Islam Times:
2025-09-25@10:38:48 GMT

یہ معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا!

اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT

یہ معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا!

اسلام ٹائمز: جو کچھ پیش آیا، وہ ایک عظیم فتح تھی۔ ایسی ہمہ جہت جنگ اور غافلگیری کے عالم میں شاید روس یا چین جیسے ممالک بھی زیادہ دیر نہ ٹھہر پاتے۔ مگر ملتِ ایران نے، اپنی مدبر، بابصیرت اور دوراندیش قیادت، آیت اللہ خامنہ ای کی رہبری میں، ایثار، استقلال اور بیداری کے ساتھ ایسا کارنامہ انجام دیا ہے، جسے تاریخ سنہری حروف سے یاد رکھے گی اور آخر ی نکتہ یہ ہے کہ: یہ جنگ کوئی جغرافیائی اختلافات پر مشتمل جنگ نہیں، بلکہ دو نظریات اور دو آڈیالوجیز کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ ہے، جو اُسوقت تک جاری رہے گا، جب تک ان میں سے کوئی ایک اپنے نظریئے سے دستبردار نہ ہو۔ تحریر: محمد سجاد شاکری
msshakri1984@gmail.

com

روسی عوام ایک صبح اس وقت بیدار ہوئے، جب انہوں نے دیکھا کہ درجنوں چھوٹے ڈرونز اُن کے اپنے علاقوں سے فضا میں بلند ہوچکے ہیں اور اِن ڈرونز نے روس کے فضائی اثاثوں، بالخصوص بمبار طیاروں کو نشانہ بنایا ہے۔ اگرچہ یوکرین نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کی اور روس نے اس کے جواب میں تباہ کن ردعمل کا اعلان بھی کیا، لیکن آج تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ روس نے اس حملے کے جواب میں عملاً کیا اقدام کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ روس جیسی عظیم عالمی طاقت، جو دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی فوجی قوت شمار ہوتی ہے، ایک ایسے اچانک اور غافلگیر حملے کے خلاف مؤثر دفاعی تدابیر اختیار نہ کرسکی۔

اگر ہم اس منظرنامے کے ساتھ کچھ دیگر واقعات پر بھی نظر ڈالیں تو ایک واضح عالمی حکمتِ عملی سامنے آتی ہے: صدر جو بائیڈن کے دور میں، صیہونی ریاست اور امریکی افواج کی جانب سے ایران پر حملے کی فرضی مشقیں کی گئیں اور سابق صدر ٹرمپ کے دور میں، اچانک اور ہولناک کارروائی کے ذریعے بعض ایرانی کمانڈروں اور سائنسدانوں کو شہید کیا گیا، ساتھ ہی ایران کے بعض حساس فوجی مراکز اور ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ روس پر ایک روزہ ڈرون حملے جیسا منصوبہ، ایران کے خلاف بارہ شبوں تک مسلسل جاری رہا۔

اب آئیے جنگ کے دوسرے منظرنامے پر نظر ڈالیں:
دشمن کا مقصد ایران کی فوجی اور دفاعی طاقت کو ختم کرنا، عوامی دباؤ کے ذریعے حکومتِ ایران کو تبدیل یا کمزور کرنا، ایران کی میزائل صلاحیت کو تباہ کرنا، اندرونی خلفشار اور بغاوت کے ذریعے ملک کو کئی حصوں میں تقسیم کرنا اور ایران کی ایٹمی تنصیبات و سائنسدانوں کو نشانہ بنا کر اُس کی ایٹمی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا۔ یہ تمام نکات امریکا اور اسرائیل کے سیاسی و عسکری قائدین بارہا دہرا چکے ہیں اور دنیا کے معروف تجزیہ نگار بھی ان امور پر اپنی تفصیلات پیش کرچکے ہیں۔

