Express News:
2025-06-23@21:33:01 GMT

امیر المومنین سیدناحضرت عمر فاروقؓ کا دورِخلافت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

سیدنافاروق اعظم ؓ وہ ہستی ہے جن کے دورخلافت میں اسلام ایک جیتے جاگتے نظام حیات کی شکل میں سامنے آیا۔ حضرت عمرفاروق ؓ کی شخصیت اتنی عظیم ا و ر ا ن کا مقام اتنا بلند ہے کہ آپ ’’عمر‘‘ کہیں، تب بھی کوئی شخص ابہام کا شکار نہ ہوگا۔

کائنات میں کتنے ہی عمر ہوئے ہیں مگر جب بھی کوئی شخص یہ کہے کہ ’’عمر نے کہا‘‘ تو ہر سننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ یہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے۔ کسی دوسرے کی جانب خیال جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی شخص سیدنا عمرفاروق ؓ کو تو جانتا ہو مگر ان کے دورخلافت سے آگاہ نہ ہو۔

انسانی تاریخ کی طویل گزر گاہوں میں حکم رانوں اور جہان بانوں کی لمبی فہرست میں سیدنا عمر فاروق ؓ کے بعد کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو ان کے برابر یا ان کے قریب ترین مقام کو پہنچتا ہو۔ سیدنا عمر فاروق ؓ کا مقام اور ان کے (23جمادی الآخر13ھ تا 29ذی الحجہ 23ھ، بمطابق23۔ اگست634ء تا نومبر644ء) ’’دس برس چھے ماہ چار دن‘‘ پر مشتمل مختصر ’’دور خلافت‘‘ میں کام یابیاں اتنی ہمہ پہلو ہیں کہ بعض غیرمسلموں نے تو یہ زعم باطل اپنے دلوں میں بٹھا رکھا ہے کہ عمر ؓ نام کی کوئی شخصیت اور ان کا دورخلافت فی الحقیقت موجود نہ تھا، بلکہ بعض ذہین مسلمانوں نے یہ خیالی شخصیت اور ان کا دورِخلافت تصنیف کرلیا ہے۔

سیدنا عمر فاروق ؓ کا بطور خلیفہ انتخاب

جمادی الآ خر 13ہجری میں خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنی مرض الوفات میں سیدناعمر ؓ کو خلیفہ مقرر کرنے کا عہدنامہ لکھوایا، اور پھر اپنے مکان کے بالاخانے میں جا کر لوگوں سے جو نیچے جمع تھے مخاطب ہوئے اور کہا:’’میں نے اپنے کسی بھائی بند کو خلیفہ مقرر نہیں کیا بلکہ عمر کو مقرر کیا، کیا تم لوگ اس پر راضی ہو۔‘‘ تو سب نے ’’سمعناواطعنا‘‘ کہا۔ 22 جمادی الآخر 13ہجری کو خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد، مسلمانوں کے متفقہ طور پر سیدنا عمر فاروق ؓ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرنے کے بعد سیدنا عمر فاروق ؓ مسند آرا خلافت ہوئے۔

منصبِ خلافت سنبھالنے کے بعد پہلا خطاب عام

خلافت کی ذمے داری سنبھالنے کے بعد پہلے ہی دن آپ ؓ نے لوگوں کے سامنے اس بات کی وضاحت کردی تھی کہ لوگوں سے حکومت کس طرح معاملہ کرے گی۔ آپ ؓ نے کہا:’’لوگو! وحی کا سلسلہ تو منقطع ہوچکا ہے۔ اب ہم تمہارے ساتھ جو بھی معاملہ کریں گے وہ تمہارے ظاہری حالات اور اعمال کے مطابق ہوگا۔ ظاہراً جس نے خیر اور بھلائی کا رویہ اپنایا ہماری طرف سے اسے امن و امان کی ضمانت ہے۔ باطنی حالت اور چھپے ہوئے راز کی ٹوہ ہم نہیں لگائیں گے۔

یہ معاملہ اللّہ اور بندے کے درمیان ہے اور اللّہ باطن کے مطابق اور نیتوں کے لحاظ سے بندوں سے حساب لے لے گا۔ اسی طرح جس شخص سے شر اور فساد ظاہر ہو ہم اس کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔ اگر وہ کہتا بھی رہے کے دل اور نیت سے اس کا ارادہ فتنہ و فتور کا نہ تھا تو ہم اس کے ظاہری عمل کے مقابلے پر اس کے اس دعوے کو قبول نہ کریں گے۔‘‘

