data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جماعت اسلامی کا ملک گیر اجتماع 21، 22، 23 نومبر 2025 کو لاہور میں ایسے موقع پر منعقد ہو رہا ہے جب پاکستان کی ریاست، سیاست اور معیشت بری طرح بگاڑ کا شکار ہے۔ ملک کی سیکورٹی پر بنیادی نوعیت کے سوالات اُٹھ رہے ہیں اور موجودہ دہشت گردی سے نمٹنا بھی ریاست اور حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ پاکستان میں عمومی طور پر یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ موجودہ نظام اپنی سیاسی، سماجی اور معاشی افادیت کھو چکا ہے اور اس نظام کو بدلے بغیر نہ تو ریاست کا نظام درست ہو سکتا ہے اور نہ ہی عوامی مسائل ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ موجودہ نظام کی اصلاح یا اس میں انقلابی اقدامات اٹھائے بغیر ملک کے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ سیاست، جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی پر ایک بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔ 26 اور 27 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد تو اس ملک کی طاقتور اشرافیہ نے ریاستی اور حکومتی نظام کو شخصی مفادات کے تابع کر لیا گیا ہے۔ حالیہ آئینی ترامیم کے بعد ملک میں سیاست، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔ ان ترامیم میں پارلیمانی سیاست اور پارلیمنٹ کا مذاق اُڑایا گیا ہے اس میں اگرچہ غیر سیاسی طاقتوں کے کھیل کو بالادستی حاصل ہوئی ہے اور پاکستان کی موجودہ حکومتی سیاسی جماعتیں جمہوریت پر سمجھوتا کر کے غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں کو مضبوط کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بھارت اور افغانستان کا باہمی گٹھ جوڑ پاکستان کے لیے نئی نئی مشکلات پیدا کر رہا ہے اور اگر افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر نہ ہوئے تو ہمیں ایک نئی شدت پسندی اور جنگ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ معاشی ترقی کے بڑے بڑے سیاسی دعوے عملاً سیاسی نعروں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی معیشت کا مستقبل بھی مخدوش ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں معیشت کی بہتری کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاوہ گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی کشیدہ ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں پختون خوا صوبائی حکومت کی جانب سے جو امن جرگہ منعقد کیا گیا ہے اور اس کا جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں بھی وفاقی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور صوبائی حکومت کے درمیان افغانستان کے تناظر ایک بڑا واضح ٹکراؤ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایسے میں جماعت اسلامی کا اجتماع عام ریاست کے بحران اور اس کو درپیش چیلنجز کے تناظر میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ جماعت اسلامی کو موجودہ ریاستی اور حکومتی نظام پر سخت تحفظات ہیں اور وہ سمجھتی ہے کہ جس طرح سے یہ نظام چلایا جا رہا ہے اس سے پاکستان کی مشکلات میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا۔ جماعت اسلامی کا بنیادی سلوگن بدل دو نظام ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی موجودہ نظام کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ریاست اور حکومت نے چاروں طرف سے قومی نظام کو جکڑ لیا ہے اور عدلیہ سمیت میڈیا اور جمہوریت پر مختلف نوعیت کی پابندیاں ظاہر کرتی ہیں کہ تبدیلی کے کسی بھی عمل کو آسانی سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ جماعت اسلامی کا یہ اجتماع عام اور اس کی مشترکہ قرارداد یا اعلامیہ پاکستان کے موجودہ بحران کا کیا حل پیش کرتا ہے اور کیا اس نظام کے خلاف ایک بڑی ممکنہ تحریک کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکے گی۔ لوگوں کو یقینی طور پر جماعت اسلامی کے اجتماع عام سے بہت سی توقعات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اجتماع سیاسی حالات میں بہتری کے لیے ایک درست سمت کا تعین کر سکتا ہے۔ نظام بدل دو کا نعرہ بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل درامد یا اس کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک بڑی سیاسی تحریک کی ضرورت ہے۔ یہ تحریک جماعت اسلامی سیاسی طور پر تن تنہا نہیں چلا سکے گی اور اسے عوامی حمایت بھی درکار ہوگی۔ اس وقت میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کے معاملات بھی کافی بگڑے نظر آتے ہیں۔ حکمران طبقہ اپنے خلاف اٹھنے والی تمام آوازوں کو طاقت کے ذریعے دبانا چاہتا ہے جس سے رد عمل کی سیاست جنم لے رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو اجتماع عام کے ذریعے اس بیانیے کو تشکیل دینا ہے کہ ملک کے موجودہ نظام کو تبدیل کیے بغیر ریاست کی سمت درست نہیں ہو سکتی اور یہ عمل ایک مشترکہ بڑی سیاسی جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ جس انداز سے طاقتور طبقات شخصی حکمرانی کو مضبوط کر رہے ہیں اس سے ملک میں انتشار کی سیاست کے سوا اور کچھ پیدا نہیں ہوگا۔ اس بات کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ خود طاقت کے مراکز میں اور سیاسی قوتوں کے درمیان طاقت کے اس نئے کھیل میں نیا ٹکراؤ دیکھنے کو ملے۔ اس وقت خیبر پختون خوا بلوچستان میں لوگ اسلام آباد سے نالاں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست طاقت سے ان کے بنیادی حقوق پامال کر رہی ہے۔ خود مختار عدلیہ جمہوری نظام میں کنجی سمجھی جاتی ہے مگر 26 ویں اور 27 ویں کی ترمیم کے بعد عدلیہ کو قانونی طور پر مفلوج کر کے اس پر حکومتی کنٹرول کو بڑھا دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کو ایک طرف سیاسی حکمت عملی درکار ہے تو دوسری طرف ایک بڑی قانونی جنگ کا بھی سامنا ہے جو عدالتی محاذ پر لڑی جائے گی۔ لوگوں میں یہ شعور پیدا کرنا کہ بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوئی ہیں اور اب ان کے مقابلے میں ایک نئی سیاسی قیادت درکار ہے جو اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ملک کے نظام میں ایک بڑی تبدیلی کو پیدا کر سکے۔ یہ عمل نوجوانوں کو جوڑے بغیر ممکن نہیں ہے اور آج پاکستان کا نوجوان عملی سیاست میں ووٹ کی بنیاد پر ایک بڑی سیاسی طاقت بن چکا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس نظام کی لڑائی میں نوجوانوں کو متحد کرنا اور ان کے سامنے ایک پرامن سیاسی جدوجہد کا راستہ رکھنا بھی اہم ذمے داری کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ جو ملک میں یک طرفہ حکمرانی یا شخصی حکمرانی کا نظام پیدا کیا جا رہا ہے اس کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ آج ڈیجیٹل نظام نے بنیادی اہمیت اختیار کر لی ہے اور اسی کے ذریعے دنیا میں بیانیے کی جنگ بھی لڑی جا رہی ہے۔ اس لیے ڈیجیٹل میڈیا میں نظام کی تبدیلی کی ایک بڑی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے اور اس کی مدد سے ریاست اور حکمرانی کے نظام میں ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا کرنا بھی وقت کی بڑی ضرورت بنتی جا رہی ہے۔ نظام کی تبدیلی جلسے جلوس کی سیاست یا جذباتیت پر مبنی نعروں سے ممکن نہیں، اس کے لیے عملی سطح پر ٹھوس سیاسی حکمت عملی اور اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر جماعت اسلامی کا یہ اجتماع عام لوگوں کو ایک درست راستہ دینے میں کامیاب ہو جائے یا ایک ایسا روڈ میپ سامنے آ جائے جس کی مدد سے نظام میں تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے تو یقینی طور پر لوگ بھی اس تبدیلی کے عمل میں کھڑے ہوں گے۔ تبدیلی کا یہ عمل کسی مسلح جدوجہد سے ممکن نہیں بلکہ ہمیں سیاسی اور قانونی محاذ پر ایک پرامن جنگ کی بنیاد پر ریاست پاکستان کا مقدمہ لڑنا ہوگا۔ کیونکہ اس وقت ملک میں جو معاشی تقسیم یا معاشی ناہمواریاں ہیں اس نے لوگوں کی زندگیوں میں بہت زیادہ مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ آمدنی اور اخراجات کے عدم توازن نے خود مڈل کلاس طبقے میں بے چینی پیدا کی ہوئی ہے۔ اگر ہماری سیاسی جماعتوں نے سیاسی نظام کی تبدیلی میں وہ کردار ادا نہ کیا جو آج ریاست کی ضرورت ہے تو پھر یہ نظام عام لوگوں پر اور زیادہ سیاسی اور معاشی بوجھ کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ایک زمانے میں یہ نعرہ لگتا تھا کہ چہرے نہیں نظام کو بدلو اور اب واقعی ہمیں چہروں کی تبدیلی کے بجائے نظام کی تبدیلی پر توجہ دینی ہوگی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی کا نظام کی تبدیلی کی ضرورت ہے ممکن نہیں اور حکومت بڑی سیاسی ہے اور اس کی سیاست ہے اور ا ایک بڑی نظام کو ہیں اور ملک میں پیدا کر میں ایک کیا جا رہی ہے ہیں کہ رہا ہے کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
ریاست سے کوئی بھی فرد یا گروہ طاقتور نہیں ہوسکتا، کاشف سعید شیخ
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سندھ نے کہا کہ 27 کے بعد 28ویں ترمیم بھی دراصل ڈکٹیٹر شپ کی طرف پیش قدمی اور صوبوں کے حق حاکمیت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہے، حقیقیت میں خوشحال صوبے ہی مضبوط و مستحکم ملک کی ضمانت ہوتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے کہا ہے کہ ریاست سے کوئی بھی فرد یا گروہ طاقتور نہیں ہوسکتا، مسنگ پرسن اور دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ باعث تشویش ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا یہ کہنا کہ صوبے میں دہشت گردی خود ساختہ اور خیبر پختونخوا کو تجربہ گاہ بنا دینے کا بیان وفاقی حکومت اور اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے، چھوٹے صوبوں کئے ساتھ ناروا سلوک اور ان کے قدرتی وسائل پر قبضے کی کوششوں سے دوریوں میں مزید اضافہ ہوگا، 27 کے بعد 28ویں ترمیم بھی دراصل ڈکٹیٹر شپ کی طرف پیش قدمی اور صوبوں کے حق حاکمیت پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہے، حقیقیت میں خوشحال صوبے ہی مضبوط و مستحکم ملک کی ضمانت ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی ملک کی نظریاتی و جغرفائی سرحدوں کو مزید مضبوط اور ظالمانہ و جاگیرادرانہ نظام کے خاتمہ کے لیے بدل دو نظام کی تحریک شروع کرنے جارہی ہے، 21 اکتوبر کو مینار پاکستان کا اجتماع عام اس سلسلے کی کڑی ہے، ذمے داران اجتماع عام کی تیاریوں کو حتمی شکل دیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آڈیٹوریم میں اجتماع عامی کی تیاریوں کے سلسلے میں امرائے اضلاع و قیمین سندھ کے آن لائن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صوبائی جنرل سیکرٹری محمد یوسف، ڈپٹی جنرل سیکرٹری محمد مسلم، عبدالقدوس احمدانی، نواب مجاہد بلوچ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اجلاس کے دوران کراچی تا کشمور اجتماع کی تیاریوں، شرکاء کی روانگی، اجتماع فنڈ، اجتماع گاہ میں رہائش و دیگر ضروریات کا بھی جائزہ لیا گیا۔