کراچی: ملیر اور اطراف میں زلزلے کے جھٹکے، شدت 3.8 ریکارڈ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
—فائل فوٹو
کراچی کے علاقے ملیر اور اس کے اطراف میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے جنکی شدت 3.8 ریکارڈ کی گئی۔
محکمۂ موسمیات کے مطابق زلزلے کا مرکز ملیر کے شمال میں 5 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔
محکمہ موسمیات نے بتایا ہے کہ زلزلہ 6 بجکر 30 منٹ پر ریکارڈ کیا گیا۔
محکمۂ موسمیات کا یہ بھی کہنا ہے کہ زلزلے کی گہرائی زمین کے اندر 10 کلو میٹر تھی۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
ٹیکنالوجی کی بنیاد، سیمی کنڈکٹر
ٹیکنالوجی کی دنیا میں اگر کسی ایک ایجاد کو بنیاد کہا جائے تو وہ سیمی کنڈکٹر ہے۔ یہ ایک ایسا عنصر ہے جو عموماً سلیکون کو پراسس کرکے کئی مراحل سے گزارنے کے بعد تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ نہ مکمل طور پر بجلی کا موصل ہوتا ہے اور نہ ہی غیر موصل، بلکہ درمیانی خصوصیات رکھتا ہے۔
یہی خاصیت اسے برقی سرکٹس اور جدید الیکٹرانک آلات کے لیے مثالی بناتی ہے، جب اسے مخصوص طریقے سے بنایا جائے تو یہ لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں ٹرانزسٹرز پر مشتمل ایک چِپ کی صورت اختیار کرلیتا ہے، جو ہر جدید آلے کا دماغ کہلاتی ہے۔
دنیا کا کوئی بھی جدید آلہ خواہ وہ کمپیوٹر ہو، موبائل فون، گاڑی کا سینسر، دفاعی نظام، ڈرون، مصنوعی سیارہ، صنعتی روبوٹ، بینکنگ سسٹم، طبی آلہ یا گھریلو برقی مشین، یہ سب سیمی کنڈکٹر کے بغیر ادھورا ہے۔ یہ چِپ دراصل جدید معیشت، دفاع، صنعت اور روزمرہ زندگی کے ہر پہلو میں اپنی موجودگی سے انقلاب لا چکی ہے۔
سیمی کنڈکٹر کی تیاری کے 3 بڑے مراحل:
ڈیزائننگ، مینوفیکچرنگ اور ٹیسٹنگ
ڈیزائننگ میں چپ کی ساخت، رفتار اور توانائی کے استعمال کا تعین کیا جاتا ہے۔ مینوفیکچرنگ کے مرحلے میں نینو میٹر سطح پر انتہائی حساس مشینوں کے ذریعے ٹرانزسٹر تیار کیے جاتے ہیں، جبکہ ٹیسٹنگ کے دوران تیار شدہ چِپ کا معیار، رفتار اور حرارت کے لحاظ سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ ٹرانزسٹر کا سائز نینو میٹر میں ناپا جاتا ہے؛ جتنی چھوٹی چِپ ہو گی وہ اتنی ہی تیز رفتار اور کم توانائی استعمال کرنے والی ہوگی۔
ماضی میں 90 اور 45 نینو میٹر ٹیکنالوجی عام تھی، بعد ازاں 28 اور 14 نینو میٹر چِپس بنیں، پھر 7 سے 3 نینو میٹر کی جدید چِپس متعارف ہوئیں، اور اب 2 نینو میٹر کی تیاری جاری ہے۔
حال ہی میں وزیر اعظم شہباز شریف نے سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی کے شعبے میں قومی سطح پر تحقیقی اور تربیتی منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، اس اقدام کا مقصد مقامی انجینئروں کو چِپ ڈیزائننگ، ویفر ٹیسٹنگ اور مائیکرو الیکٹرانکس کے عملی کاموں سے روشناس کرانا ہے۔
یہ قدم ٹیکنالوجی کی اصل بنیاد یعنی سیمی کنڈکٹر کی تیاری کی سمت ایک درست آغاز ہے، جو مستقبل میں پاکستان کو اس میدان میں خود کفالت کی طرف لے جا سکتا ہے۔
چونکہ سیمی کنڈکٹر ایک انتہائی پیچیدہ شعبہ ہے، اس لیے دنیا کے بڑے ممالک بھی بیک وقت تینوں مراحل پر مکمل گرفت نہیں رکھتے۔ پاکستان کو طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت ابتدا ڈیزائننگ اور ٹیسٹنگ کے شعبوں سے کرنی چاہیے، کیونکہ ان میں نسبتاً کم سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ جب تربیت یافتہ افرادی قوت اور تجربہ حاصل ہو جائے تو اگلے مرحلے میں مینوفیکچرنگ کی جانب پیش رفت ممکن ہوگی۔
پاکستان میں نوجوانوں کے لیے اس وقت چند روایتی، ڈیجیٹل، آئی ٹی اور فری لانسنگ جیسے متعدد کورسز دستیاب ہیں، جو انہیں روزگار کے بنیادی مواقع فراہم کرتے ہیں، تاہم اگر ان تربیتی پروگراموں میں سیمی کنڈکٹر چِپس کی ڈیزائننگ، مینوفیکچرنگ اور ٹیسٹنگ سے متعلق عملی تربیت شامل کر دی جائے تو یہ نہ صرف نوجوانوں کے لیے عالمی منڈی میں نئے اور وسیع مواقع پیدا کرے گا۔
بلکہ پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی اور برآمدات کے میدان میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے طور پر بھی سامنے لا سکتا ہے۔ یہی وہ سمت ہے جہاں سے پاکستان کی ٹیکنو اکانومی کی حقیقی بنیاد مضبوط ہو سکتی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں