27 ویں ترمیم سے ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی، منظور نہیں ہونے دیں گے، اپوزیشن اتحاد
اشاعت کی تاریخ: 4th, November 2025 GMT
اسلام آباد:
اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم منظور نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اس کے بدترین نقصانات ہوں گے اور ملک کی بنیادیں ہل جائیں گی۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے صدر محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں ہنگامی اجلاس ہوا جس میں ملک کی سیاسی صورت حال پر تباہ خیال کیا گیا۔ بعد ازاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ آج ہم نے ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جو 27 آئینی ترمیم کا پنڈورا باکس کھولا گیا ہے، بلاول بھٹو زرداری کا بھی جو ٹویٹ آیا ہے تشویش ناک ہے، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بھی اس ٹوپی ڈرامے میں شریک ہے، اس کا فیصلہ پہلے ہو چکا ہے، یہ صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
اسد قیصر نے کہا کہ ایک پی پی پی تھی ذوالفقار علی بھٹو والی جس نے آئین کی بنیاد رکھی، دوسری بینظیر بھٹو والی جس نے جمہوریت کے لیے جان دے دی، آج بھی پی پی پی جمہوریت کو دفن کرنے کے لیے جان لگا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب جو کچھ عرصے پہلے ووٹ کو عزت دینے کے لیے مہم چلا رہے تھے، اب ووٹ کو عزت دو کہاں گیا؟ اس اقتدار کا آپ نے کیا کرنا ہے جو پاؤں پڑنے کی بنیاد پر دیا جائے، میاں نواز شریف کو خود کو ووٹ کو عزت دینے کا چمپئین سمجھ رہا تھا وہ خاموش ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے عمران خان کو بھی اپنی سفارشات بھیجے ہیں، اگر ملاقات ہو جاتی ہے تو پریس ریلیز جاری کر دیں، ہم ہر صورت جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے عوام کے پاس بھی جائیں گے اور پارلیمنٹ میں بھی بھرپور احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔
اس موقع پر سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ اس بات میں تو کسی پاکستانی کو شک و شبہ نہیں ہے کہ کچھ عرصے سے اس ملک میں جبر کا نظام نافذ ہے، تمام چیزیں جو پاکستانی شہریوں کے لیے آئین نے فراہم کی تھی وہ سبوتاژ کر دی گئی ہیں۔
سابق سینیٹر نے کہا کہ بلاول کے ٹوئٹ کے ذریعے ہمیں آئینی ترمیم کا پتا چلے، آپ نے جب آئینی بینچز بنائے تو یہ بیان رکھا کہ اس سے انصاف کی فراہمی بہتر ہو جائے گی، ایک ایسی عدالت بنانے جا رہے ہیں جس کی مدت 70 سال ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ جو حکومت کو خوش رکھے گا اس کے لیے آگے موقع موجود ہے، یہ عدلیہ کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہے ہیں، ججوں کی ٹرانسفر پوسٹنگ باقی بیوروکریسی کی طرح ہو گی، جن کے فیصلے پسند نہیں آتے انہیں اٹھا کر دوسری جگہ پھینک دیں گے، اس طرح کون سا جج عوام کو انصاف دینے کے لیے کھڑا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ کوئی ادارہ کسی دوسرے ادارے کا اختیار استعمال نہیں کرے گا، آپ پھر سے انگریزوں کا کالا قانون واپس لانا چاہتے ہیں، جو عدلیہ، میڈیا اور دیگر کے خلاف استعمال ہوں گے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی تقرری کے لیے نئی ترامیم لائی جائیں گی، آج اس ملک میں الیکشن کمیشن خود ایک مذاق بن گیا ہے، جو ٹریبیونل بنائے گئے تھے آپ نے انہیں سبوتاژ کیا، جو اختیارات صوبوں کو دیے گئے ان میں سے کئی محکمے وفاق کو دیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کابینہ کے اجلاس میں چند ارکان کو میں نے روتے ہوئے دیکھا، ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ آپ نے یہ بھی نوید سنا دی، آرٹیکل 243 جس کے تحت آرمی چیف کی تقرری ہوتی ہے اس میں بھی ترمیم آنے جا رہی ہے، اگر اس میں ترمیم کریں گے تو ملک کے اسٹرا اکچر کو تبدیل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ جو گفتگو ہو رہی ہے اس کے مطابق کمانڈر ان چیف کا عہدہ بنایا جا رہا ہے، یہ ملک آپ کس کے حوالے کر رہے ہیں، کہاں گئی سویلین سپریمیسی کی باتیں، سویلین اداروں کو اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت بنا دیا جائے، اس ترمیم کے وہ نقصانات ہوں گے کہ ملک کی بنیادیں ہلا دیں گے اور لوگ اس کو ماننے سے انکار کر دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کو منظور نہیں ہونے دیں گے، ہم میڈیا، سول سوسائٹی اور دیگر تنظیمیوں سے رابطہ کریں گے، یہ مہینہ ہمارے لیے بہت اہم ہے، ہم نے اس ناجائز پارلیمان کو یہ قدم اٹھانے سے روکنا ہے، ہم صرف انتظار کررہے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی ملاقات کو جاتی ہے بانی سے تو ان کا ان پٹ لے کر پلان دیں۔
سابق گورنر سندھ زبیر عمر نے کہا کہ میاں نواز شریف سے میں گزارش کروں گا کہ 26 آئینی ترمیم اور 27 ویں آئینی ترمیم پر صرف ایک بیان دے دیں، مجھے امید ہے کہ وہ اس کا بھرپور اختلاف کریں گے اوروہ اپنے بھائی کو یہ کرنے سے روکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کل جو وزیروں نے پریس کانفرنس کی اس میں عوام کو کچھ نہیں بتایا گیا، پچھلے 30سال میں تقریباً 25 واں آئی ایم ایف پروگرام ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف مبارک باد دینے کے لیے پریس کانفرنس کر رہے ہیں، پاکستان کی مڈل کلاس پر بات نہیں ہوئی، مہنگائی پر بات نہیں ہوئی، نہ بے روزگاری، نہ غربت کسی پر بات نہیں کی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کہا کہ رہے ہیں کریں گے ملک کی دیں گے کے لیے گے اور
