ہماری سیاست ایک بھنور میں پھنس چکی ہے جس کا انجام غیر یقینی ہے۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر میرا مختصر تبصرہ یہی ہے۔جنرل پرویز مشرف نے شب خون مار کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تو اپنے ماورائے آئین طرز عمل بلکہ بغاوت کے بارے میں دل چسپ بیانیہ اختیار کیا۔ وہ کہنے لگے کہ میں ملک کو جمہوریت کیوں دوں، یہاں سیاست ہی بالغ نظر اور سنجیدہ نہیں ہے۔کیا جنرل مشرف کا مؤقف واقعی درست تھا؟ یہ معمہ حل کر لیا جائے تو آج کی سیاست کے بارے میں کوئی حکم لگانا آسان ہو جائے گا۔
جنرل مشرف کے اقدامات کیا تھے؟ انھوں نے آئین کو معطل اور منتخب وزیر اعظم کو لاپتہ کر دیا تھا۔ ایسا ہمارے ہاں اس سے پہلے بھی ہوتا آیا تھا، اس لیے یہ عوام کا کوئی نیا تجربہ نہیں تھا۔ ماضی میں مارشل لا لگتے تو مٹھائیاں بٹتیں اور کچھ لوگ جو اس وقت کے انتظار میں بیٹھے ہوتے، بھنگڑے ڈال کر ڈکٹیٹر کا خیر مقدم کیا کرتے۔ مشرف کی دفعہ کچھ مختلف ہوا۔مشرف کے شب خون پر میاں نواز شریف سے ناراض چند ساتھیوں نے مٹھائیاں بانٹیں ضرور لیکن اس پر ان شاء اللہ خان انشا کا شعر صادق آتا ہے جو ضرب المثل کی صورت اختیار کر چکا ہے :
ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
میاں صاحب کے ناراض ساتھیوں کے بھنگڑے رنگ نہ جما سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مشاہد اللہ خان نے اس غیر آئینی اقدام کے دو روز بعد کراچی کے سب سے بارونق اور مصروف بازار میں تن تنہا احتجاج کر کے مارشل لا اور اس کے ذمے دار کے پاؤں تلے سے قالین کھینچ لیا تھا۔ اس کے بعد جنرل مشرف آٹھ ساڑھے آٹھ برس تک اقتدار پر قابض ضرور رہے لیکن اس کی ٹانگیں ہوا میں رہیں۔ اپنے اقتدار کو جواز اور دوام بخشنے کے لیے اس نے جو سیاسی بیساکھیاں بنائیں، انھیں عوام میں کبھی اعتبار حاصل نہ ہو سکا۔ دوسری طرف پاکستان کی تمام جمہوری قوتیں الائینس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی( اے آر ڈی)کے پرچم تلے جمع ہو گئیں۔
جیسا ہوتا ہے، جمہوریت کے آرزو مندوں کو آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انھوں نے بھی سامنا کیا لیکن ڈکٹیٹر کو ایک پل چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ اس وقت سیاست شعوری اعتبار سے اتنی بلند سطح پر تھی۔ ہر مارشل لا انڈے بچے دیتا ہے۔ جنرل مشرف کے مارشل لا نے بھی دیے لیکن اس مارشل لا کی باقیات ماضی کے ڈکٹیٹروں کی باقیات سے مختلف تھیں۔ مشرف جتنا عرصہ بھی اقتدار پر قابض رہا، ق لیگ نے اس کا ساتھ دیا لیکن مارشل لا نے اسے اپنا وارث کبھی نہیں سمجھا۔ اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ جب مشرف وردی اتارنے پر مجبور ہوئے تو اس میں دیگر کے علاوہ کچھ کردار ق لیگ کا بھی تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنرل مشرف کا دست و بازو بننے والی جماعت بھی ایک درجے میں جمہوری ذہن رکھتی تھی۔ مارشل لا کے ذہن نے اپنی باقیات کہیں اور تلاش کیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جنرل مشرف نے سیاسی طبقات پر عدم بلوغت کی پھبتی ضرور کسی تھی لیکن یہ پھبتی کچھ وزن نہیں رکھتی تھی۔ یہ سیاسی جماعتیں ہی تھیں جنھوں نے قید و بند اور جلا وطنی جیسی سزاؤں کے باوجود مارشل لا کے جبڑے سے جمہوریت برآمد کی۔
اب آئیے، موجودہ صورت حال کی طرف۔ یہ حقیقت ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے اپنی سیاست کا عنوان اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کو بنایا ہے۔ 9 مئی کو ملک کی دفاعی تنصیبات پر حملوں کا مقصد بھی شاید یہی ہو کہ اس تاثر پر مہر تصدیق ثبت ہو جائے حالاں کہ احتجاج اور حملے دو مختلف چیزیں ہیں ۔ اس کے باوجود بانی پی ٹی آئی اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب رہے لیکن سیاسی عمل ایک بھنور میں پھنس گیا۔ یہ بھنور کیا ہے؟
