Express News:
2025-06-30@02:10:11 GMT

تصادم اور تغیر کا زمانہ

اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT

کرۂ ارض پر حضرت انسان نے اپنے قیام کے عرصے میں خطرناک ارتقائی سامان جمع کرلیا ہے، جیسے جارحیت، رسم پرستی، اندھی اطاعت، بے گانوں سے نفرت، موروثی رجحانات وغیرہ۔ یہی طرزِعمل ہماری اجتماعی بقاء کے لیے مہلک بنتا جا رہا ہے۔

غور کریں تو ہر صاحبِ فکر انسان ایٹمی جنگ سے خوف کھاتا ہے، مگر ہر تیکنیکی و ترقی یافتہ ریاست ایٹمی ہتھیاروں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ پاگل پن ہے، لیکن ہر قوم کے پاس اس کا ’’جواز‘‘ موجود ہے۔آج انسانیت مکمل طور پر ایٹمی یرغمال بن چکی ہے۔ کسی بڑی روایتی جنگ کے لیے عوام کو غصے میں لانے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ایٹمی جنگ کے لیے صرف چند حکم رانوں کا غصے میں آجانا کافی ہے۔

میڈیا کی مدد سے جذبات بھڑکانا اب معمولی بات ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ ہمارا انتخاب بقاء ہوگا یا فنا، قومیں باہمی عدم اعتماد کے باعث ہول ناک تباہی کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ عہدجدید کے تناظر میں کیا ہم نے واقعی ترقی کی ہے؟ کیا ہم نے عقل سے جنون کو باندھ دیا ہے؟ کیا ہم نے جنگ کے اسباب کا جرات مندانہ تجزیہ کیا ہے؟ اگر نہیں، تو ہمیں ایک نئے معاشرے کی تعمیر کا سنجیدگی سے آغاز کرنا ہوگا۔

ایچ جی ویلز کا قول یاد رکھیں،’’ہمارا انتخاب یا تو کائنات ہوگی یا کچھ بھی نہیں۔‘‘

ایٹم بم کے استعمال، بالخصوص جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر 1945ء میں ہونے والے حملوں کے بعد، دنیا بھر کے کئی مشہور سائنس دانوں نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ ان سائنس دانوں میں وہ افراد بھی شامل تھے جنہوں نے خود ایٹم بم و جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں حصہ لیا تھا۔ جوہری و کیمیائی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔ بیشتر سائنس داں اس کے استعمال پر نادم ہوئے اور بعد میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور امن کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ انہوں نے بارہا حکومتی پالیسی سازوں کو خبردار کیا کہ ’’سائنس کا مقصد انسانیت کی خدمت ہونا چاہیے، نہ کہ اس کی تباہی۔‘‘ مئی اور جون ۲۰۲۵ کے دوران عالمی منظرنامہ شدید کشیدگی، معاشی غیریقینی، ماحولیاتی بگاڑ اور سماجی اُبال سے عبارت رہا۔

خاص طور پر ایران اور اسرائیل کے مابین بڑھتے ہوئے تصادم نے دنیا کو ایک نئی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ اسرائیل نے ایران پر حملے میں پہل کی اور شدید حملہ کرکے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جواب میں ایران نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل اور ڈرون حملے کیے، اسرائیل نے ایران کے میزائل اور جوہری تنصیبات اور جوہری سائنس دانوں کو نشانہ بنایا۔ ایران کی جانب سے ہائپرسونک میزائل رکھنے کی اطلاعات پر بین الاقوامی ماہرین نے شکوک ظاہر کیے، تاہم یہ اطلاع بھی جنگی نفسیات کی ایک مثال بن کر سامنے آئی۔ یہ  خطرناک صورت حال نہ صرف مزید جنگی و فوجی تصادم بلکہ سائبر جنگ کی بھی پیش گوئی کر رہی ہے، کیوںکہ امریکی سائبر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایرانی سائبر حملوں کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

