Daily Ausaf:
2025-06-23@13:43:15 GMT

ایک اور نئی سیاسی جماعت وجود میں آگئی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

سیاسی تھکن کے اس ماحول میں کسی نئی سیاسی جماعت کا وجود میں آنا واقعی بڑے اچنبھے کی بات ہے-آج کل ہم چرچا سن رہے ہیں ایک نئی سیاسی جماعت عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا جس کے چیئرمین زیبر احمد انصاری ہیں-کافی دوستوں سے بات ہوئی،کچھ صحافیوں سے بھی تبادلہ خیال کیا تو معلوم ہوا زبیر احمد انصاری ہمہ وقت مصروف رہنے والی ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں نیٹ کھنگالا تو زبیر احمد انصاری کے متعلق کافی معلومات ملیں۔ پتہ چلا کہ وہ ایک محب وطن سچے اور پکے پاکستانی ہیں۔زندگی کے کتنے ہی سال سماجی خدمات کو دیئے ہیں۔سوشل کاموں کے لئے ہر وقت متحرک رہتے ہیں۔اللہ نے جتنی باکمال مردانہ وجاہت دی ہے انہیں اتنی ہی صفات سے بھی نوازا ہے۔محبت والا نرم دل رکھتے ہیں۔ملنسار بھی حد سے زیادہ ہیں۔ویسے تو جان پہچان ان سے کافی پرانی ہے۔گزشتہ دنوں ایک تقریب میں شرفِ ملاقات بھی حاصل ہوا جو کچھ انصاری صاحب کے متعلق سن رکھا تھا ویسا ہی پایا۔حقوق العباد کا بہت زیادہ خیال رکھنے والی شخصیت ہیں۔لاہور زبیر احمد انصاری کا مسکن اور سیاسی آماجگاہ ہے۔عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی صورت میں انہوں نے جس نئے سفر کا آغاز کیا ہے، اگرچہ بہت ہی مشکل اور کٹھن ہے۔لیکن حوصلے بلند اور ارادے مضبوہ ہوں تو مشکلیں، مشکلیں نہیں رہتیں۔سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔گورنمنٹ شاہ حسین کالج سے آئی کام (کامرس) کی تعلیم پانے والے زبیر احمد انصاری اپنی ذات میں انجمن ہیں۔دوسروں میں خوشیاں بانٹنا شروع ہی سے ان کا نصب العین رہا ہے۔انسانی حقوق کے لئے بہت سے کام کئے۔اب بھی ہیومن رائٹس کے علم کو لے کر آگے چل رہے ہیں۔ گھبرانا، ہارنا ان کی سرشت میں نہیں۔ اپنے اچھے کاموں کی بدولت بہت کم مدت میں بہت زیادہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد حیران کن حد تک روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ زبیر احمد انصاری کا تعلق انصاری کمیونٹی سے ہے جس کے چار کروڑ افراد پاکستان میں بستے ہیں۔تاہم زبیر احمد انصاری کی سوچ ہر قسم کے تعصب اور ذات برادری سے بالا تر ہے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حقوق العباد سے ہی نجات کا راستہ نکل سکتا ہیں اور وہ یہ کام نہایت احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اس افتاد زدہ ماحول میں ایک نئی سیاسی جماعت کا ابھر کر سامنے آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سیاست ابھی زندہ ہے۔سیاست کو مرنا بھی نہیں چاہیئے کہ اسی سے جمہوریت کا کاررواں چلتا ہے۔
جب مجھے عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قیام کا علم ہوا اور پتہ چلا کہ جماعت کو باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ بھی کرا لیا گیا ہے تو میں نے عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو جو معلومات حاصل ہوئیں ان کے مطابق عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (اے ایم ایم) ناصرف عوامی مقبولیت کے اعتبار سے کئی دوسری جماعتوں کو پیچھے چھورٹی ہوئی نظر آ رہی ہے بلکہ تنظیمی طور پر بھی اس کا ڈھانچہ توانا اور مضبوط ہے۔جو اس بات کی نوید ہے کہ یہ جماعت آنے والے دنوں میں اچھے نتائج کے ساتھ سامنے آئے گی اور بہت سی کامیابیاں سمیٹے گی۔حالیہ دنوں میں میری زبیر احمد انصاری سے ملاقات ہوئی تو اس پر آشوب سیاسی ماحول میں انہیں بہت پرعزم پایا، محسوس کیا کہ وہ عوامی امنگوں اور خوابوں کی عملی تعبیر بننا چاہتے ہیں۔