چینی مافیا بے لگاممختلف شہروں میں قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(آن لائن) چینی مافیا بے لگام،مختلف شہروں میں قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں ،ملک کے مختلف علاقوں میں چینی فی کلو قیمت 195 روپے تک فروخت ہونے لگی۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سب سے زیادہ مہنگی چینی 195 روپے فی کلو میں دستیاب ہے جبکہ جڑواں شہر راولپنڈی میں چینی فی کلو قیمت 190 روپے میں فروخت ہونے لگی ہے اسی طرح کراچی اور پشاور کے شہری بھی فی کلو چینی 190 روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں ۔رپورٹ کے مطابق کوئٹہ میں فی کلو چینی 186 روپے،خضدار میں 185 روپے میں دستیاب ہے ،سیالکوٹ میں فی کلو چینی کی قیمت 185 روپے کی سطح تک ریکارڈ پر پہنچ گئی ہے ۔ اسی طرح حیدر آباد،بہاولپور اور ملتان میں فی کلو چینی کی قیمت 180 روپے، سکھر اور لاڑکانہ میں فی کلو چینی کی قیمت 175 روپے ریکارڈ کی گئی ہے ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملتان اور بنوں میں بھی فی کلو چینی کی زیادہ سے زیادہ قیمت 180 روپے ریکارڈ کی گئی ہے ۔حکومت گزشتہ روز چینی کی برآمد کے بعد ساڑھے سات لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ وزارت فوڈ سیکیورٹی حکام کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ فیصلہ چینی کی قیمتوں میں توازن برقرار رکھنے کیلئے کیا گیا 2 لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن خام چینج درآمد کی منظوری کابینہ دے گی 5 لاکھ میٹرک ٹن ریفائن چینی درآمد کرنے کی اصولی منظوری کابینہ سے لی جا چکی۔ وزارت کا کہنا تھا کہ جولائی تا مئی حکومت 7 لاکھ 65 ہزار میٹرک ٹن سے زائد چینی برآمد کر چکی ہے چینی کی برآمد سے 112 ارب روپے سے زائد کی آمدن حاصل کی گئی چینی کی حالیہ برآمدات میں گزشتہ سال کی نسبت 22 سو فیصد سے زائد کا اضافہ رہا، چینی کی برآمد سے مارکیٹ میں قلت اور اضافی قیمتوں کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: میں فی کلو چینی فی کلو چینی کی چینی کی قیمت
پڑھیں:
امریکی ورک ویزا کی فیس میں ریکارڈ اضافہ، خواہشمندوں کی پریشانیاں بڑھ گئیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا میں کام کے خواہشمند غیر ملکی افراد کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ورک ویزا، خصوصاً ایچ ون بی ویزا، کی فیس میں ریکارڈ اضافہ کر دیا ہے۔
اب اس ویزا کے لیے درخواست دینے والے امیدوار اور انہیں اسپانسر کرنے والی کمپنیاں ایک لاکھ ڈالر کی بھاری رقم ادا کرنے پر مجبور ہوں گی۔ یہ فیصلہ امریکی انتظامیہ کی نئی امیگریشن پالیسی کا حصہ بتایا جا رہا ہے جس کا مقصد غیر ملکی ملازمین کی آمد کو محدود کرنا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ نے اس پالیسی پر باقاعدہ دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد نہ صرف امیدوار بلکہ بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی شدید دباؤ میں آ گئی ہیں۔ صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل میں کچھ کمپنیوں پر اس سے زیادہ مالی بوجھ بھی ڈالا جا سکتا ہے تاکہ امریکی شہریوں کے لیے روزگار کے مواقع محفوظ رہیں۔
ماہرین کے مطابق سب سے زیادہ اثر ان کمپنیوں پر پڑے گا جو بھارت اور چین سے بڑی تعداد میں ماہرین کو امریکا لا کر بھرتی کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں عالمی سطح پر اپنی بھرتیوں کے نظام کو جاری رکھنے میں شدید مشکلات سے دوچار ہوں گی، کیونکہ خطیر رقم کی ادائیگی کے بعد بیرونی ہنر مند افراد کو ملازمت دینا ممکنہ طور پر غیر منافع بخش ہو جائے گا۔
اس فیصلے سے پہلے ایچ ون بی ویزا کے لیے فیس کا آغاز صرف 215 ڈالر سے ہوتا تھا اور مختلف مراحل میں یہ چند ہزار ڈالر تک پہنچتی تھی، لیکن اب اچانک ایک لاکھ ڈالر کی مقررہ فیس نے اس نظام کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ نہ صرف امیدوار بلکہ وہ کمپنیاں بھی مالی مشکلات کا شکار ہوں گی جو ان ماہرین پر انحصار کرتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے امریکا آنے کا خواب دیکھنے والے ہزاروں ہنر مند افراد کو شدید دھچکا لگا ہے۔ خاص طور پر وہ نوجوان جو اپنی تعلیم مکمل کر کے بہتر مستقبل کی امید میں امریکی ملازمت حاصل کرنا چاہتے تھے، اب ان کے لیے یہ راستہ بند ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
دوسری جانب ٹیکنالوجی انڈسٹری کے ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس فیصلے سے امریکا کی اپنی صنعت کو بھی نقصان ہوگا کیونکہ عالمی سطح پر مہارت رکھنے والے افراد کی دستیابی مشکل ہو جائے گی۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فیس میں اس قدر اضافہ امریکی مارکیٹ کی مسابقت کو متاثر کر سکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا ہمیشہ غیر ملکی ماہرین پر انحصار کرتا آیا ہے، لیکن نئی پالیسیوں کے نتیجے میں نہ صرف دیگر ممالک کو فائدہ پہنچے گا بلکہ امریکا کا ہنر مند افرادی قوت پر اعتماد بھی کمزور ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے نزدیک یہ قدم وقتی طور پر امریکی شہریوں کے حق میں دکھائی دیتا ہے، لیکن طویل المدتی تناظر میں یہ امریکا کی ٹیکنالوجی انڈسٹری اور عالمی معیشت میں اس کی برتری کو کمزور کر سکتا ہے۔ اس فیصلے نے جہاں کمپنیوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں وہیں ہزاروں خواہشمند افراد کے خواب بھی ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں۔