اسرائیل کی غزہ میں دہشت گردی بڑھ گئی، امداد کے متلاشی 80 فلسطینی شہید
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
خان یونس: اسرائیل کی ایران سے جنگ بند ہونے کے بعد غزہ میں دہشت گردی میں اضافہ ہو گیا، امداد کے منتظر 80 سے زیادہ فلسطینی شہید کر دیے۔
قطری نشریاتی ادارے کے مطابق اسرائیل کی جانب سے غزہ میں بمباری اور فائرنگ کے واقعات میں 400 سے زیادہ فلسطینی زخمی ہو گئے جبکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں صیہونی قبضہ گیروں نے جائیدادیں ہتھیانے کے لیے 4 نہتے فلسطینیوں کو قتل کر دیا۔
اسرائیلی افواج نے ایک مرتبہ پھر امداد کے متلاشی فلسطینیوں کو نشانہ بنایا، عینی شاہدین اور بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق امدادی مراکز اب اسرائیلی فوج کی فائرنگ کا معمول بن چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 400 سے زائد فلسطینی صرف امدادی مراکز پر حملوں کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں جبکہ غزہ حکام کے مطابق اسرائیل کی جانب سے امدادی مراکز پر 500 سے زائد فلسطینی شہید کیے گئے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق صبح وسطی غزہ میں امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی افواج کی فائرنگ سے شہادتیں ہوئیں۔
اقوام متحدہ نے جنگ زدہ غزہ میں اسرائیل کی طرف سے خوراک کی تقسیم کو ایک جنگی حکمت عملی کے طور پر اختیار کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل خوراک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ غزہ میں خوراک لینے والوں کے قتل کے یہ واقعات امریکہ و اسرائیل کے حمایت یافتہ امدادی ادارے غزہ فاؤنڈیشن کے مرکز کے قریب ہو رہے ہیں، جب سے غزہ فاؤنڈیشن فلسطینیوں میں خوراک تقسیم کر رہی ہے، یہ خوراک فلسطینیوں کے لیے بہت مہلک اور جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ نے شروع سے ہی غزہ فاؤنڈیشن اور امریکہ و اسرائیل کے اس تقسیم خوراک کے منصوبے کو متنازعہ قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ امدادی تنظیم کے مرکز کے باہر بھوک زدہ فلسطینی رات کے وقت ہی جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں تاکہ خوراک لینے میں کامیاب ہو سکیں اور ان کی باری آنے تک خوراک ختم نہ ہوجائے تاہم اکثر انہیں خوراک کی جگہ موت دے دی جاتی ہے۔
فرانسیسی نشریاتی ادارے نے جب امدادی مرکز کے باہر گولہ باری سے ہلاکتوں کے بارے میں اسرائیلی فوج سے رابطہ کیا تو اسرائیلی فوج نے کہا کہ ہم اس واقعے سے متعلق خبروں کو دیکھ رہے ہیں۔
اب تک غزہ میں اسرائیلی فوج مجموعی طور 56077 فلسطینیوں کو قتل کر چکی ہے جن میں بڑی تعداد فلسطینی عورتوں اور بچوں کی ہے، اسرائیل نواز مغربی میڈیا بھی یہ تسلیم کر رہا ہے کہ ان میں 18 ہزار سے زیادہ بچے جبکہ 28 ہزار سے زیادہ خواتین ہیں۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج اسرائیل کی امداد کے سے زیادہ کے مطابق
پڑھیں:
افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے: دفتر خارجہ
پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔ترجمان دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور برادر ممالک ترکیہ اور قطر کی میزبانی میں 7 نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا، پاکستان، دہشت گردی کے بنیادی مسئلے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں کو سراہتا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران، جب سے طالبان حکومت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، پاکستان نے ان سالوں میں بے پناہ جانی نقصان اٹھانے کے باوجود حد درجہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا۔ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان کو توقع تھی کہ وقت کے ساتھ طالبان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گرد حملوں پر قابو پائے گی اور ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور دیگر عناصر کے خلاف عملی اقدامات کرے گی۔پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تجارتی، انسانی ہمدردی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں تعاون کی راہیں کھولنے کی کوشش کی، مگر اس کے جواب میں افغان حکومت کی جانب سے صرف وعدے اور غیر سنجیدہ بیانات ملے۔افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا طالبان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، لیکن اس حوالے سے وہ عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات سے گریزاں ہیں اور غیر متعلقہ موضوعات اٹھا کر اصل مسئلہ دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ اکتوبر 2025 میں پاکستان کا ردعمل اس عزم اور ارادے کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار پاکستان اور اس کے عوام کے کھلے دشمن ہیں اور جو کوئی بھی ان کی پناہ، مدد یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان کا خیرخواہ نہیں۔پاکستان امن اور سفارت کاری کا حامی ہے اور طاقت کا استعمال ہمیشہ آخری آپشن سمجھتا ہے، ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ تجاویز پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے امن مذاکرات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔دوحہ میں پہلے دور کے دوران فریقین کے درمیان بعض اصولی نکات پر اتفاق ہوا اور عارضی فائر بندی پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئی، استنبول میں دوسرے دور میں ان نکات پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات ہونا تھی، لیکن طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ ‘تیسرے دور میں بھی پاکستان نے مثبت اور تعمیری رویہ اپنایا اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے مؤثر نگرانی کے نظام پر زور دیا، لیکن افغان وفد نے غیر متعلقہ الزامات اور دعووں کے ذریعے بات چیت کو بے نتیجہ بنایا۔انہوں نے ک مذاکرات کے دوران یہ بات واضح رہی کہ طالبان حکومت صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی ہے، جبکہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار کے خلاف کوئی ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔طالبان حکومت دہشت گردوں کو مہاجرین کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ یہ انسانی مسئلہ نہیں بلکہ دہشت گردی کی حمایت کا معاملہ ہے۔پاکستان کسی بھی پاکستانی شہری کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ انہیں طورخم یا چمن بارڈر پر باقاعدہ طریقے سے حوالہ کیا جائے، نہ کہ اسلحہ و ساز و سامان کے ساتھ غیر قانونی طور پر بھیجا جائے۔ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان کسی دہشت گرد گروہ سے بات چیت نہیں کرے گا، خواہ وہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند ہو یا بی ایل اے / فتنۃ الاحرار، طالبان حکومت کے اندر ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو پاکستان سے تصادم نہیں چاہتے، مگر بیرونی مالی معاونت یافتہ ایک لابی تعلقات خراب کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔بیان کے مطابق پاکستان کے عوام اور افواج دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں.پاکستان کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان پاکستانی عوام نے اٹھایا ہے، پاکستان اپنے اندرونی مسائل سے آگاہ اور ان کے حل کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے بارہا طالبان حکومت سے کہا ہے کہ پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت ترک کرے، اگست 2021 کے بعد سے افغانستان سے دہشت گردی میں واضح اضافہ ہوا ہے جسے طالبان حکومت نہ جھٹلا سکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داری سے بری ہو سکتی ہے۔ طالبان حکومت کی جانب سے پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوششیں بھی قابلِ مذمت ہیں. حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پشتون عوام ریاست اور معاشرے کا متحرک حصہ ہیں، جو سیاست، بیوروکریسی اور قومی اداروں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔پاکستان باہمی اختلافات کے حل کے لیے مذاکرات کا حامی ہے. تاہم دہشت گردی کا مسئلہ اولین ترجیح کے طور پر حل ہونا چاہیے.پاکستان کی مسلح افواج اور عوام مل کر اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