 اس بنیادی اصول کے مطابق سیدناعمرؓ نے خلافت کی ذمے داریاں نبھائیں۔ وحی فی الحقیقت منقطع ہوچکی تھی اور اس کے اصول قرآن و سنت کی صورت میں واضح اور محکم تھے، پس مخلوق کے لیے اگرچہ حاکم وقت ہی کیوں نہ ہو یہ حق نہ تھا کہ وہ ظاہری اعمال سے صرف نظر کرکے یہ فیصلہ دینا شروع کردے کہ لوگوں کے دلوں میں کیا ہے۔ اسی مضمون کو خود صاحب وحی ﷺ نے یوں بیان فرمایا ہے، ’’مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دل چھید کر دیکھوں یا ان کے پیٹ چاک کرکے راز معلوم کروں۔‘‘ بخاری۔

آپ ؓ کے دورخلافت میں حقوق و فرائض کا کامل نظام

چودہ صدیاں قبل حضرت عمر ؓ نے ایک صالح معاشرہ کے لیے بنیادی اصول وضع کردیے تھے۔ حکم راں کے حقوق بھی ہوتے ہیں اور فرائض بھی۔ اسی طرح رعایا کے حقوق اور فرائض ہوتے میں۔ تنظیم خیرخواہی اور اطاعت کے ستونوں پر قائم ہوتی ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ’’اطاعت ہوگی تو جماعت قائم رہے گی۔

اطاعت کے بغیر جماعت قائم نہ رہ سکے گی۔‘‘ سچی بات یہ کہ اطاعت کے بغیر نہ کوئی جماعت قائم رہ سکتی ہے، نہ ادارہ، نہ خاندان، نہ تنظیم۔ سیدنا عمر فاروق ؓ نے اپنے دورِخلافت میں اپنے فرائض ادا کرنے کے بعد، رعایا سے ان کے فرائض سے متعلق بازپرس کی۔ اس سے ایک ایسا مثالی معاشرہ قائم کیا جس میں ہر فرد اپنے دینی، معاشرتی وسماجی فرائض اور قانونی واجتماعی ذمے داریوں کو احسن طریقے ادا کرنے لگا، جس سے ایک قابل رشک صوت حال پیدا ہوگئی، جسے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں اور اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔

سیدناعمر ؓ کے عہدخلافت میں فتوحات

حضرت ابوبکر ؓ نے اواخر جمادی الثانی وفات پائی، اور حضرت عمر ؓ مسند آرائے خلافت ہوئے۔ سابق خلیفہ کے عہد میں جھوٹے مدعیان نبوت، مرتدین عرب، اور منکرین زکوٰۃ کے خاتمے کے بعد فتوحات کا آغاز ہوچکا تھا، یعنی 12ہجری میں عراق پر لشکرکشی کی گئی تھی، اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہوگئے تھے۔ اسی طرح 13ہجری میں شام پر حملہ ہوا۔ اور اسلامی فوجیں سرحدی اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا آغاز ہی تھا کہ خلیفہ وقت کا انتقال ہوگیا اور سیدنا عمر فاروق ؓنے عنان حکومت ہاتھ میں لی تو ان کا سب سے اہم فرض ان ہی مہمات کو تکمیل تک پہنچانا تھا۔

فتوحات کا اجمالی جائزہ

 آپ ؓ کے عہدخلافت میں ہونے والی فتوحات کا حال بہت طویل ہے۔ حضرت عمر ؓ کے وصال کے وقت اسلامی مملکت کا رقبہ 2511665 مربع میل تھا۔ اس رقبے میں تقریباً1309501مربع میل خود سیدنا فاروق اعظم ؓ کے حسن تدبر کی بدولت اسلامی قلمرو میں شامل ہوا۔ (تحقیق سید عبدالقدوس ہاشمی) سیدنا عمر ؓ کی عدیم النظیر حکمت عملی اور خوبی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے دور حکومت میں اسلامی فوجیں روزانہ تین سو مربع میل رقبہ اسلامی حکومت میں شامل کرتی تھیں۔ 23 ہجری کے اختتام پر فتوحات فاروقی کی حدیں یہ تھیں: شمال میں بحرخزر کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ مقام دربند سے تقریباً سو میل آگے شمال تک (کوہ قاف کے آگے تک)۔ جنوب میں دن اور اس کے جنوب میں واقع جزائر تک، مشرق میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں مکران تک، (بقول بلاذری مقام تھانہ تک، جو آج کل بھارت کے صوبے ممبئی میں شمار کیا جاتا ہے) مغرب میں لیبیا کے شہر طرابلس تک۔

