ایدھی فلم پر بھی تنازع، سندھ حکومت اور فیصل ایدھی کے متضاد بیانات
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
صوبائی حکومت کا معروف فلم ساز ستیش آنند کے اشتراک سے فلم سازی کا دعویٰ
فیصل ایدھی نے اسے اپنا ذاتی منصوبہ قرار دے کر حکومتی دعوئووں کو مکمل مسترد کردیا
پاکستان کے عظیم سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کی زندگی پر بننے والی فلم کے حوالے سے ایک عجیب صورتحال پیدا ہو گئی ہے ۔ جہاں ایک طرف سندھ حکومت نے اس منصوبے پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ، وہیں دوسری جانب ایدھی فائونڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے اسے اپنا ذاتی منصوبہ قرار دے کر حکومتی دعوئوں کو مسترد کردیا ہے ۔سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے حال ہی میں ایک تقریب میں اعلان کیا تھا کہ صوبائی حکومت معروف فلم ساز ستیش آنند کے اشتراک سے ایدھی صاحب کی زندگی پر فلم بنا رہی ہے ۔ تاہم فیصل ایدھی نے اس بیان کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ دراصل ایدھی فائونڈیشن کی اپنی کاوش ہے جس پر وہ پچھلے ایک سال سے کام کر رہے ہیں۔فیصل ایدھی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ہم نے پہلے ہی ایک معروف ڈرامہ اداکار و پروڈیوسر کے ساتھ معاہدہ کر لیا تھا۔ ستیش آنند نے بعد میں رابطہ کیا تو انہیں مطلع کر دیا گیا کہ یہ منصوبہ پہلے ہی کسی اور کے ساتھ طے پا چکا ہے ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ فلم کا تمام تر تخلیقی کنٹرول فائونڈیشن کے پاس ہوگا۔اس فلم کا اسکرپٹ معروف مصنفہ تہمینہ درانی کی کتاب ایدھی: آمرر ٹو دی بلائنڈ پر مبنی ہوگا، جس میں ایدھی صاحب نے خود اپنی زندگی کے اہم واقعات قلمبند کیے تھے ۔ فیصل ایدھی کے مطابق، فلم میں ایدھی کی والدہ اور اہلیہ بلقیس ایدھی کے کرداروں کو خصوصی اہمیت دی جائے گی کیونکہ ان خواتین نے ایدھی کی شخصیت کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔فلم کی شوٹنگ کے لیے ایدھی صاحب سے منسلک تمام اہم مقامات کا انتخاب کیا گیا ہے ، جن میں ان کا آبائی گائوں بانٹوا (گجرات، بھارت) بھی شامل ہے ۔ فیصل ایدھی نے واضح کیا کہ اگر بھارت میں شوٹنگ ممکن نہ ہو سکی تو اس مقام کو اسٹوڈیو میں ہی تیار کیا جائے گا۔جب فیصل ایدھی سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ خود اپنے والد کا کردار ادا کریں گے ، تو انہوں نے انتہائی سادگی سے جواب دیا: میں اداکار نہیں ہوں، اس لیے یہ کردار نبھانا میرے لیے ممکن نہیں۔ یہ فیصلہ فلم کے ہدایتکار اور پروڈیوسر کریں گے کہ ایدھی صاحب کا کردار کون ادا کرے گا۔فیصل ایدھی نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یہ فلم نہ صرف ایدھی صاحب کی بے مثال خدمات کو خراج تحسین پیش کرے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک مثال بنے ۔ انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ فلم عالمی معیار کی ہو تاکہ آنے والی نسلیں ایدھی صاحب کی قربانیوں اور خدمات سے آگاہ ہو سکیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تنازع کے بعد فلم بنانے کا اصل حق کسے ملتا ہے اور کون اس عظیم انسان کی زندگی کو پردہ سیمیں پر پیش کرنے کا حق دار ٹھہرتا ہے ۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: فیصل ایدھی نے ایدھی صاحب کہا کہ
