حیدرآباد شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے ،اصغر علی خان یوسفزئی
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250624-2-13
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سابق کنٹونمنٹ کونسلر اصغر علی خان یوسف زئی نے کہا ہے کہ ٹھنڈی ہوائوں کا شہر حیدرآباد میں گزشتہ کئی عرصہ سے ترقیاتی کام نہ ہونے کے سبب پورا شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے اوریہ بدنصیب شہر گزشتہ کئی عشروں سے، جس بدترین صورتحال کا شکار ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ایک سال سے یہاں کے شہری سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث اذیت سے دوچار تھے لیکن اب جبکہ محکمہ موسمیات نے مون سون بارشوں کی پیشگوئی کردی ہے تواب شہر کے کئی علاقوں میں سڑ کوں کی تعمیر کا کام شرو ع کیا گیا اور جلد بازی میں سڑکوں کے غیر معیاری کام کرائے جا رہے ہیں اور یہ سڑکیں پہلی بارش پڑتے ہی پانی میں بہہ جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ موٹر سائیکل سوار گڑھوں میں گرکر زخمی ہورہے ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہے، حادثات معمول بن گئے ہیں۔اسی طرح شہر بھر کا نکاسی آب کا نظام بھی بری طرح سے متاثر ہے، شہر کی ہر گلی اور محلے کے علاوہ مرکزی سڑکوں پر گٹر ابل رہے ہیں جس کی وجہ سے سڑکیں گندے پانی کے تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں،جبکہ مون سون بارشوں کا سیزن شروع ہونے کے باوجود شہر کے سیوریج اور برساتی نالوں کی صفائی کا کام شروع نہیں کرایا گیا ہے جبکہ کھلے نالوں میں معصوم بچے گر کر جاں بحق ہو رہے ہیں، لاکھوں روپے مالیت کی سیکشن مشینیں ناکارہ پڑی ہیں جنھیں سیوریج کے صفائی کے لیے استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا ظاہر ہورہاہے کہ حکومتوں سے بھاری فنڈزکیلئے حیدرآبادشہر کو ڈبونے کی سازش کی جا رہی ہے۔بلدیہ اعلی حیدرآباد ،واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن اورضلعی انتظامیہ نے بارشوں کے بعد ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کئے اورمتعلقہ ادارے غفلت کی نیند سو ر ہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حالیہ مون سون کی ہونے والی بارشوں سے قبل نالوں اور سیوریج سسٹم کی صفائی کا کام کرایا جا ئے، سیوریج کے ڈسپوزل پمپس پر ناکارہ موٹروں کی جگہ نئی موٹریں نصب کی جائیںاور تمام نکاسی آب کے پمپنگ اسٹیشنوں پر جنریٹرزکا انتظام کیا جائے تاکہ بجلی عدم سپلائی پر شہر کو ڈوبنے سے بچایا جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
گینگ وار سے متاثرہ ہیٹی کا مقدر بدلنا چاہیے، الریکا رچرڈسن
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 اگست 2025ء) ہیٹی کے لیے اقوام متحدہ کی سبکدوش ہونے والی نمائندہ اور امدادی رابطہ کار الریکا رچرڈسن نے کہا ہے کہ ملک کو طویل اور بدترین ہوتے انسانی بحران کا سامنا ہے جہاں مسلح جتھوں کا تشدد پھیلتا جا رہا ہے اور اس سے شہریوں کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
عہدہ چھوڑنے سے قبل اپنی آخری بریفنگ میں انہوں نے بتایا ہے کہ ہیٹی کے حالات کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔
ملک کی صورتحال تشویش ناک ہے جو فوری اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ ہیٹی کا شمار دنیا کے ان پانچ مالک میں ہوتا ہے جہاں لوگوں کو قحط جیسے حالات درپیش ہیں۔ Tweet URLہولناک حالات کے باوجود ہیٹی کے لیے رواں سال طلب کردہ امدادی وسائل میں سے اب تک نو فیصد ہی مہیا ہو پائے ہیں، تاہم سیاسی عزم اور مالی وسائل کی موجودگی میں بحران پر باآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ تکالیف اور مایوسی کو ہیٹی کا مقدر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ملک جس رفتار سے مسائل کا شکار ہو رہا ہے اسی رفتار سے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا بھی ہو سکتا ہے۔
نقل مکانی اور غذائی قلتہیٹی میں جاری مسلح جرائم پیشہ جتھوں کے تشدد میں 13 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جو ملکی تاریخ میں ایسے لوگوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
ملک کی تقریباً نصف تعداد کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ یہ تعداد بہت بڑی ہے اور اس کے پیچھے انسانوں پر مرتب ہونے والی اثرات اور لوگوں کی مشکلات کا تصور کرنا بھی آسان نہیں۔الریکا رچرڈسن نے بتایا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے لوگ اپنے ایسے عزیزوں کو پیچھےچھوڑ گئے ہیں جو جسمانی طور پر معذور یا معمر ہونے کے باعث نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔
عالمی برادری کا کردارالریکا رچرڈسن نے کہا ہے کہ ہیٹی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ذرائع موجود ہیں لیکن اس معاملے میں عالمی برادری کا کردار ویسا نہیں جیسا ہونا چاہیے۔
انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہیٹی میں امن و امان برقرار رکھنے میں مدد دینے کثیرالفریقی مشن میں شامل اہلکاروں کی تعداد ضرورت کے مقابلے میں نصف ہے اور اس کے پاس ضروری سازوسامان بھی موجود نہیں۔
اگرچہ مسلح جتھوں سے وابستگی رکھنے والے سیاست دانوں پر پابندیاں سست روی سے موثر ہونے لگی ہیں تاہم یہ کوششیں ناکافی ہیں جبکہ عالمی برادری ملک میں ہتھیاروں کی آمد روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔انہوں نے رکن ممالک سے کہا ہے کہ وہ غور کریں کہ ہیٹی میں انسانی بحران کو حل کرنے کے لیے مزید کون سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
نظرانداز شدہ بحرانالریکا رچرڈسن یکم ستمبر میں لیبیا میں ذمہ داریاں سنبھالیں گی۔
وہ کئی سال تک ہیٹی میں کام کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ایسا بڑا بحران ہے جسے دنیا نے بظاہر بھلا دیا ہے۔ تاہم، اگر عالمی برادری اس پر قابو پانے کے طریقوں پر کام لینے کو تیار ہو تو اس بحران کا خاتمہ ممکن ہے۔الریکا رچرڈ سن نے کہا کہ پرامید ہو کر ہی مقاصد کا حصول ممکن ہے۔ ہیٹی کے لوگ پرامید ہیں اور انہوں نے یہ امید اپنے قابل قدر اور روشن ماضی سے حاصل کی ہے۔ یہ لوگ آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں تاکہ ملک کو عالمی برادری میں مزید طاقتور آواز بننے کا موقع مل سکے۔