لیکن حقیقت میں کیا ہوا؟
ایران کے اہم ڈھانچوں، بالخصوص فضائی دفاع، میزائل نظام اور ائیر ڈیفنس سسٹم کو نشانہ بنایا گیا۔ مگر ایران نے محض آٹھ گھنٹے کی قلیل مدت میں اپنے باصلاحیت جوانوں کی مدد سے پورے نظام کو دوبارہ فعال کر دیا اور بارہ روزہ جنگ کے دوران دشمن کے 130 بڑے ڈرونز اور ایک ہزار سے زائد چھوٹے کواڈ کوپٹرز کو تباہ کر دیا۔ تقریباً ایک ہزار جاسوسوں اور اندرونی سہولت کاروں کو گرفتار کیا گیا۔ ایران نے تل ابیب اور حیفا پر ایسے تباہ کن حملے کیے کہ دوست و دشمن سب نے اعتراف کیا کہ اسرائیل نے پہلی بار "غزہ" کے درد کو واقعی محسوس کیا اور اہلِ فلسطین کے زخم خوردہ چہروں پر پہلی بار مسکراہٹ دیکھنے کو ملی۔ ان بارہ دنوں میں ایران نے اسرائیل کو جس قدر شرمناک شکست سے دوچار کیا، اُس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا جیسے ملک کو اس جنگ میں مداخلت کرنا پڑی۔ تاہم، وہ محض ایک نمائشی کارروائی کرکے رہ گیا اور ایرانی جوابی وار کا کوئی جواب نہ دے سکا۔

یہ جنگ پیر کی شب ایک عارضی جنگ بندی پر رکی۔ وہ اسرائیل، جو ایران کے ہر حملے کے بعد فوری ردعمل دکھاتا تھا، صبح 6 بجے سے 7:30 بجے تک ایران کی مسلسل میزائل بارش کے باوجود کوئی حرکت نہ کرسکا۔ ایران اپنی ایٹمی پالیسی سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا، بلکہ 400 کلو یورینیم اور سینکڑوں سینٹری فیوجز کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا۔ ایران نے آخری لمحے تک میزائل داغے اور یہ ثابت کیا کہ یہ کوئی وقتی ردعمل نہیں، بلکہ ایک مکمل، ہمہ گیر اور باقاعدہ جنگ تھی، جو دو ایٹمی ریاستوں کی جانب سے ایران پر مسلط کی گئی تھی، مگر ایران نے بارہ روزہ مزاحمت کے بعد دشمن کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔

اس جنگ کے اثرات بے حد گہرے اور دور رس ثابت ہوئے
اسلامی جمہوریہ ایران، اس کی قیادت اور مسلح افواج یہاں تک کہ سخت ترین مخالفین کے دلوں میں بھی محبوب بن گئی۔ پوری ایرانی قوم متحد ہوگئی، حتیٰ کہ وہ افراد جو گزشتہ برسوں میں حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہوتے تھے، اس بار ایرانی حکومت اور فوجی قیادت کے شانہ بشانہ نظر آئے۔ وہ لوگ جو کل تک ’’نہ غزہ، نہ لبنان‘‘ کے نعرے لگاتے تھے، اب اسرائیل کے خلاف ایرانی موقف اور فلسطینی و لبنانی مزاحمتی تنظیموں کی حمایت کے فوائد کے معترف ہوگئے۔ ایرانی عوام نے رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں دفاعی ٹیکنالوجی، ایٹمی توانائی اور عزتِ ملی کے تحفظ پر اُن کے غیر متزلزل مؤقف کو بخوبی درک کیا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق، نوے فیصد ایرانی عوام میزائل پروگرام کی توسیع، ایٹمی طاقت بننے، یہاں تک کہ ایٹم بم بنانے کی بھی حمایت کرتے نظر آئے۔ پوری قوم اسرائیل کو سزا دینے کی حامی بن چکی ہے۔

مگر سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی
دشمن ضرور واپس آئے گا؛ کیونکہ اسے اپنے پائلٹوں کو آرام دینا ہے، طیاروں کی مرمت اور دفاعی نظام کی بحالی کرنی ہے۔ اب ایران کو چاہیئے کہ اگلے مرحلے کے لیے اپنے میزائل نظام کو مزید تقویت دے، غافلگیر حملوں سے نمٹنے کے لیے اندرونی سکیورٹی کو مستحکم کرے، نفوذی عناصر اور تخریب کاروں کے خلاف سنجیدہ اور ہمہ گیر منصوبہ بندی کرے، اسلامی ممالک کی غداری، خصوصاً ایران کی شمالی سرحدوں پر ممکنہ خطرات کے تدارک کے لیے فعال اقدامات کرے اور فضائی دفاع و ہوابازی کے میدان میں درپیش چیلنجز پر مؤثر قابو پائے۔ اگر آئندہ کوئی حملہ ہو تو ایران کو پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن اور عبرتناک ردعمل دینے کے لیے پوری طرح آمادہ ہونا چاہیئے۔

جو کچھ پیش آیا، وہ ایک عظیم فتح تھی۔ ایسی ہمہ جہت جنگ اور غافلگیری کے عالم میں شاید روس یا چین جیسے ممالک بھی زیادہ دیر نہ ٹھہر پاتے۔ مگر ملتِ ایران نے، اپنی مدبر، بابصیرت اور دوراندیش قیادت، آیت اللہ خامنہ ای کی رہبری میں، ایثار، استقلال اور بیداری کے ساتھ ایسا کارنامہ انجام دیا ہے، جسے تاریخ سنہری حروف سے یاد رکھے گی اور آخر ی نکتہ یہ ہے کہ: یہ جنگ کوئی جغرافیائی اختلافات پر مشتمل جنگ نہیں، بلکہ دو نظریات اور دو آڈیالوجیز کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ ہے، جو اُس وقت تک جاری رہے گا، جب تک ان میں سے کوئی ایک اپنے نظریئے سے دستبردار نہ ہو۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایران نے ایران کے ایران کی یہ ہے کہ کے خلاف یہ جنگ اور دو کر دیا کے لیے

پڑھیں:

جوہری ہتھیاربنانے کا کوئی ارادہ نہیں،مگر یورینیئم افزودگی پردباؤ میں نہیں آئیں گے:خامنہ ای

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تہران: ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کا کہنا ہے کہ ہمیں جوہری ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، نہ ہی جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ ہے لیکن یورینیئم افزودگی کے معاملے میں ایران کسی دباؤ میں نہیں آئے گا۔

سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات ختم ہوچکے ہیں، حالیہ صورتحال میں امریکا سے مذاکرات ہمارے مفادات کا تحفظ نہیں کریں گے اور ایران کے لیے نقصاندہ ہوں گے۔ یہ بات انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہی۔

انہوں نے کہا کہ امریکا چاہتا ہے ہمارے پاس مڈ رینج اور دیگر میزائل نہ ہوں، دھمکیوں کے زیر اثر مذاکرات کرنا دباؤ کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے اور کوئی بھی باعزت قوم دباؤ کے آگے سر نہیں جُھکاتی۔

ایرانی سپریم لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے یورینیئم افزودگی کو نہیں روک سکتے، انہوں نے کہا کہ ایران کے پاس یورینیئم افزودگی کے درجنوں یا شاید سیکڑوں ماہرین ہیں۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • ایران یورینیم افزودگی سے کسی طور پیچھے نہیں ہٹےگا، کوئی دباؤ قبول نہیں: خامنہ ای
  • پاک سعودی دفاعی معاہدے کو خوش آمدید کہتے ہیں: ایرانی صدر مسعود پزشکیان
  • سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی معاہدے کو خوش آمدید کہتے ہیں، ایرانی صدرکا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب
  • پاک سعودیہ دفاعی معاہدہ جامع علاقائی سلامتی کے نظام کی شروعات ہے،ایرانی صدر
  • نیویارک، جنرل اسمبلی سے ایرانی صدر کے خطاب میں آیت اللہ خامنہ ای کے بیانیے کی گونج
  • آج ایرانی ہم منصب مسعود پزشکیان سے ملاقات کروں گا .صدرمیکرون
  • ’امریکا سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، ایران یورینیئم کی افزودگی نہیں روکے گا‘
  • روس ایران میں 8 نئے جوہری بجلی گھر تعمیر کرے گا
  • جوہری ہتھیاربنانے کا کوئی ارادہ نہیں،مگر یورینیئم افزودگی پردباؤ میں نہیں آئیں گے:خامنہ ای
  • ایران میں 8 نئے جوہری بجلی گھر بنانے کے لیے روس سے معاہدہ اس ہفتے متوقع