یہ معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا!
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: جو کچھ پیش آیا، وہ ایک عظیم فتح تھی۔ ایسی ہمہ جہت جنگ اور غافلگیری کے عالم میں شاید روس یا چین جیسے ممالک بھی زیادہ دیر نہ ٹھہر پاتے۔ مگر ملتِ ایران نے، اپنی مدبر، بابصیرت اور دوراندیش قیادت، آیت اللہ خامنہ ای کی رہبری میں، ایثار، استقلال اور بیداری کے ساتھ ایسا کارنامہ انجام دیا ہے، جسے تاریخ سنہری حروف سے یاد رکھے گی اور آخر ی نکتہ یہ ہے کہ: یہ جنگ کوئی جغرافیائی اختلافات پر مشتمل جنگ نہیں، بلکہ دو نظریات اور دو آڈیالوجیز کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ ہے، جو اُسوقت تک جاری رہے گا، جب تک ان میں سے کوئی ایک اپنے نظریئے سے دستبردار نہ ہو۔ تحریر: محمد سجاد شاکری
msshakri1984@gmail.
روسی عوام ایک صبح اس وقت بیدار ہوئے، جب انہوں نے دیکھا کہ درجنوں چھوٹے ڈرونز اُن کے اپنے علاقوں سے فضا میں بلند ہوچکے ہیں اور اِن ڈرونز نے روس کے فضائی اثاثوں، بالخصوص بمبار طیاروں کو نشانہ بنایا ہے۔ اگرچہ یوکرین نے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کی اور روس نے اس کے جواب میں تباہ کن ردعمل کا اعلان بھی کیا، لیکن آج تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ روس نے اس حملے کے جواب میں عملاً کیا اقدام کیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ روس جیسی عظیم عالمی طاقت، جو دنیا کی دوسری یا تیسری بڑی فوجی قوت شمار ہوتی ہے، ایک ایسے اچانک اور غافلگیر حملے کے خلاف مؤثر دفاعی تدابیر اختیار نہ کرسکی۔
اگر ہم اس منظرنامے کے ساتھ کچھ دیگر واقعات پر بھی نظر ڈالیں تو ایک واضح عالمی حکمتِ عملی سامنے آتی ہے: صدر جو بائیڈن کے دور میں، صیہونی ریاست اور امریکی افواج کی جانب سے ایران پر حملے کی فرضی مشقیں کی گئیں اور سابق صدر ٹرمپ کے دور میں، اچانک اور ہولناک کارروائی کے ذریعے بعض ایرانی کمانڈروں اور سائنسدانوں کو شہید کیا گیا، ساتھ ہی ایران کے بعض حساس فوجی مراکز اور ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ روس پر ایک روزہ ڈرون حملے جیسا منصوبہ، ایران کے خلاف بارہ شبوں تک مسلسل جاری رہا۔
اب آئیے جنگ کے دوسرے منظرنامے پر نظر ڈالیں:
دشمن کا مقصد ایران کی فوجی اور دفاعی طاقت کو ختم کرنا، عوامی دباؤ کے ذریعے حکومتِ ایران کو تبدیل یا کمزور کرنا، ایران کی میزائل صلاحیت کو تباہ کرنا، اندرونی خلفشار اور بغاوت کے ذریعے ملک کو کئی حصوں میں تقسیم کرنا اور ایران کی ایٹمی تنصیبات و سائنسدانوں کو نشانہ بنا کر اُس کی ایٹمی صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کرنا تھا۔ یہ تمام نکات امریکا اور اسرائیل کے سیاسی و عسکری قائدین بارہا دہرا چکے ہیں اور دنیا کے معروف تجزیہ نگار بھی ان امور پر اپنی تفصیلات پیش کرچکے ہیں۔
لیکن حقیقت میں کیا ہوا؟
