کیو ایس کی درجہ بندی میں 354 ویں نمبر پر آنے والی قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد—فائل فوٹو

جامعات کی درجہ بندی کرنے والے عالمی ادارے کیو ایس (QS) نے دنیا بھر کی جامعات کی درجہ بندی 2026ء جاری کر دی جس کے مطابق پاکستان کی ایک بھی جامعہ دنیا کی 350 بہترین جامعات میں جگہ بنانے میں ناکام رہی لیکن 2 وفاقی جامعات قائدِ اعظم یونیورسٹی 354 ویں نمبر پر اور نیشنل یونیورسٹی سائنس و ٹیکنالوجی (نسٹ) 371 ویں نمبر پر جگہ بنانے میں کامیاب رہی۔

ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ کراچی 1001 جامعات میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہے تاہم سندھ کی کوئی اور جامعہ 1500 جامعات میں بھی جگہ نہیں بنا سکی۔

دنیا کی 10 بہترین جامعات میں میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکا پہلے، امپیریل کالج لندن برطانیہ دوسرے، اسٹین فورڈ یونیورسٹی امریکا تیسرے، یونیورسٹی آف آکسفورڈ برطانیہ چوتھے، ہارورڈ یونیورسٹی امریکا پانچویں، کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ چھٹے، ای ٹی ایچ زیورچ ساتویں، نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور آٹھویں، یو سی ایل لندن نویں اور کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی امریکا دسویں نمبر پر رہیں۔

کیو ایس عالمی درجہ بندی 2026ء میں پاکستان کی 18 جامعات کو عالمی سطح کے 1500 اعلیٰ اداروں میں شامل کیا گیا ہے۔

قائدِاعظم یونیورسٹی پاکستان میں 354ویں پوزیشن کے ساتھ سرِ فہرست ہے، اس کے بعد نیشنل یونیورسٹی آف سائنس و ٹیکنالوجی (NUST) 371 ویں نمبر پر ہے۔

پنجاب یونیورسٹی 542 ویں نمبر پر، لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) 555ویں نمبر پر، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فیصل آباد 654ویں نمبر پر، کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد 664 ویں نمبر پر، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ایپلائڈ سائنز 721ویں نمبر پر، یو ای ٹی لاہور 801ویں نمبر پر، پشاور یونیورسٹی 901ویں نمبر پر، لاہور یونیورسٹی951 ویں نمبر پر، آغا خان یونیورسٹی اور جامعہ کراچی 1001 ویں نمبر پر، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی 1201ویں نمبر پر جبکہ اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور 1401 درجے پر رہی۔

جامعات کی درجہ بندی کرنے والے ادارے کیو ایس 2026ء کی جنوبی ایشیاء کی جامعات کی درجہ بندی رواں سال کے آخر یا آئندہ سال جنوری میں جاری کرے گا لیکن 2025ء کی جنوبی ایشیاء کی درجہ بندی میں جامعہ کراچی 58 ویں نمبر پر تھی جب کہ آغا خان یونیورسٹی کا نمبر 62 اور آئی بی اے کراچی کا درجہ 70 واں تھا۔

اقراء یونیورسٹی کا 110 واں، آئی بی اے سکھر کا 120 واں، این ای ڈی یونیورسٹی کا 131واں، ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا 140 واں، مہران انجینئرنگ یونیورسٹی جامشورو کا 168 واں، ضیاء الدین یونیورسٹی کا 240واں، سندھ یونیورسٹی جامشورو کا 263واں اور یونیورسٹی آف بلوچستان کا 278 واں نمبر تھا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: جامعات کی درجہ بندی یونیورسٹی ا ف یونیورسٹی کا ویں نمبر پر جامعات میں کیو ایس

پڑھیں:

پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟

میڈیا رپورٹس کے مطابق 6 نومبر سے شروع ہونے والے پاک افغان استنبول مذاکرات اُس وقت اختتام پذیر ہو گئے جب مذاکرات کے دوران افغان وفد کو کابل کی جانب سے نئی شرائط پر مشتمعل مذاکرات کا نیا ڈرافٹ موصول ہوا۔ جس پر پاکستانی مذاکرات کار اور دونوں ثالثی کرنے والے ممالک ششدر رہ گئے اور مذاکرات ناکامی سے دو چار ہوئے۔

Pakistan is thankful to brotherly countries of Turkiye and Qatar for mediation of talks; onus lies on Afghanistan to fulfill its long standing international/ regional and bilateral pledges, regarding control of terrorism in which so far they have failed.