یہ بھنور وہی سیاسی عدم بلوغت ہے جس کی پھبتی مشرف نے ماضی میں کسی تھی لیکن یہ واقعہ مشرف کے جانے کے بہت بعد رونما ہوا ہے۔آج کا بھنور بانی پی ٹی آئی کی سیاسی خواہشات کے بطن سے پیدا ہوا ہے۔ بانی پی ٹی آئی اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ چہرہ تو برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن رشتے داری بھی اسی کے ساتھ چاہتے ہیں۔اس مرحلے پر یہ تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کو ڈکٹیٹروں نے اقتدار سے محروم کیا تھا، اس لیے انھوں نے ان کے خلاف جدوجہد کی۔ ان کے مقابلے میں بانی پی ٹی آئی ایک آئینی عمل کے ذریعے اقتدار سے محروم ہوئے جسے انھوں نے تسلیم نہیں کیا۔ یہ باتیں اب پرانی ہوئیں۔ ہمیں اصل مسئلے پر بات کرنی چاہیے۔
اس وقت بنیادی مسئلہ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کا ہے جو عدالتی فیصلے کے ذریعے بھی پی ٹی آئی کو نہیں ملیں۔ پی ٹی آئی نے اس مسئلے کے حل کے لیے دو دروازوں پر دستک دی تھی۔ ایک عدالت کا دروازہ اور دوسرا وہ دروازہ جس کی مخالفت کا تاثر وہ برقرار رکھنا چاہتی ہے یعنی اسٹیبلشمنٹ۔ پی ٹی آئی کا یہ مسئلہ دونوں جگہوں سے حل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہی ہے کہ قانون وہی کہتا ہے جس کے مطابق عدالت نے فیصلہ دیا۔ پی ٹی آئی نے انتخابات کے بعد ایک کے بعد دوسری غلطی کر کے مخصوص نشستوں کا حصول اپنے لیے ناممکن بنا دیا تھا۔ اب اس کے وکلا کی خواہش تھی کہ یہ فیصلہ نظریہ ٔ ضرورت کے تحت دیا جائے۔ یہ ممکن نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کی دوسری کوشش یہ تھی کہ یہ کام اسٹیبلشمنٹ کر دے۔ 2014 سے لے کر 2018 کے تجربات کے بعد اسٹیبلشمنٹ اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ہماری مداخلت ملک کو کبھی راس نہیں آئی، اس لیے اب ہم علیحدہ رہ کر آئینی نظام کو مضبوط کریں گے۔ پی ٹی آئی اس کے بالکل الٹ چاہتی ہے۔ اب ایسا کوئی نہیں کرنا چاہتا البتہ ایک راستہ ایسا ہے جس پر چل کر ٹی آئی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔وہ راستہ ہے حکومت اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات اور رابطوں کا۔ پی ٹی آئی جیسے ہی یہ راستہ اختیار کرے گی، اس کی مشکلات آسان ہونی شروع ہو جائیں گی۔ کچھ عجب نہ ہوتا اگر اس راستے سے اسے مخصوص نشستیں بھی مل جاتیں لیکن پی ٹی آئی سیاسی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہتی۔ اس کی واحد خواہش یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اسے دوبارہ ایوان اقتدار میں پہنچا دے۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں بلکہ آیندہ بھی اس کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ہماری سیاست کا بھنور یہی ہے۔ یہ بھنور پی ٹی آئی نے پیدا کیا ہے اور وہی اس میں پھنس گئی ہے۔ پی ٹی آئی جتنی جلد بھنور سے خود کو نجات دلائے گی اتنی جلد ہی اس کے مسائل حل ہوں گے اور ملک بھی تبھی اس مخمصے سے نکل پائے گا۔
مال گاڑی میں امانتیں
' مال گاڑی میں امانتیں' اس کتاب کا نام سنا تو لگا جیسے یہ کسی ناول کا نام ہو لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کے مصنف ایک قانون دان محمد حنیف بندھانی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کسی وکیل کا ناول سے کیا کام؟ بس یہی حیرت انسان کو کتاب پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کتاب پڑھیں تو حیرت کا ایک جہاں کھل جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریر بھی ایک امانت تھی جو پچھلی پون صدی تک ایک امانت دار نے سینے سے لگا کر رکھی۔ ایک ایسی امانت جس کا کوئی ایک فرد نہیں، پوری قوم ہے پھر یہ جان کر مزید حیرت ہوتی ہے کہ اس قوم اور ریاست کو اپنی امانت کی کوئی فکر ہے اور نہ اسے واپس لینے میں کوئی دل چسپی ہے۔
