں ہے۔مضبوط اور مسلسل اقتصادی ترقی ہی اعتماد کو مستقل طورپر بلند رکھ سکتی ہے۔