Express News:
2025-08-07@08:24:30 GMT

پاکستانی ورنا نظام

اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT

کتابوں میں پڑھا تھا کہ ورنا نظام صرف ہندوستان تک محدود تھا۔ پر ہمیں کیا خبر تھی کہ اس کا ری میک پاکستانی بجٹ ورژن کی صورت میں ہمیں تقریباً ہر سال ہی براہِ راست دیکھنے کو ملے گا۔

پڑھا یہ تھا کہ ہندو مت میں ورنا نظام کے نام سے سماجی طبقات (ورناس) کا ایک قدیمی نظام ہوتا تھا جس کے مطابق قدیمی ہندو معاشرہ چار بنیادی درجات (ورناس) میں تقسیم تھا۔ پہلے نمبر پر برہمن ورگ تھے جس میں شامل برہمن سب سے اعلیٰ درجے میں شمار ہوتے تھے ان کا کام مذہبی رسومات ادا کرنا، تعلیم دینا اور ویدوں کی تعلیم دینا بھی تھا یعنی یہ پجاری اور استاد کے ساتھ ساتھ مشیر ہوتے تھے۔

ورناس میں دوسرے درجے پر کشترِیَ ورگ تھے یہ حکمران، سپاہی (جنگجو) طبقہ تھا۔ ان کا کام حکومت کرنا، راج کا تحفظ کرنا اور اپنے اور برہمن کے بنائے ہوئے قانون و عدل کو نافذ کرنا تھا۔

تیسرے درجے پر وَیشیَ ورگ ہوتے تھے یہ تاجر، کسان اور کاروباری لوگ ہوتے تھے۔ ان کا کام تجارت، زراعت اور مویشی پروری تھا۔ چوتھے درجے پر شودر ورگ سمجھے جاتے تھے یہ سب سے نچلا درجہ سمجھا جاتا تھا ان کا کام خدمت کرنا اور دوسرے طبقات کے لیے مزدوری و معاونت فراہم کرنا تھا۔

ذات پات پر مبنی ورنا نظام کے بعد ایک انتہائی نچلے درجے پر اچھوت یا ہریجن ہوتے تھے انھیں بہت نیچ سمجھا جاتا تھا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ جدید ہندوستان میں انھیں دلت کہا جاتا ہے۔

اب اخبارات میں پڑھا کہ پاکستان میں سینیٹ چیئرمین، اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں 630 فیصد اضافہ، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، اراکین قومی اسمبلی، اراکین سینیٹ کی تنخواہوں میں تقریباً تین سو فیصد اضافہ، بجٹ سے پہلے کر دیا گیا پھر وفاقی اور صوبائی بجٹ میں وفاقی اور صوبائی افسران و ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ کر دیا گیا جب کہ ٹیکس دینے والے پرائیویٹ ملازمین کی آمدنی پر اور غریب عوام پر اتنا ٹیکس لاد دیا کہ ان کی سانسیں بس چل رہی ہیں۔

اب یہاں پر بھارتی ورنا سسٹم اور پاکستان میں اس مراعات سسٹم میں مماثلت تلاش نہ کی جائے۔ پاکستان میں اعلیٰ طبقے یا پھر ملک کے چھ سو مخصوص خاندانوں تک بجٹ سے پہلے ہی اعلیٰ ترین ثمرات پہنچا دیے گیے ہیں۔

بجٹ میں اکیس بائیس گریڈ کے افسران کی مراعات میں اضافہ کیا گیا جن کو پہلے کی مراعات کی موجودگی میں اس کی ویسے بھی ضرورت نہیں تھی۔ سترہ گریڈ سے بیس گریڈ تک کے افسران کی اکثریت اب رینکرز جیسی لوٹ مار کی سوچ رکھتے ہیں اور قومی خزانے و قوم کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

