Express News:
2025-06-30@03:52:52 GMT

اِس’’قلعہ‘‘ میں کوئی محفوظ بھی ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT

پاکستان کے ایک ذمے دار ادارے نے یہ انکشاف خیز رپورٹ پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے ذمے داران کے حضور پیش کی ہے کہ پچھلے تین برسوں کے دوران اسلام آباد میں 600افراد قتل کیے گئے ہیں : یعنی ہر سال 200افراد کا بہیمانہ قتل!ہم اِسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت ، اسلام آباد، میں شہریوں کو کتنی سلامتی حاصل ہے ؟ اسلام آباد کے مکین قاتلوں ، رہزنوں اور ڈاکوؤں سے کتنے مامون اورمحفوظ ہیں؟ اگر پاکستان کا وفاقی دارالحکومت قاتلوں کی دست برد سے محفوظ نہیں ہے تو پاکستان کے باقی حصوں اور خطوں کی سلامتی بارے کیا کہا جا سکتا ہے ؟ ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر نے مذکورہ رپورٹ پر ، اسلام آبادی پولیس کا دعویٰ ہے کہ کچھ عرصہ سے اسلام آباد میں جرائم کی شرح خاصی کم ہُوئی ہے ۔ یہ شرح کتنی کم ہُوئی ہے ، راقم آپ کو آپ بیتی سناتا ہے :

میرا بیٹا حال ہی میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کراسلام آباد کے ایک نجی ادارے میں انٹرن شپ کررہا ہے ۔ شام گئے اُسے چھُٹی ملتی ہے ۔ چند روز قبل وہ چھُٹی کے بعد بس اسٹاپ پر اپنی گاڑی کے انتظار میں کھڑا تھا کہ دو موٹر سائیکل سوار آئے اور پستول دکھا کر اُسے موبائل فون اور بٹوہ نکالنے کا کہا۔ وہ بیچارہ حواس باختہ ہو گیا ۔

چند ہی قدموں کے فاصلے پر چند اور لوگ بھی کھڑے تھے ۔ کوئی بھی مگر مدد کو نہ آیا ۔ سہمے ہُوئے میرے بیٹے نے موبائل فون بھی رہزنوں کے حوالے کر دیا اور بٹوہ بھی۔ بٹوے میں تین ہزار روپے پڑے تھے ۔ دفتر اور ذاتی آئی ڈی کارڈز بھی ۔ سب رہزنی کا ہدف بن گئے ۔ میرے کہنے پر میرا بیٹا اسلام آباد کے ایک نزدیکی تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے گیا مگر متعلقہ ’’صاحب‘‘ نے رپٹ درج کرنے سے صاف انکار کر دیا ، یہ کہہ کر کہ پہلے چھینے گئے موبائل فون کی اصل رسید دکھاؤ ، پھر ایف آئی آر درج کروں گا۔

بیٹے نے دفتری دوستوں سے قرض لے کر ایک سستا سا نیا موبائل فون خرید لیا ہے ۔لیکن میرا بیٹا وفاقی دارالحکومت میںسرِ عام رہزنی کی اِس واردات سے نفسیاتی اعتبار سے اس قدر خوف کا شکار ہو چکا ہے کہ اب دفتر سے واپسی پر تاخیر کی صورت میں اُس کی والدہ اُسے فون کرکے خیر خیریت دریافت کرنا بھی چاہے تو وہ مارے ڈر کے فون ہی نہیں اُٹھاتا ۔ اِس خوف کے زیر تسلّط کہ کہیں یہ موبائل بھی چھِن نہ جائے ۔ملک بھر میں موبائل فون چھینے جانے کی اِس طرح کی ہزاروں، لاکھوں وارداتیں ہو چکی ہیں ۔

کئی لوگ مزاحمت میں جانوں سے ہار چکے ہیں، لیکن قانون شکن اس قدر دلیر ہو چکے ہیں کہ موبائل فون چھیننے کی وارداتیں رُک نہیں رہیں ۔اور یہ ایسے ملک میں وارداتیں ہو رہی ہیں جو خیر سے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ بھی کہلاتا ہے اور ’’اسلام کا قلعہ ‘‘ بھی ۔ اِس قلعہ میں مگر کوئی محفوظ بھی ہے ؟ بلند بانگ دعوؤں کے باوصف لاہور بھی ایسی وارداتوں سے محفوظ نہیں ۔ راقم آپ کو ایسی ہی ایک سچی واردات سناتا ہے :

