کینیا: حکومت مخالف احتجاج پر پولیس کا طاقت کا استعمال، 16 افراد ہلاک، 400 سے زائد زخمی
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیروبی: کینیا میں کرپشن اور متنازع مالیاتی بل کے خلاف ملک گیر حکومت مخالف مظاہروں کے دوران پولیس کی فائرنگ اور شیلنگ سے کم از کم 16 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہوگئے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ احتجاج دارالحکومت نیروبی سمیت کئی بڑے شہروں میں اُس وقت شروع ہوا جب متنازع مالیاتی بل کے خلاف عوامی احتجاج کو ایک سال مکمل ہوا، مظاہرین نے حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے کرپشن اور مہنگائی پر احتجاج کیا، جس کے جواب میں پولیس نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔
عینی شاہدین اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کینیا کے مطابق ہلاکتوں کی بڑی تعداد پولیس کی براہ راست فائرنگ کا نتیجہ ہے جبکہ متعدد افراد آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہوئے، زخمیوں میں مظاہرین کے ساتھ ساتھ صحافی اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، جنہیں مختلف اسپتالوں میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔
ایمنسٹی کینیا کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت مظاہرین کی آواز دبانے کے لیے ریاستی طاقت کا بے جا استعمال کر رہی ہے، جو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب حکومت نے حالات کو قابو میں رکھنے کے نام پر میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہوئے مظاہروں کی براہ راست کوریج پر پابندی لگا دی ہے، اس فیصلے کے خلاف دو مقامی ٹی وی چینلز کو آف ایئر کر دیا گیا ہے، جس پر آزادی اظہار کے علمبردار اداروں نے شدید ردعمل دیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال بھی اسی مالیاتی بل کے خلاف پرتشدد مظاہروں کے دوران متعدد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں نے غریب اور متوسط طبقے کو شدید متاثر کیا ہے، جبکہ بدعنوانی میں اضافے نے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ کینیا میں جمہوری آزادیوں کے تحفظ اور ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ دوسری جانب، حکومت نے حالات کی سنگینی کے باوجود بل واپس لینے یا مذاکرات کی کوئی پیشکش نہیں کی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے خلاف
پڑھیں:
انڈونیشیا: پرتشدد مظاہروں میں 936 افراد گرفتار ، 295 نابالغ بھی شامل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جکارتا: انڈونیشیا کی پولیس نے گزشتہ ماہ ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں میں ملوث تقریباً 1,000 افراد کی نشاندہی کر لی ہے،ان میں 295 کم عمر افراد بھی شامل ہیں جنہیں باضابطہ طور پر مشتبہ قرار دیا گیا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق نیشنل پولیس کریمنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سربراہ کمشنر جنرل سیاحر دیانتونو نے کہا کہ 936 افراد کے خلاف کیسز درج کیے گئے ہیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف اُن لوگوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں جو پُرتشدد کارروائیوں اور ہنگاموں میں ملوث تھے جبکہ پرامن احتجاج کرنے والوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
رپورٹس کے مطابق ان مظاہروں کے دوران کم از کم 10 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے، جن میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، ان ہنگاموں کا آغاز اس وقت ہوا جب حکومت کی جانب سے ارکانِ پارلیمان کے الاؤنسز میں اضافے کی تجویز کے خلاف عوامی احتجاج کیا گیا۔
خیال رہےکہ 28 اگست کو جکارتہ میں ایک موٹرسائیکل ٹیکسی ڈرائیور کو بکتر بند پولیس گاڑی نے کچل کر ہلاک کر دیا، اس واقعے کے بعد ملک کے کئی صوبوں میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے۔
جکارتہ میں مشتعل مظاہرین نے پولیس اسٹیشنز اور سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی، درجنوں گاڑیوں کو تباہ کیا، شیشے توڑ دیے اور چوکیاں زمین بوس کر دیں۔ اس دوران پولیس افسران کو پتھراؤ کے ذریعے زخمی بھی کیا گیا۔