ایک نئی ریاست کے قیام اور اس کے ذمے داران کا سرکاری ذاتی مال اسباب کیسے ان کے نئے وطن میں پہنچا ہو گا؟ اس کا تصور ہی جذبات میں طلاطم پیدا کر دینے والا ہے۔ ہماری ریاست میں استحکام ہوتا ہے اور اس کے تمام اعضا و جوارح قائم کر دیے گئے ہوتے تو نقل مکانی کی تفصیلات صرف تاریخ کا دامن ہی مالا مال نہ کر دیتیں بلکہ کسی شان دار میوزیم میں ان کا ایک شان دار گوشہ وجود میں آ جاتا۔ یہ دستاویزات کسی ادیب کے ہاتھ لگتیں تو اس میں ایسا تجسس اور سنسنی ہوتی کہ قاری اسے مکمل پڑھے بغیر ہاتھ سے رکھ نہ سکتا۔
یہ معلوم کرنا کتنا دلچسپ ہے کہ اسکندر مرزا مطالعے کا شوقین تھا اور ان کی کتابوں کی پوری ایک بوگی ہندوستان سے پاکستان منتقل ہوئی تھی۔ اس شخص میں کچھ انسانی اوصاف بھی تھی۔ وہ احسان کرنے والوں کو یاد رکھتا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا تھا۔
یہ خود نوشت مصنف کے والد خواجہ محمد اسماعیل کے شاندار کردار سے بھی پردہ اٹھاتی ہے جنھیں اسکند مرزا نے اربوں روپے کی جائیداد کلیم میں دینے کی کوشش کی تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بندھانی صاحب نے ایک شاندار کتاب سپرد قلم کی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی مخصوص نشستوں پی ٹی آئی مارشل لا انھوں نے یہ ہے کہ ہے کہ اس مشرف کے ہوتا ہے کے بعد ہے اور
پڑھیں:
مخصوص نشستوں کے فیصلے پر الیکشن کمیشن کا ردعمل سامنے آگیا
مخصوص نشستوں کے فیصلےکے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن سیاسی دباؤ یا عوامی شور میں آ کر فیصلے نہیں کرتا، الیکشن کمیشن صرف آئین، قانون اور شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کسی جماعت یا مفاداتی گروہ کے ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں ہوتا۔ اسلام ٹائمز۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ردعمل بھی سامنے آگیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کیخلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، الیکشن کمیشن نے میڈیا پر ہونے والی تنقید کو جھوٹ اور حقائق کے برعکس قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن نے ہمیشہ آئین و قانون کے مطابق فرائض انجام دیئے، سپریم کورٹ نے متعدد بار الیکشن کمیشن کے مؤقف کی توثیق کی، سینیٹ الیکشن میں سیکرٹ بیلٹ سے متعلق مؤقف کی عدالت نے توثیق کی۔
ڈسکہ الیکشن پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے آئینی اقدام قرار دیا، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن پر الیکشن کمیشن کی تشریح کو بھی درست قرار دیا گیا، اے پی ایم ایل کی ڈی لسٹنگ کے فیصلے کو بھی سپریم کورٹ نے برقرار رکھا، قانون کی خلاف ورزی پر دیگر جماعتیں بھی ڈی لسٹ کی گئیں۔ پنجاب الیکشن ٹربیونلز پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ مسترد، الیکشن کمیشن کا مؤقف برقرار رہا، سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں بھی الیکشن کمیشن کا مؤقف برقرار رہا۔
الیکشن کمیشن سیاسی دباؤ یا عوامی شور میں آ کر فیصلے نہیں کرتا، الیکشن کمیشن صرف آئین، قانون اور شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے۔الیکشن کمیشن کسی جماعت یا مفاداتی گروہ کے ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں ہوتا، اپنی ناکامیوں کا الزام الیکشن کمیشن پر ڈالنے کا رویہ غیر مناسب ہے۔