گلگت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے کہ سولہ ارب کا منصوبہ 55 ارب میں چلا جائے، جی بی کی تاریخ میں اتنا بڑا سکینڈل پہلے کبھی سامنے نہیں آیا۔ ان کی پلاننگ تھی کہ پچاس، پچاس کروڑ روپے آپس میں بانٹ دیئے جائیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان و نون لیگ کے صوبائی صدر حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ جمیل احمد نے میرے نام سے منسوب جس خط کو اسمبلی میں پیش کیا اگر وہ درست ہے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا، ورنہ میرے نام سے جعلی لیٹر پر انہیں سیاست چھوڑنی ہو گی۔ غؤاڑی پراجیکٹ کا ٹینڈر گلگت بلتستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سکینڈل ہے جس میں 16 ارب کے منصوبے کو 55 ارب روپے تک پہنچا دیا گیا۔ گلگت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حفیظ الرحمن نے کہا کہ مجھ پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ میں نے لیٹر لکھ کر غواڑی اور تھک پاور پراجیکٹ کو ختم کروایا، میں اس پراجیکٹ کے حوالے سے جو بھی لیٹر لکھا اس کو پریس کانفرنس کر کے پبلک کروایا تھا، ہم نے اس منصوبے میں میگاکرپشن کیخلاف آواز اٹھائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ غواڑی منصوبہ نواز شریف دور کا منصوبہ تھا، جس کا پی سی ون بن گیا تھا، فزیبلٹی بنی ہوئی تھی،اس وقت اس منصوبے کا تخمینہ 16 ارب 32 کروڑ روے تھا، اسی دوران حکومت تبدیل ہوئی اور عمران خان کی حکومت آگئی۔ بعد میں میری اور عمران خان کی تلخی ہوئی تو عمران خان نے ہمارے 8 پی ایس ڈی پی کے منصوبے نکلوا دیئے۔ بعد میں موجودہ آرمی چیف جو اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے نے ہم دونوں کے درمیان صلح کرائی جس کے نتیجے میں وہ 8 منصوبے بحال ہوئے، ان میں سے ایک غواڑی بھی تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اس وقت 16 ارب کا منصوبہ تھا۔ دو سال تک اس منصوبے کو لٹکا کر رکھا گیا، ٹینڈر ہی نہ ہونے دیا۔ بعد میں کشمیر افیئرز میں ٹینڈر ہوا، سارے کنٹریکٹرز کو نااہل کر دیا گیا اور صرف ایک ہی کمپنی کو کوالیفائی کیا گیا، جس کیخلاف دیگر کنٹریکٹرز نے جی آر سی میں چیلنج کیا۔ انہوں نے کہا کہ یاور عباس نے جی آر سی کی، یاور عباس کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی انہوں نے کبھی ہمیں ووٹ دیا، ان کا پورا خاندان پی پی کو ووٹ دیتا آیا ہے۔ یہ اتنا بڑا بلینڈر تھا کہ یاور عباس نے کریمنل انکوائری کیلئے لکھا۔ اس کے بعد یہ لوگ یاور عباس کے فیصلے کیخلاف پی آر سی میں گئے وہاں سے بھی دوبارہ ٹینڈر کا فیصلہ آیا۔ جب یہ لوگ دونوں فورم سے ہار گئے تو چیف کورٹ گئے، معزز عدالت نے ایک فیصلہ دیا، فیصلہ جو بھی دیا ہم نے اس پر کمنٹس کیا جس پر آج بھی ہم قائم ہیں۔ چیف کورٹ کے فیصلے کے بعد صوبائی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ دو ماہ کے اندر اپیلیٹ کورٹ میں اپیل دائر کرتے  کیونکہ قانون یہ ہے کہ اگر ایک روپے کا بھی حکومت کیخلاف فیصلہ آئے تو وہ ہر صورت اپیلیٹ فورم تک جائیں، لیکن صوبائی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی، ہم نے چیف سیکرٹری، سیکرٹری قانون سمیت تمام ذم داروں سے مطالبہ کیا کہ سپریم اپیلیٹ کورٹ جائیں لیکن یہ سب ملے ہوئے تھے، پورا سسٹم ملا ہوا تھا، کروڑوں کی ڈیل تھی، موجودہ وزیر اعلیٰ آئیں اور حلف لیں کہ کتنے کروڑ میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ آپ اپیل میں نہیں جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ چیف سیکرٹری نے وفاق کو بتا دیا کہ حکومت نے اپیل سے روکا تھا، انہوں نے کہا کہ اب کمال دیکھیں کہ بعد میں وہ پراجیکٹ کھولا گیا، مقابلے میں کوئی نہیں ہے اور عدالت کا فیصلہ بھی ہے تو انہوں نے 16 ارب کے پراجیکٹ کو 55 ارب روپے کر دیا۔ کیا پاکستان میں ایسا ممکن ہے کہ سولہ ارب کا منصوبہ 55 ارب میں چلا جائے، جی بی کی تاریخ میں اتنا بڑا سکینڈل پہلے کبھی سامنے نہیں آیا۔ ان کی پلاننگ تھی کہ پچاس، پچاس کروڑ روپے آپس میں بانٹ دیئے جائیں۔ اس کرپشن پر ہم نے آواز اٹھائی تھی۔ لیکن اسمبلی میں جمیل احمد نے جس لیٹر کو میرے نام سے منسوب کر کے پیش کیا ہے اگر وہ درست ثابت ہوا تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ انہوں نے اسمبلی میں اتنا بڑا جھوٹ بولا جس کیخلاف اگر ہم عدالت گئے تو صادق اور امین کے تحت وہ پھر سے نااہل ہو جائیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ بڑا سکینڈل کا منصوبہ یاور عباس کی تاریخ اتنا بڑا تھا کہ

