Daily Ausaf:
2025-08-14@00:03:04 GMT

خطرے کی گھنٹی یاحوصلے کاپرچم؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT

جب تاریخ قلم اٹھاتی ہے،تومحض واقعات کاردیف قافیہ مرتب نہیں کرتی،بلکہ زمانے کے دھڑکتے ہوئے نبضوں کوالفاظ کے قالب میں ڈھالتی ہے۔جب تاریخ کی زلفِ پریشاں میں خون کی مہک بسی ہواورسیاست کی پیشانی پربارودکی لکیرابھرآئے،تب ایک معمولی واقعہ بھی تاریخ کا رخ موڑدیتاہے۔پہلگام حملہ،جس نے دونوں ملکوں کوکشیدگی کے نازک پل پر لاکھڑا کیا، محض ایک عسکری جھڑپ نہیں بلکہ اس کے پس منظرمیں کئی تہیں چھپی ہیں۔پہلگام کے دھماکہ خیزلمحے نے ایک بارپھربرصغیرکے دوایٹمی ہمسایوں بھارت اور پاکستان کواس موڑپرلاکھڑاکیاجہاں ایک لفظ،ایک گولی یاایک پرچم کی جنبش پوری دنیا کے امن کولرزاسکتی ہے۔یہ صرف سرحدوں کی گرج نہیں تھی،بلکہ دلوں کے دھڑکنے ،ذہنوں کے جلنے اوربیانیوں کے بننے بگڑنے کاموسم تھا۔ گزشتہ دنوں ایک ٹل جانے والی قیامت کاہرپل نہ صرف حالیہ تناظرکااحاطہ کرتاہے بلکہ ماضی کی گواہی بھی ساتھ لیے ہوئے چیخ چیخ کرعبرت دلا رہا ہے۔
مئی2025ء کے آغازپرہونے والے اس چارروزہ تنازع میں پاکستانی فوج نے نہ صرف اپنے دشمن کومنہ توڑجواب دیابلکہ یہ یقین بھی دلادیاکہ وہ اب محض دفاعی قوت نہیں بلکہ حکمتِ عملی سے لیس ایک مربوط عسکری ادارہ ہے۔یہ مظاہرہ پہلی بارنہیں تھا۔1965ء اور 1999ء کی جنگیں اس حقیقت کابین ثبوت ہیں کہ پاکستانی فوج،عددی لحاظ سے بڑے دشمن کے خلاف بھی مؤثردفاع کرسکتی ہے۔اس باربھی،بھارت کوجس برق رفتاری، ٹیکنالوجی،اورغیرمتوقع ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا، وہ عسکری اصطلاح میں جنگی مہارت میں حیران کن کارکردگی ثابت ہواہے جس سے پاکستانی فوج کے عسکری اعتمادنے جہاں بھارت اور اسرائیل کوناکوں چنے چبوائے وہاں اس کے اتحادیوں کیلئے بھی حیران کن ثابت ہوا ہے ۔ پاکستانی عسکری قوت نے اس جھڑپ میں وہ کچھ دکھایا جوبسااوقات عسکری نظریے کی نصابی کتابوں میں بھی صرف تصورہی کی حدتک موجود ہوتا ہے۔فوجی توازن کے عالمی پیمانوں پراگرچہ پاکستان کوعددی برتری حاصل نہیں،مگرجس جرات،چابکدستی اور حکمت عملی سے اس نے بیک وقت کئی محاذوں پراپنی موجودگی کااحساس دلایا،وہ بھارت کیلئے ناقابلِ تصورتھی۔اس عسکری رسوخ نے داخلی طورپربھی ایک نئی جہت کوجنم دیا۔
جنرل عاصم منیر،جوکبھی سیاسی پس منظر کی دھندمیں تنقیدکے نشترسہہ رہے تھے،آج اسی فوجی کامیابی کے صدقے ایک مقبول قومی علامت کے طورپرابھرے ہیں۔ان کی قیادت میں پاکستانی افواج نے نہ صرف دشمن کی عسکری پیش قدمی کو روکنے میں کامیابی حاصل کی،بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے مؤقف کواجاگرکرنے کی مہم میں بھی پیش پیش رہی۔ادھر دوسری طرف چین کی خارجہ پالیسی کی بنیادی روح’’توسیع نہیں، تسلط‘‘ پر مرکوزہے۔ وہ براہِ راست مداخلت کی بجائے اپنے اتحادیوں کے ذریعے طاقت کامظاہرہ کرتا ہے۔ پاکستان اس پالیسی میں اس کاسب سے بڑا تزویراتی ہتھیارہے۔اس واقعہ کے جغرافیائی اثرات محض دہلی اور اسلام آباد تک محدود نہیں رہے۔ چین، جوپہلے ہی لداخ کے دھندلکوں میں بھارت سے نبردآزماہے،اب پاکستان کی دفاعی کارکردگی کو اپنے حق میں ایک مظبوط دلیل کے طورپردیکھ رہا ہے۔ لداخ میں بھارت سے تناؤ،تائیوان میں امریکی حمایت یافتہ خودمختاری کی تحریک،اوربحیرہ جنوبی چین میں نیوی کی مشقیںان تمام محاذوں پر چین اب ایک نئی’’ملٹری ٹیکنالوجیکل پاور‘‘کے طور پر ابھررہاہے۔
