نیتن یاہو اور امریکا کے درمیان 2 پفتوں میں غزہ جنگ کے خاتمے پر اتفاق ہوگیا ہے، اسرائیلی اخبار کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا کے ایران پر حملے کے بعد، اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی جنگ کے جلد خاتمے اور ابراہم معاہدے کے توسیع پر اتفاق کیا ہے۔
دی ٹائمز آف اسرائیل نے ‘اسرائیل ہیوم’ کے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ دونوں رہنماؤں نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جنگ 2 ہفتوں کے اندر ختم ہو جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے: اقوام متحدہ کی رپورٹ 2024: دنیا بھر میں بچوں کے خلاف جرائم میں اسرائیل کا پہلا نمبر
رپورٹ کے مطابق اس معاہدے کے تحت حماس رہنماؤں کو جلاوطن کرکے 4 عرب ممالک، جن میں متحدہ عرب امارات اور مصر شامل ہیں، غزہ پٹی کا انتظام مشترکہ طور پر سنبھالیں گے اور تمام یرغمالی افراد کو رہا کیا جائے گا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی اور امریکی رہنماؤں کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور اسرائیلی اسٹریٹجک امور کے وزیر رون ڈیرمر بھی اس گفتگو میں شامل تھے۔ گفتگو میں فیصلہ کیا گیا کہ غزہ سے نقل مکانی کے خواہشمند افراد کو دوسرے ممالک میں جگہ دی جائے گی تاہم ان ممالک کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اور شام اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کریں گے اور دیگر عرب اور مسلمان ممالک بھی تعلقات بحال کریں گے۔ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کی شرط پر مستقبل کے دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرے گا۔
دوسری طرف واشنگٹن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
اسرائیل کے اقدامات نسل کشی کے مترادف، عالمی کمیشن کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: اقوام متحدہ کی آزاد بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری برائے مقبوضہ فلسطین اور اسرائیل نے اپنی نئی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ کرنے اور مقبوضہ مغربی کنارے سمیت اسرائیل کے اندر یہودی اکثریت کو یقینی بنانے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیاکہ اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیلی پالیسیوں میں ایک واضح اور مسلسل رجحان سامنے آیا ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کرنا، یہودی آبادیوں کو وسعت دینا اور بالآخر مغربی کنارے کا مکمل الحاق کرنا ہے تاکہ فلسطینی ریاست کے قیام کو ہمیشہ کے لیے روکا جا سکے۔
کمیشن کی سربراہ نوی پیلائی نے کہا کہ انہیں اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل سموتریچ کے اس اعلان پر شدید تشویش ہے جس میں انہوں نے مغربی کنارے کے 82 فیصد حصے کے الحاق کا منصوبہ پیش کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کے اس بیان کے بعد کہ “یہ اقدامات فلسطینی ریاست کو روکنے کے لیے ہیں”، اب اسرائیلی قیادت کھلے عام اپنے ارادوں کا اعتراف کر رہی ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ جنین، طولکرم اور نور شمس کے مہاجر کیمپوں میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں مکانات تباہ کیے گئے، رہائشی بے گھر ہوئے اور یہ سب اجتماعی سزا کے مترادف تھا۔ اسی طرح غزہ میں اسرائیل نے بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچہ تباہ کیا اور بفر زون کے نام پر علاقے پر 75 فیصد کنٹرول حاصل کرلیا، جس سے فلسطینیوں کی بقا اور خود ارادیت بری طرح متاثر ہوئی۔
کمیشن نے یہ بھی واضح کیا کہ اسرائیلی اقدامات، جن میں زمین پر قبضہ اور وسائل کی ضبطی شامل ہے، نہ صرف فلسطینیوں کی زندگی اجیرن بنا رہے ہیں بلکہ ان پر نسل کشی جیسے حالات مسلط کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں وزیر اعظم نیتن یاہو، موجودہ و سابق وزرائے دفاع، وزیر خزانہ اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو ان جرائم کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ 28 اکتوبر کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس میں پیش کی جائے گی۔
رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اسرائیل کے اندر فلسطینی شہریوں کو محدود رکھنے اور ان کے انضمام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے مسلسل قوانین اور پالیسیاں نافذ کی جا رہی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل تمام زیر قبضہ علاقوں میں یہودی اکثریت قائم رکھنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے کمیشن نے اپنی ایک اور رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی چار میں سے پانچ کارروائیاں انجام دی ہیں جنہیں اقوام متحدہ کے 1948 کے کنونشن میں نسل کشی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
واضح ر ہے کہ غزہ میں امداد کے نام پر امریکا اور اسرائیل دہشت گردی کر رہے ہیں جبکہ عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی فلسطینی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