اس وقت ملک میں سیاست کا جو حال ہے۔عوام سیاست سے جس طرح بیزار اور نالاں ہیں،زبیر احمد انصاری اس کا بہت اچھی طرح ادراک رکھتے ہیں۔چاہتے ہیں سیاست میں ایسا کچھ کر جائیں کہ لوگ انہیں یاد رکھیں۔ اس وقت ہم جس بڑے انتشار اور سیاسی بحران سے گزر رہے ہیں اور جس طرح کے سیاسی خطرات سے دوچار ہیں، کسی طرف سے بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی، قوم کے لئے اچھی امید پیدا کرنا خوش بختی کی علامت ہے۔کسی نے کیا خوب لکھا نئی سیاسی جماعت عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان موجودہ سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ یہ محض ایک جماعت نہیں، ایک فلسفے، ایک نظریے کا نام ہے۔ یہ جماعت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اسے پاکستان کی ایک بڑی، منظم اور باشعور انصاری کمیونٹی کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ انصاری کمیونٹی نے اپنے پلیٹ فارم سے اس نئی جماعت کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اور یہ اعلان عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی سیاسی کامیابی کی پہلی کنجی ہے۔ آگے کیا ہوتا ہے؟ کیا ہو گا؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن زبیر احمد انصاری کا ماضی دیکھتے ہوئے گمان گزرتا ہے کہ جو انہوں نے سوچا ہے سیاست میں کر کے ہی رہیں گے۔عوامی بہبود کے وہ جو کام کر رہے ہیں،ظاہر کرتے ہیں کہ سفر سیاست اختیار کرنے سے پہلے خوب سوچا ہو گا، سمجھا ہو گا۔ اس کے پیچ و خم سے مکمل آگاہی رکھی ہو گی۔ پھر ہی یہ سفر اختیار کیا ہو گا۔ آج سیاست میں بہت سی نفرتیں ہیں۔ کئی تلخ حقیقتیں دیکھنی پڑتی ہیں اور بہت سے کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ بہت سے دکھ ملتے ہیں اور بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن زبیر احمد انصاری مصمم ارادہ کئے ہوئے ہیں کہ کسی مشکل سے نہیں گھبرائیں گے۔ تلاطم زدہ اس کنفیوزڈ سیاسی ماحول میں زندگی کے وہ سارے رنگ بھریں گے جس کی تمنا لوگ کرتے ہیں اور ہر دم جس کے متلاشی رہتے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان میں مختلف منشور اور نظریات رکھنے والی 175 سے زیادہ جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔جنہیں آئین پاکستان کے تحت الیکشن لڑنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ان جماعتوں میں بعض مذہبی اورعلاقائی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ایسی جماعتیں بھی ہیں جو کمیونٹی کے نام پر ووٹ لیتی ہیں۔اگرچہ ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔ تاہم ان کے سیاسی وجود کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ ان رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ نئی جماعت آئندہ الیکشن میں کس طرح پرفارم کرتی ہے اور اپنے منشور کے ساتھ اپنے وجود کو کیسے منواتی ہے؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: نئی سیاسی جماعت پاکستان کے ماحول میں ہیں اور رہے ہیں

پڑھیں:

بالادست کون؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