چین،جوخطے میں اپنی بالادستی کے خواب کوحقیقت میں ڈھالنے کیلئے کوشاں ہے،پاکستان کی عسکری مستعدی کواپنے لیے تقویت سمجھتا ہے۔ لداخ اورگلوان میں بھارت کے ساتھ پہلے ہی اس کا تناؤجاری ہے۔ایسے میں پاکستانی فورسز کا حوصلہ،بہادری،تجربہ کاری کا دفاعی ردعمل چین کیلئے جہاں ایک تزویراتی اتحادی کی حیثیت رکھتا ہے وہاں چین کی قوت کو تقویت اورعالمی طاقتوں کی نئی صف بندی کے وکٹری سٹینڈپربرتری کے درجے پرکھڑاکردیاہے۔پاکستان کی دفاعی حکمتِ عملی، چین کے اس مفروضے کوتقویت بخشتی ہے کہ جنوبی ایشیامیں بھارت کی عسکری بالادستی اب ایک خوابِ نیم شب ہوچکی ہے۔
بیلٹ اینڈروڈمنصوبہ ہویاسی پیک،چین کی سوچ معاشی راستوں سے فوجی راہداری تک جاپہنچی ہے۔اس حالیہ تنازع میں پاکستان کی مستعدی نے چین کوایک ایسادفاعی’’ کلیمور‘‘ فراہم کیاہے جو نہ صرف بھارت کی توسیع پسندی کوچیلنج کرتاہے بلکہ امریکاکوبھی یہ پیغام دیتاہے کہ ایشیااب یک قطبی نہیں رہا۔یہ وہی مثلث ہے جو1971ء میں امریکا، چین اور پاکستان کے درمیان دکھائی دی تھی،جب ہنری کسنجرنے پاکستان کے ذریعے چین کا دورہ کیاتھا۔آج بھی وہی رشتہ نئی شکل میں قائم ہے۔یوں یہ تنازع صرف دوہمسایہ ممالک کے درمیان ایک وقتی کشیدگی نہیں،بلکہ عالمی طاقتوں کی صف بندی کاایک آئینہ بھی ہے۔
یادرہے کہ بھارت نے گزشتہ کئی برسوں میں پاکستان سے سفارتی فاصلہ رکھنے کی پالیسی اختیارکی تھی لیکن حالیہ کشیدگی نے اسے ایک بارپھراس دائرے میں کھینچ لیاہے جہاں اسے پاکستان کوبراہ راست جواب دیناپڑتاہے۔یہ خارجہ پالیسی کی وہ لغزش ہے جس کااندازہ نہروکے دورمیں بھی ہواتھاجب1962ء کی چین-بھارت جنگ میں بھارت کوعالمی حمایت حاصل کرنے کیلئے عجلت میں فیصلے کرنے پڑے۔
سیاست میں لفظ بھی ایک ہتھیار ہے،اوربیانیہ وہ میزائل جودلوں اوراذہان کونشانہ بناتا ہے۔اس کشمکش میں جہاں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اپنی تقریروں میں ’’سندور‘‘ کی قسم کھاکرقوم پرستی کے دیوتاکوپکاررہے تھے،وہیں پاکستان نے اقوامِ عالم کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیاکہ دہلی خودخطے کوجنگ کے دہانے پر لارہاہے۔مودی کایہ کہناکہ’’میری رگوں میں سندور بہتاہے‘‘ایک مذہبی علامت سے زیادہ، سیاسی اسلحہ تھاجس سے بھارت کی داخلی سیاست کو گرمایا گیالیکن سوال یہ ہے کہ کیاقومی مفادات کے محافظین کے ہاتھ میں جذبات کی شعلہ بیانی ایک محفوظ ہتھیارہے؟
