ایک اور نئی سیاسی جماعت وجود میں آگئی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
سیاسی تھکن کے اس ماحول میں کسی نئی سیاسی جماعت کا وجود میں آنا واقعی بڑے اچنبھے کی بات ہے-آج کل ہم چرچا سن رہے ہیں ایک نئی سیاسی جماعت عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا جس کے چیئرمین زیبر احمد انصاری ہیں-کافی دوستوں سے بات ہوئی،کچھ صحافیوں سے بھی تبادلہ خیال کیا تو معلوم ہوا زبیر احمد انصاری ہمہ وقت مصروف رہنے والی ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں نیٹ کھنگالا تو زبیر احمد انصاری کے متعلق کافی معلومات ملیں۔ پتہ چلا کہ وہ ایک محب وطن سچے اور پکے پاکستانی ہیں۔زندگی کے کتنے ہی سال سماجی خدمات کو دیئے ہیں۔سوشل کاموں کے لئے ہر وقت متحرک رہتے ہیں۔اللہ نے جتنی باکمال مردانہ وجاہت دی ہے انہیں اتنی ہی صفات سے بھی نوازا ہے۔محبت والا نرم دل رکھتے ہیں۔ملنسار بھی حد سے زیادہ ہیں۔ویسے تو جان پہچان ان سے کافی پرانی ہے۔گزشتہ دنوں ایک تقریب میں شرفِ ملاقات بھی حاصل ہوا جو کچھ انصاری صاحب کے متعلق سن رکھا تھا ویسا ہی پایا۔حقوق العباد کا بہت زیادہ خیال رکھنے والی شخصیت ہیں۔لاہور زبیر احمد انصاری کا مسکن اور سیاسی آماجگاہ ہے۔عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی صورت میں انہوں نے جس نئے سفر کا آغاز کیا ہے، اگرچہ بہت ہی مشکل اور کٹھن ہے۔لیکن حوصلے بلند اور ارادے مضبوہ ہوں تو مشکلیں، مشکلیں نہیں رہتیں۔سب کچھ آسان ہو جاتا ہے۔گورنمنٹ شاہ حسین کالج سے آئی کام (کامرس) کی تعلیم پانے والے زبیر احمد انصاری اپنی ذات میں انجمن ہیں۔دوسروں میں خوشیاں بانٹنا شروع ہی سے ان کا نصب العین رہا ہے۔انسانی حقوق کے لئے بہت سے کام کئے۔اب بھی ہیومن رائٹس کے علم کو لے کر آگے چل رہے ہیں۔ گھبرانا، ہارنا ان کی سرشت میں نہیں۔ اپنے اچھے کاموں کی بدولت بہت کم مدت میں بہت زیادہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنایا۔ ان کے چاہنے والوں کی تعداد حیران کن حد تک روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ زبیر احمد انصاری کا تعلق انصاری کمیونٹی سے ہے جس کے چار کروڑ افراد پاکستان میں بستے ہیں۔تاہم زبیر احمد انصاری کی سوچ ہر قسم کے تعصب اور ذات برادری سے بالا تر ہے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حقوق العباد سے ہی نجات کا راستہ نکل سکتا ہیں اور وہ یہ کام نہایت احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اس افتاد زدہ ماحول میں ایک نئی سیاسی جماعت کا ابھر کر سامنے آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سیاست ابھی زندہ ہے۔سیاست کو مرنا بھی نہیں چاہیئے کہ اسی سے جمہوریت کا کاررواں چلتا ہے۔
جب مجھے عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے قیام کا علم ہوا اور پتہ چلا کہ جماعت کو باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ بھی کرا لیا گیا ہے تو میں نے عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو جو معلومات حاصل ہوئیں ان کے مطابق عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (اے ایم ایم) ناصرف عوامی مقبولیت کے اعتبار سے کئی دوسری جماعتوں کو پیچھے چھورٹی ہوئی نظر آ رہی ہے بلکہ تنظیمی طور پر بھی اس کا ڈھانچہ توانا اور مضبوط ہے۔جو اس بات کی نوید ہے کہ یہ جماعت آنے والے دنوں میں اچھے نتائج کے ساتھ سامنے آئے گی اور بہت سی کامیابیاں سمیٹے گی۔حالیہ دنوں میں میری زبیر احمد انصاری سے ملاقات ہوئی تو اس پر آشوب سیاسی ماحول میں انہیں بہت پرعزم پایا، محسوس کیا کہ وہ عوامی امنگوں اور خوابوں کی عملی تعبیر بننا چاہتے ہیں۔اس وقت ملک میں سیاست کا جو حال ہے۔