یہ عجیب تبدیلی آئی ہے کہ آج جب بھی کوئی آواز اُٹھائے کہ ووٹ کو عزت دو، تو جواب میں نواز شریف بالکل خاموش، جب بھی کوئی یہ بات اٹھائے کہ سویلین بالادستی تو پھر بھی نواز شریف خاموش، کارگل میں کیا ہوا تھا؟ ابھی ماضی قریب کی بات ہے کہ نواز شریف پرویز مشرف کو برطرف کرکے مقدمہ بھی چلانا چاہتے تھے۔ پرویز مشرف پر آرٹیکل سکس کا مقدمہ بھی چلا مگر ایک روز کیا ہوا؟ کہ کوئی انہیں عدالت میں لاتے لاتے اسپتال لے گیا اور جج عدالت میں بیٹھے انتظار کرتے رہے۔ تب عدالت کو ٹی وی چینل کے ٹکرز سے پتا چلا کہ پرویز مشرف ’’ملزم‘‘ راستے ہی میں رُخ موڑ کر اسپتال پہنچا دیے گئے ہیں۔ عدالت نے کچھ وقت تک انتظار کیا اور پھر سماعت ملتوی ہوگئی۔ اب بھی فیلڈ مارشل کی امریکی صدر سے ملاقات ہوئی ہے تو ہمیں اب یقین ہوگیا ہے کہ نواز شریف کے نعرے، دعوے اب کہیں نظر نہیں آرہے۔
بہت پرانی بات ہے راولپنڈی میں شیخ رشید احمد کو اپنی سیاست کے لیے سعود ساحر جیسے دماغوں کی ضرور ہوا کرتی تھی، دائیں بازو کے یہ صحافی بھی شیخ رشید احمد کے لیے لڑتے مرتے تڑپتے تھے۔ 2002 کے انتخابات کے بعد جب شیخ رشید احمد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بنائے گئے تو قبلہ سعود ساحر کے ساتھ ان کے چیمبر میں گیا کہ وزیر اطلاعات سے ملاقات کی جائے۔ یہ ملاقات ایسی تھی کہ دروازے سے نکلتے ہی قبلہ شاہ جی نے کہا میاں صاحب! اب شیخ رشید کو ہماری ضرورت نہیں رہی۔ قبلہ شاہ جی کی بات سو فی صد درست تھی اس لیے کہ اب شیخ رشید مسلم لیگ(ن) کی گردن پر پائوں رکھ کر چاند کے انتخابی نشان پر اسمبلی میں پہنچے تھے۔
2002 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے کل 70 امیدوار تھے جو چاند کے انتخابی نشان پر قومی اسمبلی میںپہنچے۔ اس وقت بھی راولپنڈی میں ایک عجیب سماں تھا۔ شیخ رشید احمد نے پوری انتخابی مہم میں دو نام تاڑ رکھے تھے ایک نام تھا بگا اور دوسرا تھا گنگو تیلی۔ یہ کون تھے؟ اور راولپنڈی مسلم لیگ(ن) ہر ایک راہنماء سے سوال ہے کہ 2002 اس وقت مسلم لیگ(ن) کے ہم خیال صحافیوں میں کون شیر کے ساتھ اور کون چاند کے ساتھ کھڑا تھا؟ یہ انتخابی مہم بہت نرالی تھی۔ جو امیدوار میدان میں تھے ان میں چاند والوں کو اپنی کامیابی کا یقین تھا۔ جب انتخابات میں کامیابی کا یقین کوئی اور دلائے تو پھر کوئی پاگل ہی ہوگا جو سویلین بالدستی کی بات کرے گا اور نعرہ لگائے گا۔ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اس وقت شیخ رشید احمد نے اپنی مرضی کی وزارت لی اور اس وقت تک وزارت کے مزے لیے جب اقتدار کی مدت نصف ہوچکی تھی بعد میں شیخ رشید احمد کو میر ظفر اللہ جمالی کی جگہ وزیر اعظم شوکت عزیز سے واسطہ پڑا اور انہیں محمد علی درانی کی دوستی میسر آگئی حالانکہ شیخ رشید احمد نے پرویز مشرف کے دفاع میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی تھی مگر ایوان وزیر اعظم میں جب محمد علی درانی کی انٹری ہوئی تو تبدیلی آگئی۔ بس یہیں سے شیخ رشید احمد وزارت اطلاعات سے نکلے تو وزارت ریلوے میں آگئے۔ لوگ سوچ رہے تھے کہ اب اخبارات میں ان کی ہر روز فرنٹ پیج پر کہاں تصویر چھپے گی؟ لیکن شیخ رشید احمد جنہیں دائیں بازو کے صحافیوں نے گر سکھائے ہوئے تھے انہوں نے پلٹا کھایا اور راولپنڈی سے ایک نئی ٹرین کا اعلان کیا اور افتتاح بھی بیگم زرین مشرف، پرویز مشرف کی والدہ کے ہاتھوں کرایا، یوں حکومت میں ایک گیم شروع ہوئی۔ ایک جانب شیخ رشید احمد جو پرویز مشرف کے قریب رہنے کی تگ و دو اور دوسری جانب وزیر اعظم شوکت عزیز اور ان کے وزیر اطلاعات، محمد علی درانی لیکن ان دونوں میں سے کسی نے نعرہ نہیں لگایا کہ ووٹ کو عزت دو یا دونوں میں سے کسی نے سویلین بالادستی کے فارمولے نہیں اپنائے۔ آج بھی شیخ رشید کسی اچھے وقت کے انتظار میں ہیں لیکن مشکل میں ہیں کہ سویلین بالادستی کی طرف جھکیں یا اڈیالہ میں پابند سلاسل عمران خان کو خوش رکھیں۔ بہر حال وہ خاموش رہ کر بہت کچھ حاصل کر رہے ہیں کہ بقول اکبر الہ آبادی
