کراچی: طویل عرصے تک غیر استعمال شدہ گاڑی کا ای چالان جاری
اشاعت کی تاریخ: 11th, November 2025 GMT
ویب ڈیسک :کراچی میں نافذ کردہ ای چالان سسٹم کی ایک کے بعد ایک خامی سامنے آنے لگی جس سے شہری شدید نفسیاتی دباؤ اور پریشانی کا شکار ہونے لگے ہیں،تازہ ترین واقعے میں شہری کو کسی اور کی گاڑی کا 10 ہزار روپے کا ای چلان اس کے گھر کے ایڈریس گلشن اقبال پر بھیج دیا گیا۔
شہری فیصل ستار کا کہنا ہے کہ اس کے پاس سوزوکی کلٹس گاڑی ہے جبکہ اس کو موصول ہونے والا چلان سوزوکی مہران گاڑی کا ہے۔
پی جی ٹرینی ڈاکٹروں کی سنی گئی
شہری کا کہنا ہے کہ مہران گاڑی کبھی اس کے زیر استعمال نہیں رہی اس کی ملکیت کلٹس گاڑی ہے جس کا رنگ سلور ہے جبکہ ای چلان میں دکھائی گئی گاڑی کا رنگ سرخ اور وہ مہران ہے۔
متاثرہ شہری نے مزید انکشاف کیا کہ گزشتہ کئی ماہ سے گاڑی اس کے زیراستعمال ہی نہیں اس کی گاڑی گھر پر کھڑی ہے اور متواتر کھڑی رہنے کی وجہ سے اس کی بیٹری بھی ڈیڈ ہو چکی ہے۔
شہری فیصل ستار نے بتایا کہ اس نے شک ہونے پر ایکسائز کی ویب سائٹ پر بھیجے گئے ای چلان کی گاڑی کی تصدیق کے لیے اس کا رجسٹریشن نمبر ڈالا۔
طلبہ کی موج مستیاں ختم، تعلیمی اداروں پر ایک بڑی پابندی عائد
بعد ازاں دلچسپ انکشاف ہوا کہ اے ایس ایف 813 نمبر کی گاڑی مہران ماڈل 2003 ہی ہے اور گاڑی مس مون لائٹ انڈسٹریز کے نام رجسٹرڈ ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ان کی گاڑی کا نمبر اے ایس ایف 613 اور ماڈل 2004 ہے۔
ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والی مہران گاڑی کی نمبر پلیٹ درسٹ طریقے سے ریڈ نہیں کی گئی۔
گاڑی نمبر اے ایس ایف 813 کے بجائے اے ایس ایف کے 613 کے مالک کو 10 ہزار روپے کا ای چلان بھیج دیا گیا۔
عمران خان سے وکلاء کی ملاقات نہ کرانے پر عدالت برہم، سیکرٹری داخلہ و دیگر کو نوٹس
شہری نے کہا کہ جب وہ شکایت لےکر ٹریفک پولیس کے سہولت سینٹر پہنے تو ان سے کہا گیا کہ اس کا کیس کمیٹی کو بھیجا جائے گا جس کے بعد فیصلہ ہوگا۔
فیصل کا کہنا تھا کہ وہ ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم ہے اور دس ہزار روپے کی بڑی رقم کا ناجائز ای چلان موصول ہونے کے بعد شدید ذہنی دباو کا شکار ہے۔
اس کا کہنا تھا وہ شدید پریشان ہے کہ اس نئی مصیبت سے جان چھڑانے کے لیے اس کو سرکاری دفاتر کے نجانے کتنے چکر کاٹنے پڑیں۔
بالی ووڈ کے لیجنڈ اداکار پریم چوپڑا طبیعت بگڑنے پر ہسپتال منتقل
سارے ثبوت موجود ہونے کے باوجود اس کو آئندہ تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: اے ایس ایف کی گاڑی گاڑی کا کا کہنا
پڑھیں:
امریکا میں تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن کیوں ہے اور یہ بحران کب تک حل ہوگا!