میرے بچپن کے دوست، ملک محمد قدیر، کے یہ بڑے بھائی صاحب ہیں ۔ نام اُن کا ملک محمد نیاز ہے ۔ میٹرک کے بعد ہی والد صاحب کی خاصی بڑی کریانے کی دکان پر بیٹھ گئے ۔ رفتہ رفتہ والد صاحب کی ساری بزنس ذمے داریوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا ۔ اپنے ایک بھائی کو ایم ایس سی کروایا اور پھر امریکا بھجوایا۔ دوسرے بھائی کو الیکٹریکل انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم دلوائی ۔ وہ ایس ڈی او بن گئے مگر پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کینیڈا چلے گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ ملک نیاز صاحب کا کاروبار اچھا بھلا چل رہا تھا ، لیکن پھر اچانک زوال کا شکار ہونے لگا ۔ دوسری جانب چھ بچے تیزی سے جوان ہو رہے تھے ۔ اُن کے تعلیمی اخراجات بھی روز افزوں تھے ۔

ایک بیٹا لاہور کے ایک پرائیویٹ میڈیکل کالج میں داخل تھا ۔ اُس کے بھاری اخراجات اُٹھانا مشکل ہورہے تھے ۔ بہرحال بیٹا ایم بی بی ایس کر گیا اور لاہور کے ایک سرکاری اسپتال میں ملازم ہو گیا ۔ تنخواہ بھی اچھی ملنے لگی تھی ۔ شام کے وقت وہ ایک نجی اسپتال میں جز وقتی کام کرکے اضافی یافت بھی کرنے لگا تھا ۔ ملک نیاز قدرے مطمئن تھے کہ اللہ کا شکر ہے اب معاشی تنگدستی کے دن گزر گئے ہیں ۔

مگر نہیں ۔ ابھی سخت آزمائشیں اُن کی تاک میں تھیں ۔ مجھے ملک نیاز صاحب کا گزشتہ روز فون آیا ۔ لرزتی اور کانپتی آواز میں مجھے بتایا:’’ یار، کیا بتاؤں ۔ پچھلے تین ماہ سخت عذابوں اور آزمائشوں میں گزرے ہیں ۔ میرا ایم بی بی ایس بیٹا شام کے وقت، سرکاری ڈیوٹی کے بعد، جِم سے واپس آرہا تھاکہ راستے میں دو مسلح لڑکوں نے اُس کا راستہ روکااور اُس کا موبائل فون بزور چھیننا چاہا ۔ بیٹے نے مزاحمت کی تو دونوں مسلح لڑکوں نے اُسے گولی مار دی ۔

مَیں اُس وقت نماز پڑھ کر مسجد میں ذکر اور تسبیح کررہا تھا کہ مسجد کے سامنے واقع میرے گھر سے برہنہ پا میری بیٹی روتی کرلاتی مسجد میں میرے پاس آئی اور کہا:ابا جی، بھائی کو کسی نے گولی مار دی ہے ۔ ‘‘وہ بتا رہے تھے :’’ سن کر میری آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا ۔ جوتا پہنے بغیر میں جائے وقوعہ کی جانب بھاگا ۔ وہاں زمین پر میرا بیٹا خون میں لَت پَت پڑا تھا ۔ فوری طور پر اُسے اُسی سرکاری اسپتال پہنچایا جہاں وہ بطور ڈاکٹر ملازمت کررہا ہے ۔ پتہ چلا کہ گولی بیٹے کی پسلیوں کو چیرتی ہُوئی ایک پھیپھڑے اورجگر کے نچلے حصے کو شدید گزند پہنچاتے ہُوئے باہر نکل گئی ہے ۔

بیٹا موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا کئی روز تک اسپتال میں زیر علاج رہا ۔میری تو دُنیا ہی اندھیر ہو چلی تھی ۔ بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹتی محسوس ہو رہی تھی ۔ کوئی پانچ ہفتوں کے بعد شدید مجروح بیٹا ہوش میں آنے لگا ۔ پھرمعلوم ہُوا کہ اُس کے پھیپھڑوں میں پانی بھر گیا ہے ۔