مے بھی ہوٹل میں پیو، چندہ بھی دو مسجد میں
شیخ بھی خوش رہیں، شیطان بھی ناراض نہ ہو
چلیے یہ تو شیخ رشید ہیں جیسے تیسے گزارا کر ہی لیں گے۔ کر بھی رہے ہیں مگر یہ ووٹ کو عزت دو اور سویلین بالادستی کے نعرے اور دعوے کہاں جائیں گے؟ پرویز مشرف کو تو برطرف کردیا تھا آرٹیکل سکس کا مقدمہ بھی بنا دیا لیکن واشنگٹن میں جو اہم ترین ملاقات ہوئی ہے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور صدر ٹرمپ ملے ہیں۔ ظہرانہ دیا گیا ہے۔ فیلڈ مارشل کی تعریفیں کی گئی ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف کہاں ہیں؟ عوام کے منتخب نمائندے، آئین پاکستان تو یہی کہتا ہے کہ اس ملک کا نظام عوام چلائیں گے اور اس کے لیے ووٹ کے ذریعے عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے یہی منتخب نمائندے فیصلہ کریں گے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟ قومی اسمبلی میں اور سینیٹ میں اس وقت بحث ہورہی ہے‘ موضوع ہے بجٹ… سب مست ہیں۔ ترقیاتی اسکیموں میں خوش ہیں، گلیاں بن رہی ہیں، حلقے میں پیسہ ملے گا نالیاں بنیں گی۔ کہیں اسکول بھی بن جائیں گے، اسپتال بھی ہوسکتا ہے کہ مرمت ہو ہی جائیں مگر صدر ٹرمپ جو اس وقت جمہوریت کی مرمت کر رہا ہے اس کا حساب کتاب کون لے گا؟ کیا نواز شریف حساب لیں گے؟ شہباز شریف حساب لیں گے؟ کس پارلیمانی پارٹی میں اتنی جان ہے اور ہمت ہے کہ وہ اٹھے اور پوچھے کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ ٹرمپ صاحب کیوں جمہوریت کی کمر دوہری کر رہے ہیں۔ دنیا کے سیاسی نقشے پر اب جمہوریت ہے کہاں؟ شام میں وہ حکمران ہیں جن کے سروں کی قیمت امریکا نے لگائی ہوئی تھی۔ مشرق وسطیٰ میں بحث جاری ہے کہ کب اور کون سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرے گا؟ پوری مسلم دنیا ایک جانب کنارے پر کھڑی ایران اسرائیل جنگ دیکھ رہی ہے اور انتظار کس بات کا ہے؟ اس سوال کا جواب مسلم دنیا سے ہی پوچھ لیا جائے تو بہتر ہوگا سات اکتوبر کے بعد مشرق وسطیٰ کے لیے جو نقشہ سوچا گیا ہے۔ اس کا جواب کسی کے پاس ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ بھی منتظر ہوں کہ یہ خطہ بنائے گئے نئے قواعد کے مطابق کب اپنی اصلی حالت میں پہنچے گا۔ مگر ہمیں تو اس سب کے باوجود ووٹ کو عزت دو اور سویلین بالادستی کے دعویداروں کے منہ سے جواب چاہیے کہ اب ان کی پٹاری میں نئے نعرے کون سے ہیں؟ ہوسکتا ہے نواز شریف اور شہباز شریف اب بھی کسی تبدیلی کے منتظر ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان امیر العظیم منصورہ میں مرکزی تربیت گاہ کے شرکاء سے خطا ب کررہے ہیں
  • جہاد کا اعلان صرف ریاست کرسکتی ہے،کسی فرد یا گروہ کو یہ اختیار نہیں: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • جہاد کا اعلان صرف ریاست کرسکتی ہے، کسی فرد یا گروہ کو یہ اختیار حاصل نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاک فوج جدید جنگی حکمت عملی کے تحت دشمن کو بھرپور جواب دے رہی ہے، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف
  • بالادست کون؟
  • سندھ طاس معاہدہ غیر سیاسی، یکطرفہ کارروائی کی گنجائش نہیں، پاکستان کی امیت شاہ کے بیان پر تنقید
  • جماعت اسلامی یوتھ ڈیجیٹل سمٹ کل اسلام آبادمیں ہوگی
  • کراچی میں آنے والے زلزلوں کی حیران کن وجہ سامنے آگئی
  • عمانی بائیکرز کا دورہ پاکستان دونوں برادر ممالک کے عوامی رابطوں کے استحکام اور ثقافتی تبادلوں کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا،حکومت بائیکرز کے دورہ کو محفوظ، آرام دہ اور یادگار بنانے کے لیے پرعزم ہے، رانا ثناء اللہ