سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن قریب، پی ٹی آئی کو مزید سیاسی جھٹکوں کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے حالیہ فیصلے کے بعد پارٹی کو ایک اور سنگین چیلنج درپیش ہے۔ پی ٹی آئی کے کئی ارکان اسمبلی کیخلاف 9؍ مئی کے واقعات سے متعلق درجنوں مقدمات میں فیصلے کی آخری تاریخ 8؍ اگست مقرر ہے۔ سپریم کورٹ نے 8؍ اپریل کو ٹرائل کورٹس کو ہدایت کی تھی کہ وہ 9؍ مئی سے متعلق تمام مقدمات 4؍ ماہ کے اندر نمٹائیں۔ اس ڈیڈ لائن میں اب صرف 40؍ دن باقی رہ گئے ہیں، اور پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ممکنہ سزائوں کی صورت میں پارٹی کے کئی ارکان اسمبلی نااہل ہو سکتے ہیں، جس سے پارٹی کی پارلیمانی موجودگی مزید کمزور ہوگی۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں 3؍ رکنی بینچ نے ہدایت جاری کی تھی اور وکلاء صفائی کے اس اعتراض کو مسترد کیا تھا کہ اتنے کم وقت میں مقدمات مکمل کرنا ممکن نہیں۔ عدالت نے ماضی کی چند مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشتگردی عدالتیں ہائی پروفائل مقدمات جلد نمٹانے کی مکمل استعداد رکھتی ہیں۔ سماعت کے دوران ایک وکیل نے بتایا کہ ان کا موکل 35؍ مختلف مقدمات کا سامنا کر رہا ہے، جو اس قانونی مشکلات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے جس میں پی ٹی آئی ارکان پھنسے ہیں۔ تاہم، عدالت نے اپنا موقف برقرار رکھا کہ سیاسی طور پر حساس مقدمات میں بروقت انصاف ضروری ہے۔27؍ جون کے فیصلے کے تحت مخصوص نشستوں سے محرومی نے پہلے ہی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کی حیثیت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔
انصار عباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی
پڑھیں:
حکومت کو آئینی ترمیم کیلئے سینیٹ میں 64 اور قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) حکومت کو آئینی ترمیم کی دو تہائی اکثریت سے منظوری کے لیے سینیٹ میں 64 جبکہ قومی اسمبلی میں 224 ووٹ درکار ہیں۔
سینیٹ
سینیٹ کے 96 رکنی ایوان میں حکمران اتحاد میں پیپلزپارٹی 26 ووٹوں کے ساتھ سرفہرست، مسلم لیگ ن 21 ووٹوں کے ساتھ دوسری بڑی حکومتی جماعت ہے، ایم کیو ایم اور اے این پی کے 3،3 ارکان موجود ہیں۔
نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ق اور 6 آزاد ارکان بھی حکومت کے ساتھ ہیں، حکمران اتحاد کو مجموعی طور پر 65 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
وینٹی لیٹر پر منتقل کی تردید، سینیٹرعرفان صدیقی کی صحت کے حوالے سے ان کے اہل خانہ کی وضاحت سامنے آ گئی
دوسری طرف تحریک انصاف کے 22، جے یو آئی کے 7، ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل کا ایک ایک سینیٹر اپوزیشن کا حصہ ہے، سینیٹ میں اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 31 بنتی ہے
قومی اسمبلی
قومی اسمبلی کا ایوان 336اراکین پر مشتمل ہے، 10 نشستیں خالی ہونے کے سبب ایوان میں اراکین کی تعداد 326 ہے، آئینی ترمیم کے لئے 224 اراکین کی حمایت درکار ہے۔
حکومتی اتحاد کو پیپلز پارٹی سمیت اس وقت 237 اراکین کی حمایت حاصل ہے، مسلم لیگ ن 125اراکین کے ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، پیپلز پارٹی کے 74 اراکین ہیں، ایم کیو ایم کے 22 ق لیگ کے 5،آئی پی پی کے 4اراکین ہیں۔
لاہور، ہربنس پورہ کے علاقے میں گھر میں سلنڈر دھماکے سے عمارت کی پہلی منزل منہدم، 3افراد جاں بحق
مسلم لیگ ضیاء، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن کے علاوہ 4آزاد اراکین کی حمایت بھی حاصل ہے، قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی تعداد 89 ہے، اپوزیشن بنچوں پر 75 آزاد اراکین ہیں۔
جے یو آئی ف کے 10 اراکین ہیں، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین، بی این پی مینگل اورپختونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن بھی اپوزیشن بنچوں پر موجود ہے۔