اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جون2025ء) چین نے کہا ہے کہ ایران نے اب تک جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں ، امریکا نے ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے 2015 میں طے پانے والے بین الاقوامی معاہدے سے 2018 میں یکطرفہ طور علیحدگی اختیار کر کے اور ایران پر یکطرفہ پابندیاں عائد کر کے بحران کا آغاز کیا۔

شنہوا کے مطابق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران کے خلاف الزامات کے جواب میں اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب فو کانگ نے کہا کہ سلامتی کونسل کے کچھ رکن ممالک نے ایران کے خلاف اسرائیل اور امریکا کے فوجی اقدامات کو جواز فراہم کرنے کی کوشش میں ایران پر جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کا الزام لگانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ چین ان ممالک کو ان بنیادی حقائق کی یاددہانی کرانا چاہتا ہے کہ یہ کوئی اور نہیں بلکہ امریکا ہی ہے جس نے ایرانی جوہری بحران شروع کیا جس نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے 2015 میں طے پانے والے بین الاقوامی معاہدے سے 2018 میں یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کر لی، اس کے بعدامریکا نے ایران کے خلاف یکطرفہ پابندیاں بحال اور ان میں اضافہ کردیا اور ایران کے خلاف "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی پالیسی کے تحت اقدامات کئے ، اس طرح ایران کو معاہدے سے ملنے والے اقتصادی فوائد حاصل کرنے سے روکا گیا اوراسے معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو پیچھے چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

چینی مندوب نے کہا کہ امریکا نے ایران کی جوہری تنصیبات پر فوجی حملے کئے جس سے امریکا کےا پنے شروع کردہ مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچا اور ایران کے جوہری پروگرام کامسئلہ ایک اور تعطل کا شکار ہوا اور اس کے نتیجے میں علاقائی کشیدگی میں اچانک اضافہ ہوا۔چینی سفیر نے کہا کہ جوہری بحران کے حل میں ایران کے اخلاص کی قدر کی جانی چاہیے، ایران نے آج تک جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں اور جامع حفاظتی معاہدے پر عمل درآمد کررہا ہے ،اس نے بارہا کہا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار نہیں کرنا چاہتا۔

چینی مندوب نے کہا کہ ایران نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور تعمیری انداز میں کئے اوروہ اپنی سفارتی کوششوں سے کبھی دستبردار نہیں ہوا، تاہم بعض ممالک نے یک طرفہ طور پر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے)کے ڈائریکٹر جنرل کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اور ایجنسی کے ساتھ ایران کے تعاون کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے، مناسب مشاورت کے بغیر ادارے کے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے ایک قرارداد کو منظور کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ اس عمل نے کشیدگی میں اضافہ کرتے ہوئے بات چیت کو خطرے میں ڈال دیا،ایسا کرنے والے ممالک کو اپنے غیر ذمہ دارانہ اقدام کے منفی نتائج پرسنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور امریکا نے مستقبل کے ممکنہ خطرات کی بنیاد پر ایران کے خلاف طاقت کے استعمال کا سہارا لیا جو بین الاقوامی قانون اور ایران کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی اے ای اے کے تحفظات کے تحت رکھی گئی ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے نے ایک بری مثال قائم کی ہے جس سے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کی بین الاقوامی کوششوں کو خطرہ لاحق ہو گیاہے۔ چینی مندوب نے کہا کہ ان کا ملک ایک بار پھر واضح طور پر اس کی مذمت کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ بالا اقدامات نے ایرانی جوہری مسئلے کو حل کرنے کی سفارتی کوششوں کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 پر عمل درآمد کے بارے میں انتہائی غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے جس پر چین کو سخت تشویش ہے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جوہری ہتھیاروں کے عدم انہوں نے کہا کہ ایران کے خلاف ایرانی جوہری بین الاقوامی کے حوالے سے اور ایران امریکا نے ایران نے نے ایران

پڑھیں:

مسئلہ فلسطین پر آج ہونیوالی یو این کانفرنس بارے جاننے کی اہم باتیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر22 ستمبر کو فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والی کانفرنس میں فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کا احیاء کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس عالمی کانفرنس میں دنیا بھر سے سربراہان مملکت و حکومت شرکت کریں گے۔

رواں سال اپریل میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اسرائیلی۔

فلسطینی مسئلے کےدو ریاستی حل کا امکان کمزور پڑ رہا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا سیاسی عزم اب پہلے سے کہیں زیادہ دور محسوس ہوتا ہے۔

حالیہ دنوں میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ مسئلے کے اس حل کا متبادل کیا ہے؟ کیا یہ حل یک ریاستی ہو گا جس میں یا تو فلسطینیوں کو ان کے علاقے سے نکال دیا جائے، یا انہیں اپنی سرزمین پر حقوق کے بغیر رہنے پر مجبور کیا جائے؟

انہوں نے زور دیا کہ دو ریاستی حل کو زندہ رکھنا اور اس کے لیے ضروری حالات پیدا کرنا بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے۔

(جاری ہے)

درج ذیل نکات اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ دو ریاستی حل کے لیے ہونے والی کانفرنس کیوں اہم ہے۔

UN Photo جنوبی فلسطین میں غزہ کے علاقے خان یونس میں ایک پناہ گزین خاندان (سال 1948) دو ریاستی حل کی تاریخیہودی اور فلسطینی آبادیوں کے لیے ایک دوسرےکے ساتھ الگ ریاستیں قائم کرنے کا تصور اقوام متحدہ کے قیام سے بھی زیادہ پرانا ہے۔