عوام سیاست سے جس طرح بیزار اور نالاں ہیں،زبیر احمد انصاری اس کا بہت اچھی طرح ادراک رکھتے ہیں۔چاہتے ہیں سیاست میں ایسا کچھ کر جائیں کہ لوگ انہیں یاد رکھیں۔ اس وقت ہم جس بڑے انتشار اور سیاسی بحران سے گزر رہے ہیں اور جس طرح کے سیاسی خطرات سے دوچار ہیں، کسی طرف سے بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی، قوم کے لئے اچھی امید پیدا کرنا خوش بختی کی علامت ہے۔کسی نے کیا خوب لکھا نئی سیاسی جماعت عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان موجودہ سیاسی ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ یہ محض ایک جماعت نہیں، ایک فلسفے، ایک نظریے کا نام ہے۔ یہ جماعت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اسے پاکستان کی ایک بڑی، منظم اور باشعور انصاری کمیونٹی کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے۔ انصاری کمیونٹی نے اپنے پلیٹ فارم سے اس نئی جماعت کا بھرپور ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اور یہ اعلان عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی سیاسی کامیابی کی پہلی کنجی ہے۔ آگے کیا ہوتا ہے؟ کیا ہو گا؟ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن زبیر احمد انصاری کا ماضی دیکھتے ہوئے گمان گزرتا ہے کہ جو انہوں نے سوچا ہے سیاست میں کر کے ہی رہیں گے۔عوامی بہبود کے وہ جو کام کر رہے ہیں،ظاہر کرتے ہیں کہ سفر سیاست اختیار کرنے سے پہلے خوب سوچا ہو گا، سمجھا ہو گا۔ اس کے پیچ و خم سے مکمل آگاہی رکھی ہو گی۔ پھر ہی یہ سفر اختیار کیا ہو گا۔ آج سیاست میں بہت سی نفرتیں ہیں۔ کئی تلخ حقیقتیں دیکھنی پڑتی ہیں اور بہت سے کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں۔ بہت سے دکھ ملتے ہیں اور بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن زبیر احمد انصاری مصمم ارادہ کئے ہوئے ہیں کہ کسی مشکل سے نہیں گھبرائیں گے۔ تلاطم زدہ اس کنفیوزڈ سیاسی ماحول میں زندگی کے وہ سارے رنگ بھریں گے جس کی تمنا لوگ کرتے ہیں اور ہر دم جس کے متلاشی رہتے ہیں۔الیکشن کمیشن آف پاکستان میں مختلف منشور اور نظریات رکھنے والی 175 سے زیادہ جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔جنہیں آئین پاکستان کے تحت الیکشن لڑنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ان جماعتوں میں بعض مذہبی اورعلاقائی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ایسی جماعتیں بھی ہیں جو کمیونٹی کے نام پر ووٹ لیتی ہیں۔اگرچہ ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔ تاہم ان کے سیاسی وجود کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا۔ ان رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں میں عوامی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ نئی جماعت آئندہ الیکشن میں کس طرح پرفارم کرتی ہے اور اپنے منشور کے ساتھ اپنے وجود کو کیسے منواتی ہے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نئی سیاسی جماعت پاکستان کے ماحول میں ہیں اور رہے ہیں
پڑھیں:
زائرین کی آواز۔۔۔۔کراچی سے ریمدان تک عوامی کاررواں
اسلام ٹائمز: بس اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کی اپیل پر کراچی سے ریمدان تک یہ احتجاجی سفر ایک تاریخی اقدام ہے، جو زائرین، قافلہ سالاروں، دینی اداروں اور عام عوام کے حقوق کی ترجمانی کرتا ہے۔ اگر یہ کاروان کامیاب ہوتا ہے (اور ان شاء اللہ ہوگا)، تو یہ ریاست کو یہ پیغام دے گا کہ دینی شعائر اور مذہبی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ تحریر: اسد عباس نقوی
(سیکرٹری سیاسیات ایم ڈبلیو ایم پاکستان)