Pakistan does not harbor…

— Attaullah Tarar (@TararAttaullah) November 7, 2025

لیکن گزشتہ مذاکرات کی طرح سے اِس بار آنے والے ڈیڈلاک کے بارے میں مذاکرات کی کسی نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی مذاکرات جاری رکھنے کے بارے میں بات کی گئی۔

پاکستان کا مؤقف

گزشتہ روز وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے ایک پیغام میں بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے لیے ہم برادر ممالک ترکئے اور قطر کے مشکور ہیں۔ اب یہ افغانستان کی ذمّے داری ہے کہ دہشتگردی پر قابو پانے کے ضِمن میں طویل عرصے سے التواء کا شکار اپنی علاقائی اور بین الاقوامی ذمّے داریاں پوری کرے جس میں وہ تاحال ناکام نظر آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دل میں افغان عوام کے لیے کوئی بُری نیّت نہیں لیکن پاکستان افغان طالبان رجیم کے کسی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرے گا جو افغان عوام اور ہمسایہ ممالک کے مفاد کے خلاف ہو۔ پاکستان اپنی خودمختاری اور اپنے عوام کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات اُٹھاتا رہے گا۔

طالبان کا ردِعمل

دوسری طرف افغان طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ  ’پاکستان کے مسلمان عوام افغان عوام کے بھائی ہیں، اسلامی امارت ان کے لیے خیر خواہی اور امن کی دعا کرتی ہے، اور اپنی ذمہ داریوں اور صلاحیتوں کی حد تک ان کے ساتھ تعاون کرتی رہے گی‘۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام

اِس بیان کا ایک مقصد تو افغان طالبان حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی خواہش کی صورت میں نظر آتا ہے تو دوسری طرف یہ کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے کے حوالے اپنی عدم صلاحیت کا اظہار کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ بعض افغان وزرا کُھلے عام پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور ایک اشتعال انگیز ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ممکنہ عسکری ردِعمل

پاکستان اور افغانستان کے درمیان بے نتیجہ مذاکرات کا منطقی نتیجہ ممکنہ طور یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان اپنی سکیورٹی کے لیے افغانستان میں دہشتگرد تنظیم ٹی ٹی پی کے ٹریننگ کیمپس کو نشانہ بنائے جو دونوں ممالک کے درمیان ایک بار پھر سے جنگی صورتحال کو جنم دے سکتا ہے۔

Clarification on the outcomes of the Istanbul meeting
The Islamic Emirate of Afghanistan once again thanks the Republic of Turkey and the State of Qatar — the two brotherly countries — for hosting and mediating the talks between Afghanistan and Pakistan in Istanbul.
8/1

— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) November 8, 2025

 6 نومبر کو مذاکرات سے کچھ پہلے ایسی صورتحال پیدا بھی جب دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ جبکہ 11/12 اکتوبر کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی اُس وقت عروج پر پہنچی جب افغانستان کی جانب سے پاکستان سرحد کے حملے شروع ہوئے جس کے جواب میں پاکستان نے افغانستان میں دہشتگردی کے مخصوص مقامات کو نشانہ بنایا۔

مذاکرات کا جاری رکھنا بہتر حل ہے، آصف درّانی

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درّانی نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات پر ڈیڈلاک کو حل کرنے کے حوالے سے سب سے بہتر حل یہ ہے کہ مذاکرات جاری رکھے جائیں چاہے مذاکرات کے 30 دور ہی کیوں نہ کرنے پڑیں۔

پاک افغان مذاکرات میں طے پانے والے نکات کا عکس

دوسری صورت میں دشمن اِس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھائے گا۔ تاریخ کا سبق ہے کہ ہمسایوں کے ساتھ مذاکرات سے کبھی بھی اِنکار نہیں کرنا چاہیے۔

ڈیڈلاک کب ختم ہوگا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا، طاہر خان