بجٹ میں ہمیشہ ریڑھ کی ہڈی پرائیوٹ اداروں کے تنخواہ دار ملازمین ہوتے ہیں جن سے ان کی مرضی کے بغیر ہی ہر ماہ ایٹ سورس ٹیکس کاٹا جاتا ہے اور سب سے زیادہ پریشان بھی اسی طبقے کو کیا جاتا ہے۔اب اس طبقے کو فائلر قرار دے کر اس میں سے نان فائلر نیا طبقہ بنایا جا رہا ہے جس میں سفید پوش اور پندرہ سے بیس ہزار کی تنخواہ پر گزارہ کرنے والے شامل ہیں جن کے ساتھ جو زیادتی ہو رہی ہے اس پر، اُن کے ووٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچنے والے مجسمے بنے ہوئے ہیں ،ان کی آواز اپنی تنخواہوں میں تین/ تین سو فیصد تک اضافہ کرانے کے لیے ہی بلند ہوتی ہے جب کہ حکومت اپنی ہی جانب سے کم سے کم مقرر کردہ تنخواہوں کے معاملے میں آج تک اپنی رٹ ہی نہیں منوا سکی ہے کیونکہ یہ مسئلہ پاکستانی ورنا نظام سے باہر کے طبقے کا مسئلہ ہے یعنی ہندو ورنا نظام کتابوں میں رہ گیا یا پھر اب پاکستانی بجٹ یا پھر نظام میں زندہ ہے بس نام بدلے ہیں۔

یاد رہے کہ بھارت میں ورنا بطور ایک رسمی و پیدائشی طبقات کا نظام آج کسی قانونی ساخت میں موجود نہیں اور اس کے حوالے سے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ ماضی کی چیز ہے لیکن ’’ذات پر مبنی شناخت‘‘ اور اس کے اثرات اب بھی بھارتی سماج اور سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تو اسی طرح پاکستان میں تین فیصد اشرافیہ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور طاقتور حلقوں میں شامل بااختیار، قانون و آئین سے بالا، روایتی یا وراثتی طور پر طاقتور و مراعات یافتہ، پیدائشی حق حکمرانی کی طاقت رکھنے والے خواص، پاکستانی معاشرے میں سرفہرست رہنے کے لیے ہمیشہ اقدامات کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پاکستان میں دلت (غریب عوام) بجٹ میں پستے رہیں۔

پاکستان میں ورنا نظام کو اگر تنخواہ، تعلق، طاقت اور ٹیکس سے ناپا جائے تو پھر خلاصہ کچھ یوں ہو سکتا ہے۔ ہر چیز پر قابض طاقتور اشرافیہ برہمن، اختیار و اسمبلی کارڈ والے کشترِیَ، اہم سرکاری عہدے والے ویشا اور غریب عوام سے جو ٹیکس کے نام پر خون پسینے کی کمائی نکلوائے وہ شودر جب کہ جو ہر چیز پر بلاجواز ٹیکس پر ٹیکس بھرے وہ پاکستانی شاید دلت ہو سکتے ہیں۔

دلتوں کے شاید کوئی حقوق نہیں ہوتے‘ وہ تمام تر خدمات اور قربانی کے باوجود معاشرے کا پسماندہ ترین حصہ ہی رہتے ہیں۔ انصاف کے فیصلے بھی ان کے حق میں نہیں ہوتے‘ یہ دلت نما عوام ظلم کے تمام ضابطوں کو نصیب کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتے اور خاموش رہتے ہیں۔یعنی ہندوستان کے ورنا نظام کو صدیوں پہلے قانون نے بظاہر ختم کر دیا لیکن پاکستان کا مراعاتی نظام اور اس سے فیض یافتہ طبقہ، کسی قانون سے خوفزدہ نہیں، کیونکہ قانون اکثر ان کے قدموں میں ہوتا ہے اس لیے تجویز یہ ہے کہ اگلی مردم شماری میں’’اشرافیہ‘‘ اور ’’عوام‘‘ کو الگ الگ ذات کے طور پر شمار کرایا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تنخواہوں میں پاکستان میں ان کا کام کے لیے اور اس

پڑھیں:

وزیراعظم کا پی آر اے ایل کو 6 ماہ میں ختم کرنے کا حکم

ویب ڈیسک : وزیراعظم شہباز شریف نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی آئی ٹی کمپنی پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (PRAL) کو 6ماہ میں ختم کرنے کا دیا ہے .
حکومتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے گزشتہ ماہ یہ فیصلہ اس وقت کیا جب PRAL کے بورڈ اراکین بھی اجلاس میں موجود تھے۔