ایران کے اہم ڈھانچوں، بالخصوص فضائی دفاع، میزائل نظام اور ائیر ڈیفنس سسٹم کو نشانہ بنایا گیا۔ مگر ایران نے محض آٹھ گھنٹے کی قلیل مدت میں اپنے باصلاحیت جوانوں کی مدد سے پورے نظام کو دوبارہ فعال کر دیا اور بارہ روزہ جنگ کے دوران دشمن کے 130 بڑے ڈرونز اور ایک ہزار سے زائد چھوٹے کواڈ کوپٹرز کو تباہ کر دیا۔ تقریباً ایک ہزار جاسوسوں اور اندرونی سہولت کاروں کو گرفتار کیا گیا۔ ایران نے تل ابیب اور حیفا پر ایسے تباہ کن حملے کیے کہ دوست و دشمن سب نے اعتراف کیا کہ اسرائیل نے پہلی بار "غزہ" کے درد کو واقعی محسوس کیا اور اہلِ فلسطین کے زخم خوردہ چہروں پر پہلی بار مسکراہٹ دیکھنے کو ملی۔ ان بارہ دنوں میں ایران نے اسرائیل کو جس قدر شرمناک شکست سے دوچار کیا، اُس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا جیسے ملک کو اس جنگ میں مداخلت کرنا پڑی۔ تاہم، وہ محض ایک نمائشی کارروائی کرکے رہ گیا اور ایرانی جوابی وار کا کوئی جواب نہ دے سکا۔
یہ جنگ پیر کی شب ایک عارضی جنگ بندی پر رکی۔ وہ اسرائیل، جو ایران کے ہر حملے کے بعد فوری ردعمل دکھاتا تھا، صبح 6 بجے سے 7:30 بجے تک ایران کی مسلسل میزائل بارش کے باوجود کوئی حرکت نہ کرسکا۔ ایران اپنی ایٹمی پالیسی سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا، بلکہ 400 کلو یورینیم اور سینکڑوں سینٹری فیوجز کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا۔ ایران نے آخری لمحے تک میزائل داغے اور یہ ثابت کیا کہ یہ کوئی وقتی ردعمل نہیں، بلکہ ایک مکمل، ہمہ گیر اور باقاعدہ جنگ تھی، جو دو ایٹمی ریاستوں کی جانب سے ایران پر مسلط کی گئی تھی، مگر ایران نے بارہ روزہ مزاحمت کے بعد دشمن کو جھکنے پر مجبور کر دیا۔
اس جنگ کے اثرات بے حد گہرے اور دور رس ثابت ہوئے
اسلامی جمہوریہ ایران، اس کی قیادت اور مسلح افواج یہاں تک کہ سخت ترین مخالفین کے دلوں میں بھی محبوب بن گئی۔ پوری ایرانی قوم متحد ہوگئی، حتیٰ کہ وہ افراد جو گزشتہ برسوں میں حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہوتے تھے، اس بار ایرانی حکومت اور فوجی قیادت کے شانہ بشانہ نظر آئے۔ وہ لوگ جو کل تک ’’نہ غزہ، نہ لبنان‘‘ کے نعرے لگاتے تھے، اب اسرائیل کے خلاف ایرانی موقف اور فلسطینی و لبنانی مزاحمتی تنظیموں کی حمایت کے فوائد کے معترف ہوگئے۔ ایرانی عوام نے رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت میں دفاعی ٹیکنالوجی، ایٹمی توانائی اور عزتِ ملی کے تحفظ پر اُن کے غیر متزلزل مؤقف کو بخوبی درک کیا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق، نوے فیصد ایرانی عوام میزائل پروگرام کی توسیع، ایٹمی طاقت بننے، یہاں تک کہ ایٹم بم بنانے کی بھی حمایت کرتے نظر آئے۔ پوری قوم اسرائیل کو سزا دینے کی حامی بن چکی ہے۔
مگر سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی
دشمن ضرور واپس آئے گا؛ کیونکہ اسے اپنے پائلٹوں کو آرام دینا ہے، طیاروں کی مرمت اور دفاعی نظام کی بحالی کرنی ہے۔ اب ایران کو چاہیئے کہ اگلے مرحلے کے لیے اپنے میزائل نظام کو مزید تقویت دے، غافلگیر حملوں سے نمٹنے کے لیے اندرونی سکیورٹی کو مستحکم کرے، نفوذی عناصر اور تخریب کاروں کے خلاف سنجیدہ اور ہمہ گیر منصوبہ بندی کرے، اسلامی ممالک کی غداری، خصوصاً ایران کی شمالی سرحدوں پر ممکنہ خطرات کے تدارک کے لیے فعال اقدامات کرے اور فضائی دفاع و ہوابازی کے میدان میں درپیش چیلنجز پر مؤثر قابو پائے۔ اگر آئندہ کوئی حملہ ہو تو ایران کو پہلے سے کہیں زیادہ تباہ کن اور عبرتناک ردعمل دینے کے لیے پوری طرح آمادہ ہونا چاہیئے۔