اس تصور کو وقت کے ساتھ کئی بار ترتیب دیا گیا اور یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی درجنوں قراردادوں، کئی امن مذاکرات اور جنرل اسمبلی کے حالیہ دسویں ہنگامی خصوصی اجلاس میں بھی زیربحث آیا ہے۔1947 میں برطانیہ نے فلسطین پر اپنا مینڈیٹ ختم کرتے ہوئے 'فلسطینی مسئلہ' اقوام متحدہ کے سامنے پیش کیا جس نے اس مسئلے کا منصفانہ حل تلاش کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔

اقوام متحدہ نے فلسطین کو خودمختار فلسطینی عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے اور یروشلم کو بین الاقوامی حیثیت دینے کی تجویز دی۔1991 میں سپین کے شہر میڈرڈ میں امن کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کا مقصد براہِ راست مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا پرامن حل نکالنا تھا۔ یہ مذاکرات سلامتی کونسل کی قرارداد 242 (1967) اور 338 (1973) کی بنیاد پر اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین ہونا تھے۔

1993 میں اسرائیلی وزیراعظم آئزک رابن اور فلسطینی تنظیم آزادی کے چیئرمین یاسر عرفات نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے جس میں آئندہ مذاکرات کے اصول وضع کیے گئے اور مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی عبوری خودمختار حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔اوسلو معاہدے میں کچھ اہم معاملات کو بعد میں ہونے والے مستقل حیثیت کے مذاکرات تک مؤخر کر دیا گیا۔

یہ مذاکرات 2000 میں کیمپ ڈیوڈ اور 2001 میں طابا میں ہوئے لیکن نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔اوسلو معاہدے سے تین دہائیاں بعد بھی اقوامِ متحدہ کا بنیادی ہدف یہی ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو تنازع کا حل نکالنے میں مدد دی جائے اور فسلطینی علاقوں پر قبضے کا خاتمہ ہو تاکہ اسرائیل اور آزاد، جمہوری، قابل عمل اور خودمختار فلسطینی ریاست امن و سلامتی سے، 1967 سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور یروشلم دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت ہو۔

IRIN/Andreas Hackl مشرقی یروشلم میں ایک آبادکار خاتون جبکہ اسرائیلی فوجی پہرہ دے رہا ہے۔

کانفرنس سے توقعات

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے کے افتتاحی دن ہونے والی یہ کانفرنس ایسے وقت منعقد ہو رہی ہے جب غزہ میں اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں 60,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ 22 اگست کو شمالی غزہ میں قحط کی باضابطہ تصدیق کی گئی، 9 ستمبر کو اسرائیل نے قطر میں حماس کے عہدیداروں کو نشانہ بنایا اور مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع میں بھی تیزی آئی ہے۔

اس غیر مستحکم اور تشویشناک علاقائی صورتحال کے باوجود، دو ریاستی حل کو سفارتی سطح پر دوبارہ حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ 12 ستمبر کو جنرل اسمبلی نے کثرتِ رائے سے 'نیویارک اعلامیہ' منظور کیا جس میں دو ریاستی حل پر مبنی اور بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر منصفانہ اور پائیدار امن کی حمایت کی گئی۔ اعلامیے میں جنگ کے خاتمے کے لیے حماس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ غزہ میں اپنا کردار ختم کرے اور اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرے۔

امریکہ اور اسرائیل نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

22 ستمبر کو ہونے والا سربراہی اجلاس اسی سفارتی پیش رفت کو آگے بڑھائے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکخواں اس اجلاس میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے۔ اطلاعات کے مطابق، برطانیہ، کینیڈا، بیلجیئم اور آسٹریلیا سمیت کئی دیگر مغربی ممالک بھی اسی اقدام پر غور کر رہے ہیں۔

اس طرح، یہ سربراہی اجلاس اقوام متحدہ کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے نیا لائحہ عمل ترتیب دینے کی عالمی کوششوں میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کیخلاف کارروائی: امریکا کا پوری عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں لگانے پر غور
  • ایران میں 8 نئے جوہری بجلی گھر بنانے کے لیے روس سے معاہدہ اس ہفتے متوقع
  • روس کی امریکا کو جوہری معاہدے میں ایک سال توسیع کی پیشکش
  • روس کی امریکا کو جوہری معاہدے میں ایک سال کی توسیع کی پیشکش
  • نیو کلیئر ہتھیاروں کی حد بندی: روس کا ٹرمپ کو ایک سال کی توسیع کی پیشکش
  • روس کی امریکا کو جوہری معاہدے ’نیو اسٹارٹ‘ میں ایک سال کی توسیع کی پیشکش
  • مسئلہ فلسطین پر آج ہونیوالی یو این کانفرنس بارے جاننے کی اہم باتیں
  • امریکا اگر ایٹمی ہتھیاروں سے دستبرداری کا مطالبہ چھوڑ دے تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں، کم جونگ
  • بھارت امریکا تجارتی کشیدگی: مودی کی قوم سے اپنی مصنوعات استعمال کرنے کی اپیل
  • ایران کا یورپی ممالک کو سخت انتباہ، جوہری ایجنسی سے تعاون معطل کرنے کی دھمکی