ساتھ ہی شدید بخار نے آ گھیرا ۔ میرے لیے تو اسپتال ہی ٹھکانہ بن چکا تھا ۔‘‘ وہ ٹوٹتی آواز میں مزید بولے:’’ بیٹا اب تقریباً صحتیاب ہو چکا ہے ۔ ایک پھیپھڑا مگرپورا کام نہیں کررہا ۔ اِس جزوی صحت پر بھی خدا کا شکر ہے ۔ ابھی بیٹا سرکاری ڈیوٹی ادا کرنے سے قاصر ہے ۔ چلنے پھرنے میں تکلیف ہے ۔لاٹھی کے سہارے چلتا پھرتا ہے ۔ اللہ کا شکر ہے بیٹے کی زندگی بچ گئی ۔ مکمل صحت بھی ، انشاء اللہ، مل جائے گی ۔ آپ بھی میرے بیٹے کی صحتِ کاملہ و عاجلہ کے لیے دعا کیجیے ۔‘‘

سانحاتی واقعہ سُن کر اب تک راقم لرزہ براندام ہے ۔دل اور دماغ پر فکر و پریشانی کا ایک کہر سا جم گیا ہے ۔ اِس کے برعکس ایک غیر اسلامی ملک کا واقعہ سُنئے : ہمارے ایک انگریزی معاصر میں یہ واقعہ ایک خط کی شکل میں شایع ہُوا ہے ۔ واقعہ کے مطابق ، امریکا سے جاپان آئی ایک پاکستانی نژاد فیملی اپنے ایک دوست کے ہاں ٹھہری ۔ واپسی پر جاپانی ائر پورٹ پر ہی اُن کے بڑے بیٹے کا انتہائی قیمتی موبائل فون کہیں گر گیا ۔ نوجوان بیٹا خاصا پریشان تھا اور شور مچا رہا تھا ۔ اوپر سے فلائیٹ کا ٹائم بھی ہورہا تھا ۔ ایسے میں میزبان جاپانی فیملی نے اُسے کہا: گھبراؤ مت بیٹا، تم بس ائر پورٹ پولیس کو یہ شکائت درج کروا دو اور اپنے پاسپورٹ کی ایک کاپی بھی فراہم کر دو ۔ ایسا ہی کیا گیا ۔

کوئی دو ہفتے بعد امریکا سے پاکستانی فیملی نے اپنے جاپانی دوست خاندان کو مطلع کیا کہ کھویا گیا موبائل فون ہمیں بذریعہ ڈاک مل گیا ہے۔ یہ ائر پورٹ کی پارکنگ میں گرگیا تھا اور جاپانی پولیس کے ایک اہلکار کو مل گیا تھا ۔یہ خط پڑھ کر مجھے خود پر بیتے ہُوئے مذکورہ بالا دونوں سانحات پھر سے یاد آنے لگے ۔ دل میں ایک ہُوک سی اُٹھی ۔ خود سے کہا: کاش،جاپانی پولیس کا کردار ہمارے مبینہ اسلامی قلعہ میں بھی کہیں نظر آتا!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسلام ا باد موبائل فون میرا بیٹا رہا تھا کے ایک کے بعد

پڑھیں:

مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ، کچھ دیر میں سنایا جائے گا