واشنگٹن: امریکا میں بجٹ کے معاملے پر قانون سازوں کے درمیان تنازع کی وجہ سے بحرانی صورت حال اور تاریخ کا سب سے بڑا شٹ ڈاؤن جاری ہے۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کا موجودہ شٹ ڈاؤن 36ویں روز میں داخل ہونے کے بعد تاریخ کا طویل ترین شٹ ڈاؤن بن گیا ہے۔
شٹ ڈاؤن کیوں ہوا؟
یہ معاملہ بجٹ سے شروع ہوا جو بحرانی کیفیت اختیار کرگیا ہے اور اس کی وجہ قانون سازوں کے درمیان جاری شدید اختلافات ہیں اور یہ فوری حل ہوتے نظر بھی نہیں آرہے۔
شٹ ڈاؤن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں یکم اکتوبر سے وفاقی اخراجات کے بل پر اتفاق نہیں کر سکیں جبکہ گزشتہ بجٹ کی مدت یکم اکتوبر کو ختم ہوگئی تھی اور نیا میزانیہ پاس نہ ہونے کے باعث حکومتی اداروں کی فنڈنگ بند ہو گئی۔
کانگریس کے دونوں ایوانوں میں اکثریت رکھنے والی ریپبلکن جماعت اخراجات میں کٹوتی کر کے بل منظور کرنا چاہتی ہے تاہم اس معاملے پر ڈیموکریٹس نے مخالفت کی اور مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ میں صحت و ٹیکس کریڈیٹس کی شرح میں کمی کی جائے۔
شٹ ڈاؤن کے دوران بند ہونے والی سروسز
شٹ ڈاؤن کے دوران صرف ضروری خدمات فراہم کی جارہی ہیں، جن میں بارڈر سیکیورٹی، امیگریشن، پولیس اور اسپتالوں کی ایمرجنسی سروسز کے محکمے شامل ہیں تاہم ڈیوٹی کرنے والے بیشتر ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں۔
شٹ ڈاؤن کی وجہ سے فضائی آپریشن بری طرح سے متاثر ہے، ایئر ٹریفک کنٹرولرز تنخواہ کی عدم ادائیگی کے بغیر کام تو کررہے ہیں تاہم بد انتظامی کی وجہ سے ہزاروں پروازیں متاثر ہوچکی ہیں۔
فوڈ اسٹیمپ پروگرام کے لیے فنڈز بند کردیے گئے تھے تاہم وفاقی جج نے ہنگامی فنڈ سے اس کی بحالی کا حکم دیا جبکہ پارکس، عجائب گھر اور پری اسکولز شٹ ڈاؤن کی وجہ سے بند ہیں۔
کئی سرکاری و نجی ادارے بھی شٹ ڈاؤن سے متاثر ہوئے جنہوں نے ہزاروں ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکن کے سنجیدہ افراد 27 نومبر (تھینکس گیونگ) سے پہلے معاملات کو حل کرنے کیلیے کاوشیں تو کررہے ہیں مگر بظاہر ابھی تک دونوں جانب سے کسی بھی جماعت نے اپنے مؤقف میں لچک نہیں دکھائی ہے۔
امریکی معیشت کو ہر ہفتے 15 ارب ڈالرز کا نقصان
امریکا کے معاشی ماہرین نے شٹ ڈاؤن طویل ہونے پر خبردار کیا اور کہا ہے کہ ہر ہفتے امریکی معیشت کو 15 ارب ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے، شٹ ڈاؤن کا معاملہ حل ہونے میں جتنی زیادہ تاخیر ہوگی اُس کا معیشت پر اتنا ہی گہرا اثر پڑے گا۔
شٹ ڈاؤن کا خاتمہ کب ہوگا؟
ان ساری باتوں کے باوجود امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے خاتمے کی کوئی حتمی تاریخ نہیں ہے تاہم نومبر کے آخر تک دونوں جماعتوں کے درمیان اگر بات چیت ہوتی ہے تو کوئی درمیانی راستہ نکل آئے گا۔
حالیہ شٹ ڈاؤن سے ملازمت پیشہ امریکی زیادہ پریشان کیوں ہیں؟
ویسے تو ماضی میں امریکا میں کئی بار شٹ ڈاؤن ہوچکے ہیں جس کے دوران سرکاری اداروں کے ملازمین کو بغیر تنخواہ ادائیگی کے کام کرنا پڑتا ہے اور معاملہ حل ہونے کے بعد واجبات کو حکومت ادا کرتی ہے۔
تاہم اس بار امریکی شہری اس وجہ سے پریشان ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ہے کہ ’شٹ ڈاؤن کے دوران کام کرنے والے تمام ملازمین کو واجبات ادا نہیں کیے جائیں گے‘‘۔ اُن کا اشارہ مخصوص لوگوں کو واجبات کی ادائیگی کی طرف اشارہ تھا۔