نریندرمودی کاانتخابی جلسے میں وہ بیان کہ ’’میری رگوں میں سندوربہتاہے۔۔۔۔سکھ چین سے روٹی کھاؤورنہ میری گولی توہے ہی‘‘ صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ خطے کی ایٹمی سلامتی کے منہ پرایک کھلاطمانچہ ہے جس کے ذریعے مذہبی جذبات کوہوادے کر قوم پرستی کاپرچم بلند کیا گیا لیکن نہ تویہ طرزِخطاب تاریخ میں نیانہیں بلکہ اس کاشرمناک انجام بھی تاریخ نے محفوظ کر رکھا ہے تاکہ دنیااس سے عبرت حاصل کرے۔اس طرح کی دھمکی آمیز،بازاری اورمعاندانہ زبان نہ صرف بین الاقوامی آدابِ سیاست کی توہین ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کے چارٹرکی روح کی بھی منافی ہے۔ ایسی زبان،ایسی سنگینی،ایک ایسے وقت میں جب خطہ پہلے ہی کشیدگی کے شعلوں میں گھراہو،غیرمعمولی تشویش کاباعث بن گئی ہے۔عالمی میڈیا ،سفارتی حلقے، اورامن پسند قومیں اس طرزِبیان پرحیران ہیں کہ ایک ایٹمی ریاست کاوزیراعظم کس بے باکی سے جنگی ترانے گاتاہے۔
تاریخ میں اگرچہ سیاست دانوں نے جرات آمیزالفاظ کہے ہیں،مگرکبھی بھی اس حد تک شخصی انتقام کی آگ کوانتخابی ایندھن نہیں بنایا گیا۔اندراگاندھی نے1971ء میں مشرقی پاکستان کے خلاف جنگ سے قبل بھی اسی قسم کی تقاریر کی تھیں اور1971ء میں اندراگاندھی نے بنگلہ دیش کے تناظرمیں تلخ بیانات ضروردیے تھے، مگرایسی دھمکی آمیززبان استعمال کرنے سے انہوں نے بھی گریزکیاتھا۔مودی کی تقاریر،اس کے برعکس،ہندوتوانظریے،نفرت،اورذاتی غرور کا پرچاربن چکی ہیں۔انتخابات جیتنے کیلئے مودی کا یہ نیاڈرامہ کوئی نیا نہیں،اس سے قبل بھی گجراتی قصاب نے بطورانڈین گجرات کے وزیراعلی ہوتے ہوئے مسلمانوں کے قتل عام کانہ صرف حکم دیابلکہ اب بھی انڈیامیں مسلمانوں کے خاتمے کیلئے کھلم کھلابیان بازی کرتارہتاہے۔مودی کی گولی والی دھمکی نہ صرف اسی سیاسی سکرپٹ کاحصہ ہے بلکہ اس کی مکاری اورذہنی بیماری کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ ایٹمی ملک کے ایسے شدت پسند سربراہ سے دنیاکوکس قدرشدیدخطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
بھارت کے اندرکانگریس جیسی جماعتیں اس موقع پربی جے پی کی خارجہ پالیسی کو تنقید کانشانہ بناتے ہوئے اس ساری صورتحال کو بی جے پی کی خارجہ پالیسی کی ناکامی سے تعبیرکر رہی ہیں۔ وہ یہ دعویٰ کررہی ہیں کہ بھارت کی سفارتکاری،جوکبھی ایک عالمی مثال ہوا کرتی تھی، آج ردِعمل اوراشتعال انگیزی کی راہوں پر گامزن ہے اوربھارت کی جارحانہ پالیسی درحقیقت اس کے عالمی تنہائی کاباعث بن رہی ہے۔یہ احتجاج اس بات کی گواہی دیتاہے کہ معاملہ صرف عسکری یاسفارتی نہیں،بلکہ داخلی سیاسی حرکیات کابھی عکاس ہے ۔ خارجہ پالیسی کاناکام ہونا درحقیقت اندرونی سیاسی کشمکش کا اظہار ہے۔ 2002 ء میں گجرات فسادات کے بعدبھی بھارت کو سفارتی سطح پرمشکلات کاسامناکرناپڑاتھا اورآج تک بھارت کے چہرے کی بدترین کالک کے طور پرتاریخ میں رقم ہوچکاہے۔
پاکستان اوربھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں اوران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی دنیابھر کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔کارگل جنگ کے دوران بھی عالمی برادری نے بروقت مداخلت کی تھی تاکہ دوایٹمی ریاستیں کسی حماقت میں نہ پڑ جائیں۔کیاہم آج بھی اسی دہلیزپر کھڑے ہیں؟ کیابرصغیرایک بارپھرتاریخ کی بھٹی میں جھونکا جائے گا؟
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: خارجہ پالیسی میں پاکستان پاکستان کی نہیں بلکہ میں بھارت بھارت کے بھارت کی ہے بلکہ چین کی

