اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر دنیا کی ستاون اسلامی ریاستیں ایک دن کے لیے بھی صرف اپنے اسلامی شعور پر جمع ہو جائیں تو شاید اقوام متحدہ کا ایوان لرز جائے۔ شاید وائٹ ہائوس کی دیواریں پسینے سے بھیگ جائیں۔ شاید اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کو پہلی مرتبہ معلوم ہو کہ امت محمد ﷺ صرف خطبوں میں نہیں حقیقت میں بھی موجود ہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے پاس دفاعی اثاثے ہیں مگر کسی نظریے کے تابع نہیں۔ ہمارے پاس فوجی اتحاد ہے مگر بغیر کسی دشمن کے۔ ہمارے پاس معاشی قوت ہے مگر اپنی ہی ملت کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے مغرب کے بینکوں کو سونپ دی گئی ہے۔کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے 10 بڑے تیل و گیس ذخائر اسلامی ممالک کے پاس ہیں؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی 2 ارب آبادی میں سے تقریباً ایک اعشاریہ نو ارب مسلمان ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان، ترکی، ایران، مصر، انڈونیشیا جیسے ممالک کے پاس ایسی عسکری قوت ہے کہ اگر صرف مشترکہ حکمتِ عملی بنائی جائے تو نیٹو کی آنکھیں پھٹ جائیں؟
تو پھر سوال یہ ہے کہ ہم کیوں نہیں متحد؟ کیوں ہمارا ہر اتحاد فوٹو سیشن اور اعلامیہ تک محدود ہے؟اسلامی فوجی اتحاد جو سعودی عرب کے ریاض میں قائم ہے، جس کے سربراہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ہیں۔ کیا واقعی کوئی اتحاد ہے؟ اگر ہے تو اس نے آج تک کوئی فوجی کاروائی فلسطین کے لیے کیوں نہیں کی؟ کیوں غزہ پر بمباری کے دوران یہ اتحاد خاموش رہا؟ کیا فلسطینی بچے خواتین اور بوڑھے مسلمان اسلامی دفاع کے دائرے میں نہیں آتے؟
دوسری طرف او آئی سی ہے ایک سیاسی لاش۔ جس کے اجلاس ہوٹلوں کے عشائیوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ جس کا کام صرف شدید مذمت کے بیانات دینا رہ گیا ہے۔ جس میں شامل بعض ممالک اسرائیل سے خفیہ تعلقات قائم کر چکے ہیں اور بعض عوامی طور پر سفارت خانے کھولنے پر فخر کرتے ہیں۔
اگر آپ گہرائی سے دیکھیں، تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم مسلمان ضرور ہیں مگر امت نہیں۔”ہم پاکستانی، سعودی، ایرانی، ترک، انڈونیشین، مصری سب کچھ ہیں مگر صرف مسلمان نہیں۔ ہمیں قوم پرستی، نسل پرستی، مسلک پرستی اور مفاد پرستی نے جدا کر رکھا ہے۔ ایک ہی اللہ ایک ہی رسول، ایک ہی قرآن ہونے کے باوجود ہم ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے ہیں۔ایران نے اسرائیل کو للکارا تو عرب دنیا نے اسے شیعہ سازش قرار دے دیا۔ سعودی اتحاد نے خاموشی اختیار کی کیونکہ پالیسی کا حکم امریکہ سے آتا ہے۔ ترکی جو کبھی ملت اسلامیہ کی قیادت کرتا تھا اب خود مغرب سے تعلقات بچانے کی تگ و دو میں ہے۔اور پاکستان؟ پاکستان کو تو اپنے اندرونی مسائل سے ہی فرصت نہیں۔ مہنگائی، بدامنی اور سیاسی انتشار نے اسے عالمی کردار سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ حالانکہ پاکستان کے پاس ایٹمی طاقت، نظریاتی طاقت اور فوجی تجربہ ہے مگر قیادت میں وژن نہیں۔
