صیہونی رژیم اور شیطان بزرگ امریکہ کیخلاف اسلامی جمہوریہ ایران کی شاندار فتح پر سکردو میں جشن منایا گیا۔ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے "جشن فتح مبین" کے عنوان سے یادگار شہداء چوک پر جشن کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں عوام کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
سکردو میں امریکہ و اسرائیل پر ایران کی عظیم فتح کا جشن
اسلام ٹائمز۔ صیہونی رژیم اور شیطان بزرگ امریکہ کیخلاف اسلامی جمہوریہ ایران کی شاندار فتح پر سکردو میں جشن منایا گیا۔ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے "جشن فتح مبین" کے عنوان سے یادگار شہداء چوک پر جشن کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں عوام کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔ جشن کے شرکاء نے رہبر معظم کی بصیرت و استقامت کو خراج تحسین پیش کیا جبکہ ایرانی فوج، سپاہ پاسداران اور ایرانی عوام کی مزاحمت کو بھی سلام پیش کیا گیا۔ اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ ایران نے تنہا کل کفر کا مقابلہ جواں مردی سے کیا اور صہیونی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ گلگت بلتستان کے عوام رہبر معظم سید علی خامنہ ای، سپاہ پاسداران انقلاب، ایرانی فوج و عوام کو اس شاندار فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ ایران، اسرائیل اور عالمی طاقتوں کی جنگ کا نیا مرحلہ
اسلام ٹائمز: یہ بات طے ہے کہ یہ محض ایک وقتی تصادم نہیں بلکہ ایک طویل، گہری اور تہہ دار جنگ ہے، جو کئی دہائیوں سے پراکسیز کی صورت میں جاری تھی اور اب براہِ راست میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے اثرات صرف اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سیاسی و اقتصادی نقشے کو بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ جنگ اُس وقت تک نہیں رُکے گی، جب تک اسرائیل کا مکمل خاتمہ اور امریکہ کی مصنوعی برتری دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہو جائے۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)
دنیا کی تاریخ میں کچھ جنگیں ایسی ہوتی ہیں جو صرف بارود کے دھوئیں میں نہیں لکھی جاتیں بلکہ قوموں کے عزم، نظریات، عقیدے اور استقلال کے لہو سے رقم ہوتی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور عراق کے درمیان 1980ء میں شروع ہونے والی جنگ بھی ایسی ہی ایک جنگ تھی۔ اس جنگ میں صدام حسین نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی سے ایران پر جنگ مسلط کی۔ مہلک کیمیکل ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایران کے بے شمار نڈر، فدائی اور مخلص جوان شہید ہوئے۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ ایران، باوجود عالمی طاقتوں کے گٹھ جوڑ کے، نہ جھکا، نہ ٹوٹا، نہ بکا۔ ایران کی قوم نے اپنے نومولود انقلاب کے آغاز ہی میں جس دلیری، شعور، اور ایمانی طاقت کا مظاہرہ کیا، وہ ایک زندہ معجزہ ہے۔ آج 46 سال بعد، یہ انقلاب صرف ایران کے گلی کوچوں میں ہی نہیں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں اپنے اثرات مرتب کر چکا ہے۔ جس نظام کو عالمی سامراج "موقّت خروش" سمجھ رہا تھا، وہ آج ایک تناور درخت بن چکا ہے اور دشمن یہ مان چکا ہے کہ اسے جڑ سے اکھاڑنا اب اس کے بس میں نہیں۔
اب آتے ہیں حالیہ جنگی منظرنامے کی طرف۔ ایران اور اسرائیل کے مابین جو تصادم اس وقت جاری ہے، وہ درحقیقت دہائیوں کی پراکسی جنگوں کا براہ راست رخ اختیار کر چکا ہے۔ یہ لڑائی نہ تو اچانک شروع ہوئی ہے، نہ ہی کسی محدود دائرے تک محدود ہے۔ حزب اللہ لبنان کی قیادت کا قتل، اسماعیل ہانیہ کے خاندان پر حملہ، شام میں رجیم چینج اور ایران کو تنہا کرنے کی منظم کوششیں۔ یہ سب اس طویل منصوبے کا حصہ تھیں جسے امریکہ، یورپ، اسرائیل، اور ہندوستان نے مل کر ترتیب دیا۔ ان طاقتوں نے نہ صرف ایران کے خلاف اندرونی غداروں کو استعمال کیا بلکہ جاسوسی نیٹ ورک، ڈرون بیسز اور حساس اہداف کو نشانہ بنانے جیسی خطرناک سازشیں بھی تیار کیں لیکن ایران نے کمال مہارت، سیاسی بصیرت اور انٹیلیجنس برتری سے ان تمام سازشوں کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ 24 گھنٹوں کے اندر اپنی دفاعی پوزیشن کو بحال کر کے اسرائیل کو کرارا جواب دیا۔
جب امریکہ نے دیکھا کہ اسرائیل میدانِ جنگ میں ہانپ رہا ہے تو خود براہِ راست کود پڑا۔ مگر ایران نے نہ صرف اس حملے کا بھی بھرپور جواب دیا بلکہ امریکہ کو یہ باور کرا دیا کہ اب "دھمکی" کا دور گزر چکا ہے۔ یہ "ردِ عمل" کا دور ہے۔ فی الحال اگرچہ ایک عارضی جنگ بندی نافذ ہے لیکن زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ ایران اس وقت دفاعی و تزویراتی لحاظ سے مکمل برتری رکھتا ہے۔ امریکہ، اسرائیل، یورپ اور ہندوستان اپنے تمام تر وسائل کے باوجود مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران واقعی اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دے گا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ ایران کی اولین ترجیحات میں اسرائیل کی مکمل نابودی شامل ہے۔ ایران اسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سامراج کا غاصب اڈہ سمجھتا ہے۔ ایک ناجائز وجود جو ظلم، دہشت اور استعماری مفادات کا محافظ ہے۔ تاہم، ایران اس عظیم ہدف کے حصول کے لیے درست وقت، بین الاقوامی حالات اور علاقائی توازن کا گہری نظر سے جائزہ لے رہا ہے۔
ممکن ہے، جب وقت موافق ہوا، تو ایران یہ مقصد بھی حاصل کر گزرے اور دنیا ایک نئے مشرقِ وسطیٰ کو دیکھے۔ جہاں تک اس جنگ کی مدت کا تعلق ہے، تو یہ بات طے ہے کہ یہ محض ایک وقتی تصادم نہیں بلکہ ایک طویل، گہری اور تہہ دار جنگ ہے، جو کئی دہائیوں سے پراکسیز کی صورت میں جاری تھی اور اب براہِ راست میدانِ جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے اثرات صرف اسرائیل یا ایران تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ عالمی سیاسی و اقتصادی نقشے کو بھی بدل سکتے ہیں۔ یہ جنگ اُس وقت تک نہیں رُکے گی، جب تک اسرائیل کا مکمل خاتمہ اور امریکہ کی مصنوعی برتری دنیا کے سامنے بے نقاب نہ ہو جائے۔ سوال صرف یہ ہے کہ یہ انجام کب اور کیسے ہوگا اور دنیا کا ضمیر کس طرف کھڑا ہوگا؟