پڑھیں:
27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ، این ایف سی اور فوجی کمان سے متعلق کون سی اہم ترامیم تجویز کی جائیں گی؟
حکمراں جماعت مسلم لیگ ن اور اتحادی پیپلزپارٹی کے درمیان آئینی ترمیم پر مشاورت جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا 27ویں ترمیم کے ذریعے 18ویں ترمیم واپس ہونے جا رہی ہے؟
وی نیوز کے ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم میں عدلیہ، این ایف سی ایوارڈ، صوبائی خودمختاری، مسلح افواج کی کمان اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سمیت متعدد آئینی دفعات میں بنیادی تبدیلیوں کی تجویز دی گئی ہیں تاہم فی الحال حتمی تجاویز پر اتفاق نہیں کیا جا سکا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 160، شق 3A، آرٹیکل 213، آرٹیکل 243، آرٹیکل 191A اور آرٹیکل 200 سمیت کئی اہم دفعات میں ترامیم شامل ہیں۔
ان کا کہنا مزید کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں ایک جامع آئینی پیکج متعارف کرائے جانے کا امکان ہے کہ جس کا مقصد عدلیہ، وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کے توازن کو ازسر نو متعین کرنا اور گورننس کے نظام کو مؤثر بنانا ہے۔
ذرائع کے مطابق 27ویں ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 160 اور اس کی شق 3A میں تبدیلی تجویز کی گئی ہے جس کے ذریعے صوبوں کے وفاقی محصولات میں حصے کی آئینی ضمانت ختم کر دی جائے گی۔
مزید پڑھیے: 27ویں آئینی ترمیم کے اثرات انتہائی خطرناک ہوں گے، منظور نہیں ہونے دیں گے، اپوزیشن اتحاد
18ویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو محصولات کا طے شدہ حصہ دیا جاتا تھا جو صوبائی خودمختاری کی ایک بڑی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق نئی ترمیم کے تحت وفاق کو محصولات کی تقسیم میں زیادہ لچک اور فیصلہ سازی کا اختیار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
آئینی ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 191A کے تحت ایک آئینی عدالت (Constitutional Court) کے قیام کی سفارش کی جائے گی، یہ عدالت آئینی نوعیت کے مقدمات، وفاق و صوبوں کے درمیان تنازعات اور آئین کی تشریح سے متعلق امور پر فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی۔
اس اقدام کا مقصد سپریم کورٹ کے بوجھ میں کمی اور آئینی معاملات کو الگ دائرہ کار میں لانا بتایا جا رہا ہے اس کے علاؤہ آرٹیکل 200 کے تحت ہائی کورٹ کے ججز کی منتقلی کے طریقہ کار میں تبدیلی کی سفارش کی گئی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ آئینی عدالتوں کی قیام کی بات 26ویں ترمیم کے وقت بھی کی گئی تھی لیکن اس وقت مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئینی عدالتوں کے قیام کی جگہ آئینی بینچ تشکیل دے دیا جائے جس پر آئینی بینچ کی تشکیل کی گئی تھی تاہم اب ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ آئینی بینچ کے ذریعے مسائل کا حل نہیں ہوا اس لیے آئینی عدالتوں کا ہی قیام کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: محسوس ہوتا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر کام شروع ہو چکا، ملک محمد احمد خان
ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم میں ضلعی سطح پر ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے نظام کی بحالی کی تجویز بھی شامل ہے جس کے تحت انتظامی افسران کو محدود عدالتی اختیارات دیے جائیں گے تاکہ ضلعی سطح پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔
18ویں ترمیم کے بعد تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے محکمے صوبوں کو منتقل کیے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق اب 27ویں ترمیم میں تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی دوبارہ وفاق کے ماتحت کرنے کی تجویز زیر غور ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ پورے ملک میں یکساں تعلیمی نصاب نافذ کیا جا سکے اور آبادی کے انتظامی منصوبوں میں ہم آہنگی پیدا ہو۔
ذرائع کے مطابق آرٹیکل 243 میں بھی اہم تبدیلی کی تجویز زیر غور ہے جس کے ذریعے آرمی چیف کو دیے گئے فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی حیثیت دینے اور اسے آئین کا باقاعدہ حصہ بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 213 میں ترمیم بھی زیر غور ہے جس میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی تجویز ہے تاکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والے تعطل کو ختم کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیے: مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے اس ضمن میں بتایا ہے کہ 27ویں ترمیم پر بات چیت جاری ہے تاہم باضابطہ کام ابھی شروع نہیں ہوا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
18 ویں ترمیم 27 ویں ترمیم آئینی پیکج پیپلز پارٹی ن لیگ