اس کشیدگی کا شدید اثر عالمی معیشت پر بھی پڑا ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق تیل کی طلب اور رسد کے درمیان شدید عدم توازن نے مارکیٹ کو غیرمستحکم کردیا۔ عالمی سطح پر افراط زر کی لہر، شرحِ سود کی پالیسیوں میں تعطل، اور تجارتی بے یقینی نے عالمی معیشت کو نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکا میں فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود میں تبدیلی نہ کرنے کا اعلان کیا ہے، جب کہ مستقبل قریب میں ممکنہ کمی کے اشارے دیے جا رہے ہیں۔ برطانیہ، چین، جاپان اور یورپی مرکزی بینکوں میں بھی افراط زر اور معاشی نمو کے مابین توازن کی جدوجہد جاری ہے۔

ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد تجارتی پالیسیوں کی غیریقینی صورت حال نے عالمی تجارتی نظام میں مزید بے چینی پیدا کی ہے۔ تجارتی پابندیاں، سیاسی دھمکیاں اور اتحادیوں میں اعتماد کی کمی نے معاشی عدم استحکام کو مزید تقویت دی ہے۔ ادھر ماحولیاتی تبدیلی کی ہول ناکی بھی روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ انسانی سرگرمیوں سے پیدا شدہ گرین ہاؤس گیسز نے قدرتی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جنگلات کی آگ، شدید گرمی، خشک سالی اور طوفانی بارشوں جیسے مظاہر ماحولیاتی تبدیلی کی ناقابل تردید علامات بن چکے ہیں۔

اس بگڑتے ماحولیاتی منظرنامے کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کچھ اقدامات بھی سامنے آئے ہیں، جیسے ’’ہائی سیز ٹریٹی‘‘ جسے اب تک ۴۹ ممالک نے منظور کیا ہے۔ یہ معاہدہ سمندری حیات، ماحول اور قدرتی ذخائر کے تحفظ کے لیے اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے، مگر زمینی سطح پر اس کے عملی اثرات اب تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔ عالمی سیاسی اور معاشی بحران کے ساتھ عالمی ادارے عوامی صحت، صفائی اور ثقافتی بیداری کی کوششوں میں بھی سرگرم ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کا مقصد COVID-19 کے بعد صحت کے نظام کو ازسرنو استوار کرنا رہا ہے۔

فضائی آلودگی کے خلاف کانفرنسوں اور ویب نارز کے ذریعے دنیا بھر میں بیداری پھیلانے کی کوشش جاری ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ ہر سال تقریباً ۷ ملین افراد قبل از وقت اموات کا شکار ہو رہے ہیں۔ سماجی سطح پر انسانی حقوق کی اور عوامی تحریکیں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی قوت کس قدر فیصلہ کن ہوچکی ہے۔ فلسطینی عوام کے حق میں ’’گلوبل مارچ ٹو غزہ‘‘ کے تحت ہزاروں افراد نے مصر کے راستے انسانی امداد کی راہ داری کھولنے کا مطالبہ کیا، جو نہ صرف انسان دوستی بلکہ عالمی ضمیر کی بیداری کی علامت بھی ہے۔ ثقافتی محاذ پر ۲۰۲۵ کے فلمی میلوں نے عالمی فنون و ثقافت کو پھر سے زندگی بخشی ہے۔ نئے ٹیلنٹ کی آمد، سماجی مسائل پر بننے والی فلمیں، اور بین الاقوامی تعاون پر مبنی پروجیکٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا نے فنی انداز سے بھی مسائل پر اظہارِرائے کی راہیں کھول لی ہیں۔

یہ امر بھی تشویش ناک ہے کہ عالمی معیشت کو سیاسی غیریقینی، تجارتی پابندیوں، تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور افراط زر کے دباؤ نے غیرمتوازن کردیا ہے۔ ایسے میں مرکزی بینکوں کی مالیاتی پالیسیوں، عالمی تجارتی تعاون، اور بین الاقوامی اداروں کی ہم آہنگی ہی استحکام کا راستہ فراہم کر سکتی ہے۔