پڑھیں:

افسوس دستورکوشخصیات کےتابع کیاجارہا ہے،کامران مرتضیٰ

اسلام آباد: جمعیت علماءاسلام پاکستان کے مرکزی رہنما اور سینیٹر کامران مرتضیٰ نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن بلاشبہ تاریخی ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ دن منفی معنوں میں تاریخ کا حصہ بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ میں کچھ دن فخر اور کامیابی کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں، اور کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جنہیں یاد کر کے قوم کو افسوس ہوتا ہے۔

آج کا دن بھی ان ہی دکھ اور تکلیف والے دنوں میں شمار ہوگا۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ امریکاکی تین سو سالہ تاریخ میں صرف پچیس ترامیم ہوئیں، لیکن پاکستان میں محض تیرہ مہینے کے دوران دوسری آئینی ترمیم پیش کی جا رہی ہے۔

چھبیسویں ترمیم طویل سیاسی گفت و شنید، مشاورت اور اتفاقِ رائے کے بعد منظور کی گئی تھی۔اس عمل میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماءاسلام سب شریک تھے۔مگر آج ہم صرف تیرہ مہینے بعد اسی ترمیم کو ریورس کرنے جا رہے ہیں، جو افسوسناک اور تشویشناک ہے۔

انہوں نے کہا کہ چھبیسویں ترمیم جمہوری ڈائیلاگ کا نتیجہ تھی، مگر ستائیسویں ترمیم اکثریت کے زور پر لائی جا رہی ہے۔ یہ طرزِ عمل سیاسی شرافت کے منافی ہے۔ جب ہم نے چھ ہفتوں کی مشاورت کے بعد اتفاقِ رائے سے ترمیم منظور کی، تو یقین تھا کہ یہ پائیدار پیش رفت ہے۔

لیکن آج ایک گھنٹے کی کارروائی میں وہ تمام محنت اور اعتماد ختم کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی پاکستان اب اس سیاسی دھوکے کے بعد اپنے لائحہ عمل کا ازسرِ نو جائزہ لے گی۔

ہم پر جو وعدہ خلافی کی گئی ہے، اس کے بعد پارٹی فیصلہ کرے گی کہ کیا ہم اب بھی چھبیسویں ترمیم کو اون کر سکتے ہیں یا نہیں۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئین کو شخصیات کے لیے نہیں بلکہ نسلوں کے لیے بنایا جاتا ہے، مگر افسوس کہ آج دستور کو شخصیات کے تابع کیا جا رہا ہے۔یہ دن تاریخ میں ہمیشہ منفی حوالوں سے یاد رکھا جائے گا۔

کیونکہ آج جمہوری اقدار، آئینی شرافت اور باہمی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اس طرزِ عمل کے بعد 1973ءکے آئین کا جو کریڈٹ پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل تھا، وہ بھی اب برقرار نہیں رہا۔ آج کا یہ دن سیاسی و آئینی لحاظ سے قوم کے لیے دکھ بھرا دن ہے۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد، سابق وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن کی وفاقی وزیر شزا فاطمہ سے ملاقات
  • گلگت بلتستان کے اسکیئر محمد کریم نے چوتھی بار سرمائی اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرلیا
  • خطے کے وسائل اور اختیارات اسلام آباد منتقل ہونے نہیں دینگے، سائرہ ابراہیم
  • گلگت بلتستان کے نگران وزیراعلیٰ کا معاملہ، متحدہ اپوزیشن کا اہم اجلاس کل طلب
  • حکومت کی بدترین نااہلی کی وجہ سے عوام لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں، حفیظ الرحمن
  • گلگت بلتستان کے نگران وزیر اعلیٰ کا معاملہ، متحدہ اپوزیشن کا اہم اجلاس کل طلب
  • پاکستان کا بوسیدہ نظام عوامی دھکے کی مار ہے ،عنایت الرحمن
  • افسوس دستورکوشخصیات کےتابع کیاجارہا ہے،کامران مرتضیٰ
  • گلگت بلتستان میں انتخابی اتحاد کیلئے تمام جماعتوں سے رابطے میں ہیں، علامہ شبیر میثمی
  • گلگت بلتستان کے نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کیلئے 11 نومبر کو اسلام آباد میں اہم اجلاس طلب