پڑھیں:

جرمنی کے چند دلچسپ و عجیب قوانین

دنیا کے ترقی یافتہ اور منظم ترین ممالک میں شمار والا جرمنی بظاہر ایک آزاد خیال ملک کے طور پر جانا جاتا ہے تاہم یہاں کچھ ایسے قوانین بھی ہیں جو بظاہر ایک لبرل ملک سے شاید کچھ لوگوں کو عجیب لگ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جرمن شہری روزانہ 10 گھنٹے سے زائد بیٹھے رہنے کے عادی، صحت پر تشویشناک اثرات

ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں 16 سال کی عمر میں شراب پینا قانونی ہے، بعض پارکوں میں بغیر کپڑوں کے دھوپ سینکنا عام بات ہے اور کچھ مخصوص بارز میں سگریٹ نوشی کی بھی اجازت ہے۔ تاہم اسی ملک میں کچھ قوانین ایسے بھی ہیں جو بظاہر عجیب، سخت اور بعض اوقات حیران کن محسوس ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جب ان کا تعلق عوامی رویے، مذہبی تعطیلات اور فطری ماحول سے ہو۔

مذہبی دنوں میں رقص اور فلموں پر پابندی

جرمنی کی متعدد ریاستوں میں ’گڈ فرائیڈے‘ جیسے مذہبی تہوار کو ’خاموش عوامی تعطیل‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن نہ صرف عوامی سطح پر رقص پر پابندی ہے بلکہ کئی فلموں کی نمائش بھی ممنوع ہے۔ مثلاً ریاست بایرن میں یہ پابندی 70 گھنٹے تک جاری رہتی ہے اور اس کی خلاف ورزی پر 10 ہزار یورو تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیے: جرمن اولمپیئن لارا ڈاہل مائر پاکستان میں کوہ پیمائی کے دوران جان گنوا بیٹھیں، انوکھی وصیت کیا تھی؟

اس روز شور مچانے والی دیگر سرگرمیوں پر بھی پابندی ہوتی ہے، جیسے کار واش، پرانی اشیا کی فروخت یا مکان کی شفٹنگ۔ یہی نہیں بلکہ اس دن کے لیے جرمنی بھر میں تقریباً 700 فلموں کی نمائش پر پابندی ہوتی ہے۔