ماحولیاتی چیلینج دنیا کے لیے سب سے بڑی آزمائش بنتے جا رہے ہیں۔ فضائی آلودگی، سمندری بگاڑ، اور موسمیاتی تباہی سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر حقیقی، منظم اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے، بصورتِ دیگر انسانی بقا ہی داؤ پر لگ سکتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی جنگ کے کیا ہے کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

کراچی میں بارش کے دوران روڈ کارپیٹنگ کی ویڈیو وائرل، شہریوں کی شدید تنقید

سوشل میڈیا پر شہر قائد کی ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ گرومندر کے قریب سڑک کی کارپیٹنگ کا کام جاری تھا کہ اسی دوران بارش ہو گئی۔

ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صارفین کی جانب سے انتظامیہ پر خوب تنقید کی جا رہی ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ پورے ملک کو پتہ تھا کراچی میں جمعرات سے اتوار تک بارشیں ہوں گی کیا حکومت کو نہیں پتا تھا جو اس دِن ہی سڑک بنانی تھی۔

عادل خان کا کہنا تھا کہ جون اور جولائی کے مہینے میں روڈ کارپیٹنگ کا کام ہوتا ہی نہیں ہے یہ جماعت اسلامی کے کارنامے ہیں، جبکہ ایک صارف کا کہنا تھا کہ ان کو صرف بارش میں کام یاد آتا ہے ویسے یہ سوئے رہتے ہیں۔

ایک صارف کا کہنا تھا کہ کن نااہل لوگوں کو ملک پر مسلط کر دیا ہے۔ غضنفر عباس نے کہا کہ بارشوں کا ایک ہفتہ پہلے ہی بتا دیا گیا تھا تو یہ کام پہلے مکمل نہیں کیا جا سکتا تھا، جبکہ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ جو کہیں نہ ہو وہ کام کراچی میں ہوتا ہے۔

گرومندر پر بارش کے دوران کارپیٹنگ کی ویڈیو پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ٹیکنیکل سروسز طارق مغل کی جانب سے وضاحتی بیان جاری کیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ محرم الحرام سے قبل کراچی کے مختلف علاقوں میں سڑکوں کی مرمت اور کارپیٹنگ کا کام محکمہ انجینئرنگ کی جانب سے جاری تھا۔

انہوں نے کہا کہ گرومندر کے قریب بھی روڈ کارپیٹنگ کا عمل معمول کے مطابق جاری تھا کہ اچانک بارش کا آغاز ہو گیا۔ طارق مغل کے مطابق متعلقہ سڑک پر ڈامر ڈالنے کا عمل مکمل ہو چکا تھا جب بارش شروع ہوئی، جس کے بعد فوری طور پر کام روک دیا گیا اور اسی دوران کسی شہری نے اس کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کر دی، جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی کہ بارش کے دوران کارپیٹنگ کا عمل جاری رکھا گیا۔

ڈی جی ٹیکنیکل کا مزید کہنا تھا کہ بارش کے مکمل اختتام تک کارپیٹنگ کا کام معطل کر دیا گیا ہے، اور آئندہ بھی موسم کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کام کا آغاز کیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

کارپیٹنگ کراچی گرومندر روڈ ویڈیو وائرل

متعلقہ مضامین

  • ماحولیاتی تبدیلی کا بحران
  • تنزانیہ میں دوبسوں کے درمیان خوفناک تصادم،38افراد ہلاک
  • این ڈی ایم اے کا ملک بھر میں 5جولائی تک بارشوں اور ممکنہ سیلاب کا الرٹ جاری
  • حرا مانی کی بولڈ ویڈیو شدید تنقید کی زد میں
  • بلوچستان میں زلزلے کے شدید جھٹکے
  • پشاور: 2 گروہوں میں تصادم، 2 افراد جاں بحق، 2 زخمی
  • پاکستان: طوفان اور لینڈ سلائیڈنگ میں 11 ہلاک، شدید بارشوں کی وارننگ
  • شاہ فیصل ٹاؤن بجٹ اجلاس ‘ اپوزیشن کو اظہارِ رائے سے روکے جانے پر شدید احتجاج
  • کراچی میں بارش کے دوران روڈ کارپیٹنگ کی ویڈیو وائرل، شہریوں کی شدید تنقید