یاد رکھیں۔۔! جب تک ہم اپنی سمت درست نہیں کریں گے تب تک ہماری ہر تنظیم، ہر اتحاد، اور ہر اجلاس صرف نئے زخموں کی لاشوں پر کانفرنسوں کے کتبے نصب کرے گا۔کیا یہ ممکن نہیں کہ او آئی سی کی قیادت مستقل ہو اور اسے صرف سعودی عرب یا ترکی کی جاگیر نہ سمجھا جائے؟ اسلامی فوجی اتحاد کو فعال کیا جائے اور اس کا واضح دشمن اسلام دشمن قوتیں قرار دی جائیں؟ کیا وقت نہیں آ گیا کہ امتِ مسلمہ محض جذباتی بیانات اور بے عمل قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اتحاد کی طرف قدم بڑھائے؟ ہم ڈی-ایٹ، او آئی سی اور اسلامی فوجی اتحاد جیسے ادارے تو بناتے ہیں مگر ان کی روح میں وہ غیرت، حکمت اور استقلال کیوں نظر نہیں آتا جو انہیں وقت کے چیلنجز کا جواب بناتا؟ کیوں نہ ڈی-ایٹ کو سودی نظام سے نجات کا ذریعہ بنایا جائے اور اسے اسلامی دنیا کا مشترکہ بیت المال بنا کر غریب مسلم اقوام کے لیے معاشی ڈھال بنایا جائے؟ کیوں نہ ایک عالمی مسلم میڈیا نیٹ ورک قائم کیا جائے جو بی بی سی اور سی این این کے جھوٹ کا جواب دے اور مظلوم مسلمانوں کی سچائی دنیا تک پہنچائے؟ اور کیوں نہ ایک ’’اسلامی سلامتی کونسل‘‘ بنائی جائے جو اعلان کرے کہ اگر ایک مسلمان ملک پر حملہ ہوگا تو سمجھا جائے گا کہ پوری امت پر حملہ ہوا ہے؟
امتِ مسلمہ کے پاس سب کچھ ہے ، وسائل، آبادی، تیل، گیس، فوجیں، اور سب سے بڑھ کر ایک مشترکہ عقیدہ۔ جو کمی ہے وہ صرف قیادت، اخلاص اور اتحاد کی ہے۔ اگر ہم نے اپنی صفوں میں وحدت پیدا کر لی اور اخلاص کے ساتھ اجتماعی منصوبہ بندی کی تو نہ صرف ہماری مظلوم قومیں سر اٹھا کر جی سکیں گی بلکہ دنیا کو بھی باور کروایا جا سکے گا کہ مسلمان محض تاریخ کے باسی نہیں، مستقبل کے معمار ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم خواب دیکھنا چھوڑ کر تعبیر کی جانب بڑھیں۔
یقین کریں، اگر یہ سب کر لیا جائے تو دنیا کی ترتیب بدل سکتی ہے۔ اسرائیل ہو یا بھارت، امریکہ ہو یا فرانس سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے متحد ہونے کی دیر ہے اور پھر کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔ لیکن شرط ایک ہے۔! اتحاد۔ اور اس اتحاد کی بنیاد اسلام ہے نہ کہ فرقے، قومیت یا جغرافیہ۔
میں ایک عام مسلمان ہوں۔ نہ حکمران نہ کمانڈر۔ مگر جب میں اپنے بچوں کو فلسطین کے لاشے دکھاتا ہوں، جب میں غزہ کے ملبے سے نکلتی چیخیں سنتا ہوں، جب میں اسرائیل کے جنگی طیارے دیکھتا ہوں اور میرے اپنے حکمران خاموش رہتے ہیں تو میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔کیا ہم واقعی ایسے وقت کے منتظر ہیں جب مسجد اقصی بھی ماضی بن جائے؟ جب بیت اللہ پر نظریں اٹھیں اور ہم صرف مذمتی بیان جاری کریں؟نہیں!اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ہر مسلم ملک کے گلی، کوچے، یونیورسٹی، مدرسے اور ادارے سے امت مسلمہ کو جگانے کی آواز بلند کریں۔اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے !
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: جانتے ہیں کہ فوجی اتحاد ہے کہ ہم ہیں مگر کیوں نہ کے پاس اور اس
پڑھیں:
ایران کیجانب سے اسلامی تعاون تنظیم کے غیر معمولی اجلاس کے انعقاد کا مطالبہ
اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل کیساتھ ساتھ ترکی و سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کو لکھے گئے اپنے خط میں ایرانی وزیر خارجہ نے غزہ میں جاری وسیع انسانی تباہی کا جائزہ لینے اور امداد کی فی الفور فراہمی سمیت اس حوالے سے رابطہ کاری کیلئے اسلامی تعاون تنظیم کا غیر معمولی اجلاس طلب کرنیکا مطالبہ کیا ہے اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے غزہ میں سفاک صیہونی رژیم کے ہاتھوں جاری فلسطینی عوام کی وسیع نسل کشی اور انسانیت سوز جنگی جرائم کو روکنے کے لئے اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہ سمیت ترکی و سعودی عرب کے وزرائے خارجہ ہاکان فیدان و فیصل بن فرحان کو بھی خط تحریر کیا ہے۔ اپنے خط میں سید عباس عراقچی نے غزہ میں جاری وسیع انسانی تباہی کا جائزہ لینے اور امداد کی فی الفور فراہمی سمیت اس حوالے سے رابطہ کاری کیلئے اسلامی تعاون تنظیم کا غیر معمولی اجلاس طلب کرنیکا مطالبہ کیا ہے۔
اپنے خط میں ایرانی وزیر خارجہ نے تاکید کی کہ انتہائی تشویش اور گہری اخلاقی و سیاسی عجلت کے احساس کے ساتھ، میں ایک بار پھر آپ کو غزہ کی پٹی میں بگڑتی انسانی صورتحال کے حوالے سے خط لکھ رہا ہوں، یہ ایک ایسی صورتحال ہے کہ جو اس وقت امت اسلامیہ و عالمی برادری کو درپیش سنگین ترین بحرانوں میں سے ایک بن چکی ہے کیونکہ غزہ کی ابتر صورتحال انسانی برداشت کی حد سے تجاوز کر گئی ہے اور وہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض ایک انسانی بحران نہیں بلکہ شدید محاصرے میں محصور عام شہری آبادی کی منظم تباہی بھی ہے لہذا یہاں سرزد ہونے والے انسانیت کے خلاف گھناؤنے جرائم کی وسعت و شدت کے لئے فوری و مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔
سید عباس عراقچی نے لکھا کہ تازہ ترین اعداد و شمار اور تمام معتبر انسانی تنظیموں و میڈیا ذرائع کی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کی عام شہری آبادی کو ایسی صورتحال کا سامنا ہے کہ جسے صرف ایک لفظ میں بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے "وسیع نسل کشی"! انہوں نے لکھا کہ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے شواہد، غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے اور اسے مقبوضہ فلسطینی اراضی میں مکمل طور پر الحاق کر لینے کے قابض صیہونی رژیم کے اسٹریٹجک و غیر قانونی ارادے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی اجلاس میں غزہ میں جاری انسانی تباہی کا جائزہ لینے اور امداد کی فوری فراہمی کے لئے ہم آہنگی پیدا کرنے سمیت غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے غزہ پر مستقل قبضے کے ارادے کے قانونی و سیاسی پہلوؤں کے جائزے، متفقہ مؤقف اختیار کرنے اور سفارتی، قانونی و اقتصادی وسائل سمیت بھرپور اقدامات پر عملدرآمد پر زور دیتے ہوئے سید عباس عراقچی نے مزید لکھا کہ مذکورہ بالا صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور اسلامی تعاون تنظیم کے چارٹر کی دفعات و وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاسوں کے انعقاد کے سابقہ طریقہ کار کے مطابق، میں باضابطہ طور پر یہ درخواست کرتا ہوں کہ تنظیم کے ہیڈ کوارٹر میں وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس جلد از جلد منعقد کیا جائے!