 PRAL گزشتہ تین دہائیوں سے ایف بی آر کیلیے ٹیکس ریٹرن جمع کرانے، ٹیکس ادائیگی اور دیگر اہم ڈیٹاکا مرکزی ذخیرہ رہی ہے، تاہم اس کا موجودہ ہارڈویئر اور سافٹ ویئر فرسودہ ہوچکا ہے، جس سے اس کی سروسزکی پائیداری پر سوالات اٹھ گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے پارلیمنٹ کے پانچ اور صوبائی اسمبلی کے تین ارکان کو نااہل قرار دے دیا،9 نشستیں خالی ہو گئیں

2019 میں حکومت نے PRAL کے نظام کو جدید بنانے کیلیے غیر ملکی قرض لیا تھا، جس میں عالمی بینک سے 400 ملین ڈالر کی رقم شامل تھی، مگر 80 ملین ڈالر کی آئی ٹی اپ گریڈیشن کیلیے مختص رقم کے باوجود تمام ڈیڈلائنز ختم ہوچکی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر میں اصلاحات اور آئی ٹی کے دو الگ الگ ونگز کی وجہ سے ذمہ داری اور اختیار کا توازن بگڑگیا، جس سے نظام کی بہتری میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ نیا ادارہ ماہر پیشہ ور افراد پر مشتمل ہو، مکمل مالی اور انتظامی خودمختاری کا حامل ہو، اور ایف بی آر کی ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کیلیے عالمی معیار کی سروسز فراہم کرنے کے قابل ہو، تاہم ماہرین کے مطابق، سال کے آخر تک مکمل طور پر نیا ادارہ قائم کرنا اور PRAL کی ذمہ داریاں سنبھالنا بڑا چیلنج ہوگا، خاص طور پر جب PRAL میں چیف انفارمیشن سیکیورٹی آفیسر کی بھرتی بھی ممکن نہ ہوسکی۔

خاتون نے بوائے فرینڈ سے تحفے کے طور پر لیے آئی فونز فروخت کرکے اپنا گھر خرید لیا

ادھر ایف بی آر کے تین بڑے ڈیٹا سینٹرزاسلام آباد کے ایف بی آر ہاؤس، سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک اورکراچی کے کسٹمز ہاؤس کی حالت بھی ناقص ہوچکی ہے، جنہیں آخری بار 2010 میں اپ گریڈکیاگیا تھا، حکومت نے 14 اگست کو نئے ڈیٹا سینٹرزکاافتتاح کرنے کا ہدف رکھا ہے تاہم سرورز کی تیاری مکمل نہ ہونے کے باعث تاخیر کا خدشہ ہے۔

مزید برآں، ٹیکس پالیسی سے متعلق وزیراعظم کے حالیہ اجلاس میں بتایاگیا کہ ایف بی آر نے بعض تاجروں سے مفاہمت کے باعث سخت اقدامات سے پیچھے ہٹ کر کمزور پوزیشن اختیار کی ہے، جس سے ریونیو اہداف متاثر ہو سکتے ہیں۔

4 روزہ تعطیلات، بڑی خوشخبری آگئی

متعلقہ مضامین

  • ڈیجیٹل معیشت کی جانب اہم قدم، کاروباری لائسنس کے لیے کیو آر کوڈ لازم
  • جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کا تسلسل
  • دارالحکومت میں کیش لیس نظام متعارف کروانے کا فیصلہ
  • اسلام آباد میں سی ڈی اے کے شعبوں میں کیش لیس نظام نافذ کرنے کا فیصلہ
  • سی ڈی اے کا کیش لیس نظام متعارف کروانے کا فیصلہ
  • وزیراعظم کا پی آر اے ایل کو 6 ماہ میں ختم کرنے کا حکم
  • سعودی عرب میں تعلیمی نظام میں بڑی تبدیلی، 2 سیمسٹر کا ماڈل دوبارہ نافذ العمل
  • آن لائن خریداری پر ٹیکس کٹوتی کا نیا نظام متعارف
  • ایف بی آر کا بڑا اقدام: آن لائن خریداری پر سیلز ٹیکس کٹوتی کا نیا نظام متعارف کرادیا
  • ویڈیو گیمز تو کام کے نکلے، دیکھیے یہ فالج کے مریضوں کی کیسے مدد کرسکتے ہیں؟