 دورِخلافت پر ایک نظر

سیدناعمرفاروق ؓ کے اپنے دورخلافت میں اتنے بڑے بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں کہ انسان اپنی تمام تر شعوری کوششوں کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ آپ ؓ کے کس کارنامے کو سب سے بڑا اور اصل کارنامہ سمجھے۔ ہم سید نا عمرفاروقؓ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ؓ نے دینی شورائی بنیادوں پر ایسا آئین حکومت وضع کیا اور عادلانہ نظام قائم کیا جو مسلمانوں کی جملہ سعادتوں اور ترقیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے بنیادی حقوق، بلاتفریق مذہب اور رنگ و نسل کا ضامن تھا۔

حضرت عمر ؓ مومن مخلص کی قوت، بہادر و جانباز مجاہد فی سبیل اللّہ کی اولوالعزمی، جہاندیدہ بزرگ کی تجربہ کاری، فطری قابلیت رکھنے والے ہوشیار شخص کی زیرکی وفطانت کے ساتھ تخت خلافت پر متمکن ہوئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے قیصروکسریٰ کی سلطنتوں کو زیرنگیں کرلیا۔ بقول امیرعزیمت:’’عمر فاروق ؓ نے قیصروکسریٰ کو اپنے جوتے کی نوک پر ایسے اڑادیا تھا جیسے چٹیل میدان میں فٹ بال کھیلا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی انفرادی صلاحیتوں سے عرب کی اس وادی غیر ذی زرع کے اندر رہ کر وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو بڑی بڑی حکومتوں اور مجلسوں کے لیے بھی انتہائی دشوار تھے۔ گورنروں کا تقرر، ججوں کا انتخاب، فوجی افسروں کا چناؤ، لشکروں کی تربیت و تنظیم، فوجی نقل و حرکت کے احکام، کمک بھیجنا، نقشے بنانا، شہروں کی حدیں کھینچنا، قانون سازی، تقسیم مال غنیمت، حدود وتعزیرات کا اجراء وغیرہ، الغرض یہ تمام خدمات آپ ؓ اپنی صوابدید، اصابت رائے، تیزی ذہن، دوربینی وعزیمت سے انجام دیتے رہے۔ ان جلیل القدر خدمات کے ساتھ آپ خاک نشیں تھے۔ عوام کے ساتھ مل جل کر رہتے، یہی وجہ ہے کہ آپؓ کی خلافت کا زمانہ آج تک عدل و امن اور انتظام کے لحاظ سے دنیا کا اعلیٰ ترین مثالی دو رمانا گیا ہے۔

رعایا کو ایک ایسی شریفانہ، پرامن، مطمئن اور بامقصد زندگی گزارنے کا موقع ملا جس کی ماضی و حال میں مثال ڈھونڈنا، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اپنی جواب دہی اور محاسبۂ نفس کا جو احساس ان میں تھا کسی دوسرے حکم راں میں نظر نہیں آتا ان کے عہد میں زمین اللّہ کے نور سے معمور ہوگئی۔

فاروق اعظم ؓ کا ساڑھے دس سالہ دورخلافت اگرچہ دنیا کی ہزار ہا سالہ تاریخ میں بظاہر ایک بہت ہی مختصر سا وقفہ ہے، لیکن اس تاریخ میں کشورکشائی، سیاست، حکومت، جمہوریت، اخوت، مساوات، آزادی، عدل اور فلاح ِ انسانی کا یہ درخشاں ترین باب ہے۔ قوموں اور ملکوں کے لیے روشنی کا منبع اور ایک بہترین آئیڈیل ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے والے اسے ناقابل یقین حد تک حیرت انگیز خیال کرتے ہیں۔ نیکی وسعادت، حرکت وعمل سے مملو یہ ایک ایسا سنہری دور تھا جس کا سوفی صد اعادہ خود اسلام کی تاریخ میں بھی نہ ہوسکا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ جس طرح حضرت محمد ﷺ کی بعثت دعائے خلیل ؑاور نوید مسیحا ؑ کا نتیجہ تھی، اسی طرح عمربن الخطاب کا فاروق اعظمؓ بن کر تاریخ کے اسٹیج پر نمودار ہونا دعا و نگاہِ محمدی ﷺ کا فیضان تھا۔