جنگلات میں رات کو مشروم چننا ممنوع

جرمنی میں رات کے وقت جنگل میں جا کر مشروم یا کھمبیاں چننا غیر قانونی ہے کیونکہ اس سے رات کے وقت متحرک جنگلی جانوروں کو خلل پہنچتا ہے۔ اسی طرح جنگلی لہسن کو اس کی جڑ سمیت اکھاڑنا بھی ممنوع ہے۔ البتہ ذاتی استعمال کے لیے تھوڑی مقدار میں اس کے پتے احتیاط سے توڑے جا سکتے ہیں بشرطیکہ اس سے فطری نظام کو نقصان نہ پہنچے۔

ساحلوں پر ریت کے قلعے اور گڑھے کھودنا غیر قانونی

بحیرہ بالٹک اور شمالی سمندر کے جرمن ساحلوں، خاص طور پر زیُلٹ جیسے جزیروں میں، بچوں کو ریت کے قلعے بنانے یا گہرے گڑھے کھودنے کی اجازت نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان سرگرمیوں سے ساحل کٹاؤ کا شکار ہو سکتے ہیں۔

بعض مقامات پر اس کی خلاف ورزی پر 1000 یورو تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ جزیرے ریُوگن جیسے علاقوں میں اجازت تو ہے مگر مخصوص حدود کے ساتھ۔ اور قلعے کی اونچائی 30 سینٹی میٹر اور دائرہ 3.5 میٹر سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔

اتوار کو شور مچاتی مشینیں چلانا جرم

اتوار کے دن جرمنی میں سکون، خاندان اور مذہبی سرگرمیوں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ اس روز پاور ٹولز، لان کی گھاس کاٹنے والی مشین یا کوئی بھی شور مچانے والی چیز چلانا ممنوع ہے۔

اس ضابطے کی خلاف ورزی پر نہ صرف ہمسایوں کی ناراضی بلکہ پولیس کارروائی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔

یہ خاموشی محض گھروں تک محدود نہیں بلکہ گلیوں اور بازاروں تک بھی پھیلی ہوئی ہے۔ ایک پرانا قانون ’دکانیں بند کرنے کا قانون اتوار اور عوامی تعطیلات پر ریٹیل دکانوں کو بند رکھنے کا پابند بناتا ہے۔ چند مخصوص مواقع کے علاوہ اتوار کو خریداری تقریباً پورے ملک میں ممکن نہیں۔

شاہراہ پر ایندھن ختم ہونا بھی قانون شکنی

جرمنی کی مشہور شاہراہیں اپنی رفتار کی آزادی کے لیے مشہور ہیں لیکن اگر یہاں آپ کی گاڑی کا ایندھن ختم ہو جائے تو یہ ایک قابلِ سزا جرم ہے۔

مزید پڑھیں: جرمنی کا فری لانس ویزا کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟

حکام کے مطابق یہ عمل لاپروائی کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ یہ نہ صرف ڈرائیور بلکہ دوسروں کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ شاہراہوں صرف ہنگامی صورت میں رکنے کی اجازت ہے اور اس قانون کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جرمنی جرمنی کے دلچسپ قوانین جرمنی کے عجیب قوانین

متعلقہ مضامین

  • آزادی محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ ذمہ داری کے اعادے کا دن ہے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
  • بھارت کے ایم چناسوامی اسٹیڈیم کی ورلڈ کپ کی میزبانی خطرے میں
  • جرمنی کے چند دلچسپ و عجیب قوانین
  • امن یا کشیدگی: پاکستان بھارت تعلقات کے مستقبل پر نظر ثانی
  • عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا تو ملک مزید خطرے میں پڑ جائے گا، چیئرمین پی ٹی آئی
  • بھارت کی ہٹ دھرمی پر امریکی وزیر خزانہ برہم، تجارتی مذاکرات خطرے میں پڑ گئے
  • بھارت کا عسکری غرور خاک میں مل چکا، ہر جارحیت کا بھرپور جواب دینگے، شہباز شریف
  • پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب رواں
  • اقلیتوں کے دن کو ہم رسمی طور پر نہیں مناتے بلکہ اس کو محسوس بھی کرتے ہیں، سعید غنی
  • وزیراعظم شہباز کو اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل، تبدیلی افواہیں بے بنیاد قرار