افغان اُمور کے حوالے سے معتبر تجزیہ نگار اور صحافی طاہر خان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات کے حوالے سے جو ڈیڈلاک پیدا ہوا ہے یہ کب تک ختم ہو گا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا مسوّدہ دونوں ثالث ممالک نے تیار کیا تھا جس کے بارے میں اُمید تھی کہ وہ کامیاب ہو جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:استنبول میں کل پھر پاک افغان مذاکرات: بات چیت ناکام ہوئی تو صورت حال خراب ہو سکتی ہے، خواجہ آصف

طاہر خان نے کہا پاکستان نے افغان طالبان رجیم سے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کے خلاف لڑنے والے گروپس کی قیادت کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کیا جائے جس سے افغان سائیڈ نے اِنکار کیا۔ جبکہ افغان سائیڈ نے پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کرنے کو کہا جس پر پاکستان سائیڈ نے اِنکار کیا کیونکہ پاکستان اِس طرح کے مسلح دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مذاکرات نہیں کرتا جو کہ پاکستان کی بیان کردہ اور اعلانیہ پالیسی ہے۔

پاکستان کا بنیادی مطالبہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے وہ تو یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروپوں کو افغان سرزمین کے استعمال سے روکا جائے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان راستے بھی بند ہیں تجارت بھی رُکی ہوئی ہے۔ ان مذاکرات کی ناکامی کے حوالے سے ثالثوں کو بھی مایوسی ہوئی ہو گی۔ لیکن دونوں طرفین نے ابھی تک باقاعدہ طور پر مذاکرات کی ناکامی کی وجوہات نہیں بتائیں۔

مذاکرات کا خاتمہ بدقسمتی ہے،حسن خان

افغان اُمور کے حوالے سے معتبر صحافی حسن خان نے اپنے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ مذاکرات کا ختم ہو جانا ایک بدقسمتی کی بات ہے جبکہ دوحہ میں یہ طے ہوا تھا کہ استنبول مذاکرات میں مانیٹرنگ میکنزم طے کیا جائے گا۔ پاکستان کا ایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف کاروائیوں کے لیے استعمال نہ ہو اور دہشتگردوں کو وہاں پر آزادانہ ماحول فراہم نہ کیا جائے۔

ان مذاکرات میں دونوں اطراف کے اعلیٰ عہدیدار شریک تھے لیکن اِن مذاکرات سے قبل ہی افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کی ہدایات منظر عام پر آئیں تھیں کہ افغان طالبان کسی ایسے سیاسی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جس کے ذریعے سے دہشتگرد گروہوں کی افغان سرزمین کے عدم استعمال کی یقین دہانی کروائی جا سکے۔ کچھ افغان وزرا اشتعال انگیز بیانات دے رہے ہیں کہ پاکستان پر حملہ کریں گے تو ایسی صورت میں پاکستان ویسا ہی جواب دے گا جیسا اِس سے پہلے دیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف درانی استنبول افغانستان پاک افغان مذاکرات پاکستان ذبیح اللہ مجاہد صحافی حسن خان طالبان طاہر خان

متعلقہ مضامین

  • جامعہ کراچی؛ اسکول آف لا کے طلبہ کا فیس کے معاملے پر احتجاج، امتحانات ری شیڈول
  • کراچی: طویل عرصے تک غیر استعمال شدہ گاڑی کا ای چالان جاری
  • گزشتہ ہفتے کے مقبول ترین اسمارٹ فونز کی فہرست جاری
  • جنگ بندی کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملے بند نہ ہوئے‘ شہدا کی تعداد 79 ہزار سے متجاوز
  • سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان حج 2026ء کے انتظامات پر معاہدہ طے پا گیا
  • وزیر اعظم کے استثنیٰ سے متعلق ترمیمی شق بھی سینیٹ میں پیش
  • حکومت سے رابطہ‘ کچھ تجاویز پر غوروخوض جاری رہے گا: شازیہ مری
  • پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟
  • صدرو وزیر اعظم کو فوجداری مقدمات سے استثنیٰ کی ترمیم پیش
  • مصنوعی ذہانت اور میڈیا کی نئی دنیا