چیٹ جی پی ٹی آپ کے دماغ کیلئے نقصان دہ، ماہرین نے خبردار کردیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
حال ہی میں ماہرین نے ایک تحقیق کے ذریعے پایا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی دماغ کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کی حالیہ تحقیق کے مطابق اگر انسان زیادہ تر علمی کاموں میں چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کرے تو دماغی سرگرمی اور یادداشت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
تحقیق سے سامنے آیا ہے چیٹ جی پی ٹی استعمال کرنے والے گروپ میں یادداشت، سوچ اور تخلیقی صلاحیت والے حصوں میں سرگرمی کم دیکھی گئی۔ جبکہ جو افراد بغیر اے آئی کے کام کرتے تھے ان میں نیورل مشغولیت زیادہ اور ادراکی کارکردگی بہتر رہی۔
بہت زیادہ چیٹ جی پی ٹی استعمال کرنے سے تخلیقی سوچ اور یادداشت میں کمی آ سکتی ہے خاص طور پر مطالعے یا لکھائی جیسے کاموں میں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانوں کیلئے اس میں یہ سبق ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کو اپنی مجموعی ذہانت اور تخلیقی سوچ کی جگہ استعمال نہ کریں۔ چیٹ جی پی ٹی محض ایک "ذہنی سپورٹ" ٹول ہے، مکمل متبادل نہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چیٹ جی پی ٹی
پڑھیں:
1965ء، پاک فضائیہ نے ٹرانسپورٹ طیارے کو بطور بمبار طیارہ استعمال کر کے دشمن کو ہکا بکا کردیا
—تصویر بشکریہ پاک فضائیہ1965 میں پاک فضائیہ نے بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے سی-130 طیاروں کو بطور بمبار طیارہ استعمال کر کے دشمن کو حیران کردیا۔
ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ جاری تھی، پاک فضائیہ کو میدان جنگ میں مکمل فضائی برتری حاصل تھی، لیکن لاہور پر حملہ آور بھارتی فوج بدستور بی آربی کنال کی دوسری جانب مورچہ بند تھی اور لاہور شہر پر مزید حملوں کا خطرہ موجود تھا، دشمن بھاری توپ خانے سے مسلسل لاہور کے دفاع میں موجود ہماری بری فوج پر گولہ باری کر رہا تھا، اس صورتحال میں دشمن کو سبق سکھانے کے لیے پاک فضائیہ نے جارحانہ روش اختیار کی۔
21 ستمبر 1965ء کی شب پاک فضائیہ نے ایک منفرد قدم اٹھاتے ہوئے اپنے سی-130 ٹرانسپورٹ طیاروں کو بطور بمبار استعمال کرنے کا انوکھا فیصلہ کیا، اس سلسلے میں ان جہازوں میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں جس میں ان جہازوں کے پچھلے حصے میں موجود دروازوں کو عارضی طور پر ہٹا دیا گیا تاکہ بھاری گولہ بارود با آسانی دشمن پر گرایا جاسکے۔
یکم ستمبر 1965 کے تاریخی دن جب پاک فضائیہ کے شہبازوں نے دشمن کے عددی برتری کے غرور کو خاک ملاتے ہوئے اپنی فضائی برتری قائم کی تھی۔
یہ یقیناً ایک پُر خطر مشن تھا، مشن میں شامل پہلا طیارہ فلائٹ لیفٹیننٹ نذیر احمد اور فلائٹ لیفٹیننٹ جاوید حیات ملک جبکہ دوسرا طیارہ ونگ کمانڈر زاہد بٹ اڑا رہے تھے، اس حملے میں شامل سی- 130 ہرکولیس طیاروں نے رات 11 بجے دریائے راوی کو پار کیا اور 8 ہزار فٹ کی بلندی سے 18 ہزار پاؤنڈ وزنی بم دشمن کی پوزیشنز پر گرا دیے، حملہ کامیاب رہا اور دشمن کی 40 عدد بڑی توپیں فوری طور پر خاموش ہوگئیں اور گولہ باری کا سلسلہ فوری طور پر تھم گیا، یہ ایک کامیاب ضرب تھی، جس کو مزید تقویت دینے کے لیے کچھ وقفے کے بعد ایک اور ضرب ونگ کمانڈر زاہد بٹ(جو اس وقت پاک فضائیہ کے 35 ویں ونگ کے کمانڈنگ آفیسر تھے) نے لگائی، گو کہ پچھلے حملے کے بعد اب دشمن زیادہ چوکس ہوچکا تھا اور اب وہاں دشمن کی طیارہ شکن توپیں بھر پور فائرنگ کر رہی تھیں، لیکن ونگ کمانڈر زاہد بٹ نے انکی کوئی پرواہ نہیں کی اور اپنے مشن کو کامیابی سے مکمل کیا۔