جو کچھ پیش آیا، وہ ایک عظیم فتح تھی۔ ایسی ہمہ جہت جنگ اور غافلگیری کے عالم میں شاید روس یا چین جیسے ممالک بھی زیادہ دیر نہ ٹھہر پاتے۔ مگر ملتِ ایران نے، اپنی مدبر، بابصیرت اور دوراندیش قیادت، آیت اللہ خامنہ ای کی رہبری میں، ایثار، استقلال اور بیداری کے ساتھ ایسا کارنامہ انجام دیا ہے، جسے تاریخ سنہری حروف سے یاد رکھے گی اور آخر ی نکتہ یہ ہے کہ: یہ جنگ کوئی جغرافیائی اختلافات پر مشتمل جنگ نہیں، بلکہ دو نظریات اور دو آڈیالوجیز کے درمیان ایک فیصلہ کن معرکہ ہے، جو اُس وقت تک جاری رہے گا، جب تک ان میں سے کوئی ایک اپنے نظریئے سے دستبردار نہ ہو۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ایران نے ایران کے ایران کی یہ ہے کہ کے خلاف یہ جنگ اور دو کر دیا کے لیے
پڑھیں:
کوئی نیلسن منڈیلا نہیں
حکمرانوں کی سیاسی مخالفین سے غیر منصفانہ اور متعصبانہ سلوک کی ایک سیاہ تاریخ ہے۔ صرف برصغیر ہندوستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بادشاہ اپنے مخالفین کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھتے تھے۔ بادشاہوں کے مخالفین کو ریاست کا ’’غدار‘‘ قرار دیا جاتا تھا ۔ مغل بادشاہ اپنے مخالفین کو سزائے موت دینا معمول کی کارروائی سمجھتے تھے یا کسی منحرف کی آنکھوں میں گرم سلائی پرو دینا اور برسوں زندان خانوں میں بھیج کر بھول جانا عام سی بات تھی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر ہندوستان میں اقتدار پر قبضہ کرنا شروع کیا۔ کمپنی کے افسران مخالفین کے ساتھ بدترین سلوک کرتے تھے، جب بہادر شاہ ظفر کی حکومت کو 1857ء کی جنگ آزادی میں شکست ہوئی تو انگریز فوج دلی میں داخل ہوئی تو انگریز افسروں نے سیکڑوں ہزاروں افراد کو بغاوت کے جرم میں سزائے موت دی۔
بادشاہ بہادر شاہ ظفرکو ایک تھال پیش کیا گیا، جس میں اس کے شہزادوں کے سر قلم کردیے گئے تھے ۔ کمپنی کی حکومت ختم ہوئی اور برطانوی ہند حکومت قائم ہوئی۔ لندن کی حکومت کے مقررکردہ گورنر جنرل نے ہندوستان کا نظام سنبھال لیا۔ گورنر جنرل کی حکومت نے تعزیراتِ ہند نافذ کیا۔گورنر جنرل کی حکومت نے آزادی ہند کا مطالبہ کرنے والے بہت سے افراد کو کالے پانی کی سزا دینا شروع کی۔
اس سزا کے تحت آزادی کا مطالبہ کرنے والے حریت پسندوں اور ہندوستان سے جلاوطن کرکے جزائر انڈومان اور بینکو بار بھیج دیا جاتا تھا جہاں ان حریت پسندوں کو 15 سے 20 سال تک قید کی سزا دی جاتی تھی۔ جمعیت علمائے ہند اورکانگریس کے بہت سے رہنماؤں کو یہ سزا دی گئی۔ ان میں سے بہت سے افراد ان جزائر میں ہی شہید ہوجاتے تھے۔
انگریز حکومت نے گزشتہ صدی کے آغاز کے ساتھ منحرفین کے ساتھ کچھ نرم رویہ برتنا شروع کیا۔ اب کانگریس میں جمعیت علمائے ہند اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں کو خصوصی قوانین کے تحت کئی کئی سال کی سزائیں دی جانے لگیں۔ ان لوگوں پر حکومت کا تختہ الٹنے کے الزامات لگائے جاتے۔ اسپیشل کورٹس انھیں 10 سے 20 سال تک سزائیں دیتی تھیں۔