پاکستان میں زائرینِ اہلبیتؑ کئی سالوں سے حکومتی عدم توجہی، انتظامی رکاوٹوں اور سفری دشواریوں کا شکار ہیں، خاص طور پر ان کیلئے جو ایران، عراق اور شام کے مقدس مقامات کی زیارت کیلئے زمینی راستے اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ ہوائی سفر کا خرچہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور زمینی راستہ ہی ہزاروں متوسط اور نادار پاکستانیوں کی اُمید ہے۔ اسی تناظر میں چیئرمین مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کراچی سے ریمدان بارڈر تک بذریعہ سڑک عوامی کارروان لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ صرف ایک سفر نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے، ایک احتجاج ہے اور ایک بیداری کا پیغام ہے، جس کے اثرات دہائیوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
1۔ زائرین کے آئینی و مذہبی حقوق کا دفاع
مجلس وحدت مسلمین اور علامہ راجہ ناصر عباس کا یہ قدم زائرین کیلئے آئینی، مذہبی اور انسانی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد ہے۔ ایک شہری کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے اور عبادات کی ادائیگی کیلئے سفر کا حق حاصل ہے۔ زمینی راستے کی بندش اس حق کی کھلی خلاف ورزی ہے، جسے یہ کاروان چیلنج کر رہا ہے۔
2۔ حکومت پر دباؤ اور قافلہ سالاروں کے نقصان کا ازالہ
یہ احتجاجی کاروان حکومت پر سنجیدہ عوامی دباؤ ڈالے گا کہ وہ زائرین اور قافلہ سالاروں کے مالی نقصانات کا ازالہ کرے، جنہوں نے لاکھوں روپے لگا کر قافلے تیار کیے، مگر سرحدی بندش کے باعث سخت مالی و جذباتی نقصان اٹھایا۔ یہ صرف زائرین کی نہیں بلکہ کاروباری اور دینی خدمتگار طبقے کی بھی جدوجہد ہے۔
3۔ تاریخی اثرات۔۔۔۔ حکومتیں سوچنے پر مجبور
یہ کارروان محض وقتی احتجاج نہیں، بلکہ ایسا تاریخی اقدام ہے، جس کے اثرات دہائیوں تک باقی رہیں گے۔ اگر یہ سفر مکمل ہوتا ہے تو آئندہ کوئی بھی حکومت زمینی راستے کو بند کرنے کی جرات نہیں کرسکے گی، کیونکہ اسے معلوم ہوگا کہ ملت جعفریہ خاموش نہیں بیٹھے گی۔
4۔ وحدت، اخوت اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام
یہ سفر صرف شیعہ زائرین کے حق کی بات نہیں کرتا، بلکہ پورے ملک میں مذہبی آزادی، وحدتِ امت اور ہم آہنگی کا پیغام دے گا۔ یہ کاررواں ہر مظلوم، محروم اور نظرانداز شدہ طبقے کی ترجمانی کرے گا۔
5۔ قومی معیشت اور سرحدی ترقی
زمینی راستے کی بحالی سے نہ صرف زائرین کو فائدہ ہوگا بلکہ بلوچستان کی سرحدی پٹی کو تجارتی سرگرمیوں اور علاقائی ترقی کا نیا موقع ملے گا۔ ایران و عراق سے تجارت بڑھے گی اور مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا۔
6۔ عوامی شرکت۔۔۔ خودداری کا مظاہرہ
یہ کاروان محض ایک تنظیم یا رہنماء کا نہیں بلکہ پوری ملت کا کاروان ہے۔ اس لیے عوام سے اپیل ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اس قافلہ میں شامل ہوں۔ ہر شخص اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان، پانی، ضروریاتِ سفر کا بندوبست کرکے نکلے، کیونکہ یہ سفر فقط منزل کا نہیں بلکہ مقصد کا سفر ہے۔
بس اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مجلس وحدت مسلمین کی اپیل پر کراچی سے ریمدان تک یہ احتجاجی سفر ایک تاریخی اقدام ہے، جو زائرین، قافلہ سالاروں، دینی اداروں اور عام عوام کے حقوق کی ترجمانی کرتا ہے۔ اگر یہ کاروان کامیاب ہوتا ہے (اور ان شاء اللہ ہوگا)، تو یہ ریاست کو یہ پیغام دے گا کہ دینی شعائر اور مذہبی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب متحد ہوں، قافلے کا حصہ بنیں اور ظالمانہ پالیسیوں کیخلاف عملی احتجاج کا حصہ بن کر اپنے حقوق کی حفاظت کریں۔