دنیا میں جس قدر حکم راں گزرے ہیں ہر ایک کی حکومت کی تہہ میں کوئی نہ کوئی مشہور مدبر یا سپاہ سالار مخفی تھا۔ یہاں تک کہ اگر اتفاق سے وہ مدبر یا سپاہ سالار نہ رہا تو دفعتاً فتوحات بھی رک گئیں یا نظام حکومت کا ڈھانچا بگڑگیا، لیکن سیدناعمر ؓ کو اللّہ پر بھروسا اور اپنے دست و بازو کا بل تھا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ کی عجیب وغریب معرکہ آرائیوں و دیکھ کر لوگوں کو خیال پیدا ہوگیا کہ فتح و ظفر کی کلید انہی کے ہاتھ میں ہے لیکن جب سیدناعمر ؓنے ان کو معزول کردیا تو کسی کو احساس تک نہ ہوا کہ کُل میں سے کو ن سا پرزہ نکل گیا ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فاتح ایران کی نسبت بھی لوگوں کو ایسا وہم ہو چلا تھا، وہ بھی الگ کردیے گئے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ سچ ہے کہ سیدنا عمرؓ خود سارا کام نہیں کر تے تھے اور نہ کرسکتے تھے لیکن جن لوگوں سے کام لیتے تھے ان میں سے کسی کے پابند نہ تھے وہ حکومت کی کَل کو اس طرح چلاتے تھے کہ جس پرزے کو جہاں چاہا نکال لیا اور جہاں چاہا لگادیا، مصلحت ہوئی تو کسی پرزے کو سر ے سے نکال دیا اور ضرورت ہوئی تو نئے پرزے تیار کرلیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیدنا عمر فاروق فاروق اعظم خلافت میں دور خلافت کوئی شخص فاروق ا کے ساتھ کے دور کے لیے اور ان کے بعد

پڑھیں:

ایران پر امریکی حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا، امیر سعید ایروانی

یو این او سکیورٹی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب میں ایرانی مندوب کا کہنا تھا کہ عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو سیاسی ہتھیار میں تبدیل کر دیا گیا، اسے جارحیت اور غیر قانونی اقدام کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ سلامتی کونسل میں ایرانی مندوب امیر سعید ایروانی نے کہا ہے کہ ایران پر امریکی حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ امریکی حملے کا جواب دینے کے وقت اور نوعیت کا فیصلہ ایرانی افواج کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ایران پر امریکا کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں، امریکا کے الزامات کے سیاسی محرکات ہیں، ان کی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔ ایرانی مندوب امیر سعید ایروانی کا کہنا ہے کہ عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو سیاسی ہتھیار میں تبدیل کر دیا گیا، اسے جارحیت اور غیر قانونی اقدام کے طور پر استعمال کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا حکومت فسطائیت کی بدترین مثالیں قائم کر رہی ہے،امیر مقام 
  • ڈاکٹر فاروق ستار نے سوشل میڈیا پر اپنے نام سے زیرِگردش خط کی سختی سے تردید کردی
  • فاروق ستار نے سوشل میڈیا پر اپنے نام سے چلنے والے خط کی تردید کردی
  • سبینا فاروق ڈراما سیٹ پر شدید بیمار، سانس لینا بھی مشکل
  • ایران پر امریکی حملہ، جماعت اسلامی آج ملک گیر یوم احتجاج منائے گی
  • ایران پر امریکی حملے کا بھرپور جواب دیا جائے گا، امیر سعید ایروانی
  • ڈاکٹر فاروق ستار کی سوشل میڈیا پر خود سے منسوب خط کی تردید
  • پنشن کم از کم اجرت کے برابر کی جائے‘ امیر روان
  • سندھ حکومت نے بھی کے فور منصوبے کیلیے عملاً کچھ نہیں رکھا،محمد فاروق