ا سلام آ باد (ڈیلی پاکستان آن لائن)  مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظر ثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ ہوگیا، سپریم کورٹ آئینی بینچ کچھ دیر میں مختصر فیصلہ سنائے گا۔
 ڈان کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس عقیل عباسی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔
کیس کے آغاز میں ہی جسٹس صلاح الدین پنوار نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا جس کے بعد مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں 11 رکنی بینچ ٹوٹ گیا۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل حامد خان نے گزشتہ روز بینچ پر اعتراض اٹھایا تھا، حامد خان نے ان ججز کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض اٹھایا جو 26ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ آئے، حامد خان کے اس اعتراض کے باعث بہتر سمجھتا ہوں خود کو بینچ سے الگ کر لوں۔
جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ جن ججز پر 26ویں آئینی ترمیم کے بعد بنچ میں شامل ہونے پر اعتراض کیا گیا ان میں میں بھی شامل ہوں، عوام کا عدلیہ میں اعتماد لازم ہے،ضروری ہے کسی فریق کا ببچ پر اعتراض نہ ہو۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ میں جسٹس صلاح الدین پنہور کے اس اقدام کو سراہتا ہوں جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ کوئی سراہنے والا معاملہ نہیں ہے، یہ آپ ہی کے کنڈکٹ کا نتیجہ ہے، ہم نے آپ کو عزت دی، اس لیے آپ کو سن رہے ہیں، ورنہ ہم آپ کو سننے کے مجاز نہ تھے، آپ کو موقع دیا، آپ اس کا ناجائز فائدہ مت اٹھائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس دس منٹ ہیں بات کرنی ہے تو کریں، ایسا نہیں ہے کہ ہمیں سختی کرنا نہیں آتی جس پر حامد خان نے کہا کہ آپ غصے میں لگ رہے ہیں، ابھی کیس مت سنیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں جانتا ہوں کیسے کام کرنا ہے،اپ اپنی الفاظوں کا خیال رکھیں، آپ نے بات نہیں کرنی تو بیٹھ جائیں، آپ جو کر رہے ہیں وہ اچھے وکیل والی بات نہیں۔
حامد خان نے کہا کہ میری بات سن لیجیے جوڈیشل کمیشن بینچ بناتا ہے جس پر جمال مندوخیل نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کس قانون کے تحت بینچ بناتا ہے، حامد خان نے جواب دیا کہ 26ویں ترمیم کے تحت آرٹیکل 191 اے کے تحت بنتے ہیں بنچز۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ 26ویں ترمیم کے مخالف ہیں تو اس پر کیسے انحصار کر رہے ہیں، حامد خان نے جواب دیا کہ اسی لیے کہا تھا 26ویں ترمیم پر پہلے فیصلہ کر دیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون کا حوالہ دیں گے تو آپ کو کل تک سنیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا ترمیم سپریم کورٹ نے کی ہے، آپ سینیٹر ہیں کیا آپ نے ترمیم کے خلاف ووٹ دیا، حامد خان نے جواب دیا کہ میں نے اس کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ سب نے بائیکاٹ کیا تھا، جب تک وہ ہے یا اسے قبول کریں یا آپ کہیں یہ سسٹم مجھے منظور نہیں ہے وکالت چھوڑ دیں۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ نظر ثانی وہی کرسکتا ہے جس نے نظراول کی ہو، جسٹس نعیم افغان نے کہا کہ ہم نے آپ کا نکتہ نوٹ کر لیا آگے بڑھیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آزاد امیدواروں کو 3 دن کے اندر کسی بھی جماعت میں شامل ہونا ہوتا ہے، کیا نوٹیفکیشن کے بعد الیکشن کمیشن، ہائیکورٹ یا ہم سے کوئی درخواست کی کہ ہمیں سیٹ دیں؟ معذرت کیساتھ کس طرح سیاسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ کیا گیا، اس طرح سیاسی جماعت میں شمولیت بارے فیصلے کی تحقیقات کرنی چاہیے، اس نقصان کا ملبہ اب عدالت پر ڈالا جارہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ 13 کے 13 ججز نے متفقہ کہا تھا کہ مخصوص نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کا حق نہیں بنتا، آپ اس بات کو خود بھی تسلیم کررہے ہیں، صاف بات ہے کہ قوم کو گمراہ کیا جارہا ہے، درست حقائق سامنے نہیں لائے جارہے۔
بعد ازاں، عدالت نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
یاد رہے کہ 6 مئی 2025 سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔
تاہم، بینچ کے ارکان جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلاف کرتے ہوئے نظر ثانی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔
خیال رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔
کیس کا پس منظر:6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔
3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔
4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔
الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔
چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

محرم الحرام میں ملک بھر میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ

مزید :

متعلقہ مضامین

  • آلو فریج میں رکھیں، پانچ ماہ تک تازہ رہیں گے، رپورٹ
  • پنجاب نصابی اتھارٹی کی سنگین غلطی: کیمسٹری کی کتاب میں دہلی کے لال قلعہ کی تصویر شائع
  • پنجاب: فرسٹ ایئر کی کتاب میں سنگین غلطی، شاہی قلعہ کی جگہ دہلی کا لال قلعہ شائع
  • کیا صدر ٹرمپ کا بیٹا صدارتی انتخابات لڑسکتا ہے؟ ایرک ٹرمپ نے بتا دیا
  • کراچی: بارش کے باعث لائٹ ویٹ طیاروں کو فلائنگ سے روک دیا گیا
  • افغان طالبان کے دور میں افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا
  • کمیونٹی پولیسنگ کراچی کو کیسے محفوظ بنا رہی ہے؟
  • مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ، کچھ دیر میں سنایا جائے گا
  • مخصوص نشستوں پر نظرثانی سے متعلق کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