جب 40ء کے عشرے میں کانگریس نے ’’ ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک شروع کی تو انگریز حکومت نے کانگریس کی ساری قیادت کو گرفتار کیا۔ ان تمام رہنماؤں کو کئی کئی سال قید میں رکھا گیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد، پنڈت نہرو اور مہاتما گاندھی اور دیگر رہنماؤں کو احمد نگر قلعہ میں 4 برس تک نظربند رکھا گیا۔ اس دوران ابو الکلام آزاد جب جیل سے رہا ہوئے تو خطوط کا ایک پلندہ ان کے حوالے کیا گیا۔ اس پلندے میں کئی خطوط ان کی اہلیہ کی شدید بیماری اور ایک خط ان کے انتقال کے بارے میں تھا۔
ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور نیا ملک پاکستان اس اعلان کے ساتھ وجود میں آیا کہ جو سیاہ قوانین برطانوی ہند حکومت میں نافذ تھے، وہی قوانین آزادی کے بعد بھی نافذ ہونگے۔ مسلم لیگ کی پہلی حکومت میں حکومت کی مخالفت کرنے والے رہنماؤں کو ریاست مخالف اور غدار قرار دیا جانے لگا۔ کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر اور معروف دانشور سید سبط حسن وغیرہ اور دیگر لوگوں کے پاکستان آنے سے پہلے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے۔
اس کے ساتھ ہی مشرقی پاکستان، بلوچستان اور پختونخوا(اس وقت کے صوبہ سرحد) کے قوم پرست جنھوں نے ساری زندگی انگریز حکومت کے خاتمے کی جدوجہد کی تھی، انھیں سیکیورٹی اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتارکیا گیا۔ نام نہاد راولپنڈی سازش کیس میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر، معروف شاعر فیض احمد فیض اور دیگر رہنماؤں کو گرفتار کرنے کا مقدمہ چلایا گیا۔ مگر معاملہ صرف کمیونسٹ پارٹی تک محدود نہ رہا۔ جماعت اسلامی کے رہنماء مولانا مودودی اور ان کے تمام رفقاء کو بھی گرفتار کیا گیا، پھر جنرل ایوب خان ملک کی قسمت کے مالک بن گئے۔
ایوب خان کی حکومت نے اپنے مخالفین کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جو انگریز حکومت نے کیا تھا۔ ایوب خان کے 10 سالہ دور میں نیشنل عوامی پارٹی، عوامی لیگ، نیشنلسٹ پارٹی، کمیونسٹ پارٹی، جماعت ا سلامی اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کو طویل عرصے نظربند رکھا گیا۔
کمیونسٹ پارٹی کے رہنماء حسن ناصر پہلے سیاسی کارکن ہیں جنھیں پاکستان بننے کے بعد لاہور کے شاہی قلعے میں شہید کیا گیا۔ نیشنل پارٹی بلوچستان کے رہنماؤں غوث بخش بزنجو اور عطاء اﷲ مینگل وغیرہ کو خصوصی عدالتوں سے طویل مدت کی سزائیں دی گئیں اور جیلوں میں سیاسی قیدیوں کو کوڑے بھی مارے گئے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں پیپلز پارٹی کے بعض رہنماؤں اور کارکنوں کو غیر سول عدالتوں نے سزائیں دیں۔ اس دور میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے رہنما اور کارکن اور مزدور رہنما بھی پابند سلاسل ہوئے۔
جب 1970 کے عام انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اکثریتی جماعت عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کیا اور عوامی لیگ کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تو فوجی عدالتوں میں روزانہ سیکڑوں سیاسی کارکنوں کو سزائیں سنائی گئیں۔ عوامی لیگ کے شیخ مجیب میانوالی جیل میں نظربند رہے۔
پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں سیاسی مخالفین کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا رہا۔ حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی کو غدار قرار دے کر پابندی عائد کردی۔ کالعدم نیشنل عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کے بعض منحرفین کے خلاف حیدرآباد سازش کیس کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ ابھی یہ مقدمہ نامکمل تھا کہ سربراہ مملکت جنرل ضیاء الحق نے یہ مقدمہ واپس لے لیا۔
جنرل ضیاء الحق کا دور سیاسی منحرفین کے لیے عبرت ناک دور تھا۔ حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے پر پیپلز پارٹی اور بائیں بازوکی جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں کو غیر سول عدالتوں نے سزائیں دیں۔ ان سزاؤں میں کوڑے مارنا بھی شامل تھے اورکچھ کو پھانسیاں بھی دی گئیں۔
پیپلز پارٹی بائیں بازوؤں کے کارکنوں کے علاوہ صحافیوں، ادیبوں، خواتین کو لاہور کے شاہی قلعے میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کو متنازع مقدمے میں سزائے موت دی گئی۔ محمد خان جونیجو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں سیاسی مخالفین کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت کے دونوں ادوار میں صدر آصف زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے کئی رہنما پابند سلاسل رہے۔ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوسرے دور میں میاں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف کو گرفتار کیا گیا۔ مسلم لیگ کے کئی رہنما حراست میں رکھے گئے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں میاں نواز شریف اور دیگر مسلم لیگی رہنما مسلسل جیلوں میں بند رہے۔ بلوچستان کے سابق گورنر اکبر بگٹی کے قتل اور لاپتہ افراد کا مسئلہ شروع ہوا۔ بلوچ کارکنوں اور پختون کارکنوں کے علاوہ سندھی قوم پرست، ایم کیو ایم اور مذہبی گروپوں کے مختلف افراد لاپتہ ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی چوتھی حکومت میں بھی بلوچ اور پختون کارکنوں کے علاوہ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں کو مسلسل جیلوں میں بند رکھا گیا۔
میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی کو اڈیالہ جیل میں قید کیا گیا، میاں صاحب کی اہلیہ کلثوم نواز زندگی اور موت کی کشمکش میں لندن میں مبتلا تھیں۔ میاں صاحب ان کی خیریت معلوم کرنا چاہتے تھے مگر جیل سپرنٹنڈنٹ نے اجازت نہیں دی تاہم چند گھنٹوں بعد ان کی اہلیہ کی موت کی خبر ضرور سنائی۔ حکومتی بیانیے سے انحراف کرنے والے صحافیوں کے لیے مسائل پیدا کیے جا رہے ہیں، موجودہ منتخب اراکین کو دس، دس سال سزائیں دی جا رہی ہیں، سزا پانے والوں میں کینسر میں مبتلا ایک خاتون ڈاکٹر بھی شامل ہیں۔
میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان میثاق جمہوری ’’Truth and Reconciliation Commission‘‘ کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں حزب اختلاف کی جماعتوں کی کانفرنس میں پھر اس کمیشن کا ذکر ہوا، مگر ملک میں کوئی نیلسن منڈیلا پیدا نہیں ہوا، جو ایسا کمیشن بنا سکے، یوں نظر آتا ہے کہ ہر حکومت کے دور میں منحرفین کے خلاف جبر و تشدد کی روایت برقرار رہے گی۔