پڑھیں:
کیا ٹرمپ تنازع کشمیر حل کرا پائیں گے؟
ابھی تک مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو سب سے طاقتور ملک سمجھا جاتا تھا مگر اب اسرائیل کی ایران پر جارحیت کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اسرائیل امریکی مدد کے بغیرکچھ بھی نہیں کر سکتا۔ گزشتہ دنوں اسرائیل نے ایران کے خلاف کھلم کھلا جارحیت کی اور کئی دنوں تک اس پر پوری طاقت سے حملہ آور ہوتا رہا مگر جب ایران نے اسے نشانہ بنانا شروع کیا تو اسے اپنی حقیقت کا پتا چلا کہ وہ ایران کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔
ایران نے اپنے طاقتور میزائلوں سے اسرائیل میں ایسی خوفناک تباہی مچائی کہ اس کے ہوش اڑ گئے اور اسرائیلی عوام نیتن یاہو کو کوسنے لگے۔ امریکا اس غلط فہمی میں تھا کہ اس نے اپنے بی 2 بمبار سے حملہ کر کے جوہری اثاثوں کو تباہ کر دیا ہے مگر ایران نے کمال ہوشیاری سے پہلے ہی اپنی افزودہ یورینیم دوسرے مقام پر منتقل کر دی تھی اس طرح ایران کے جوہری مواد کو تو نقصان نہیں پہنچا، ایران کے ہاتھوں اسرائیل کی ہزیمت اور اپنے وقار کو تار تار دیکھ کر اب صدر ٹرمپ نے ایران سے جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ جنگ تو بند ہوگئی ہے مگر کیا اسرائیل کا دماغ بھی درست ہوا؟
حالیہ جنگ میں ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی قوم بڑے سے بڑے حملہ آور سے نہیں ڈرتی اور اپنی سرزمین کی حفاظت کرنا جانتی ہے۔ اسی دوران نیتن یاہو نے انھیں ایران کی جنگ میں اپنا شریک بنا لیا۔ اسرائیل شاید ایران کے خلاف اتنا آگے نہ بڑھتا۔ اگر ٹرمپ ایران کے جوہری ہتھیار بنانے سے نیتن یاہو سے زیادہ پریشان نہ ہوتے حالانکہ انھیں ایران کو جوہری صلاحیت حاصل کرنے سے روکنے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
وہ پرامن مذاکرات کے ذریعے بھی یہ معاملہ حل کر سکتے تھے۔ پھر ایران بار بار یہی کہتا رہا کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ افسوس کہ ٹرمپ نے ایران سے مذاکرات کو دھونس اور دھمکیوں کی نذر کر دیا۔ ایران پھر بھی مذاکرات کرنے سے نہیں کترایا اور اپنا وفد عمان بھیجا مگر اس کے دوران بھی اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا اور پھر ٹرمپ نے بھی بعد میں ایرانی جوہری اثاثوں پر حملہ کر دیا اور اعلان کر دیا کہ انھوں نے ایران کے جوہری مراکز کو تباہ کر دیا ہے۔
مگر شاید ایسا نہیں ہوا تھا جب ہی تو دوسرے دن اسرائیل کو ان ہی مراکز پر بمباری کرنا پڑی۔ امریکا ایران کو کئی برسوں سے مسلسل تنگ کر رہا ہے اس نے ایران پر مختلف اقسام کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اب ایسے ماحول میں ایران کیسے اپنا گزارا کر رہا ہوگا اور اپنے عوام کی ضروریات پوری کر رہا ہوگا بہرحال ایران ان تمام پابندیوں کے باوجود بھی اپنے تیل کی بدولت ایک پروقار ملک کے طور پر قائم و دائم ہے۔
ایران پاکستان کا ایک پڑوسی ملک ہے۔ پاکستان نے کئی مرتبہ ایران سے گیس اور بجلی خریدنے کی کوشش کی مگر امریکی حکومت کو یہ بات پسند نہ آئی۔ کئی سال قبل پاکستان نے ایران سے گیس خریدنے کے لیے ایک اہم معاہدہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایران نے اپنے حصے کی گیس پائپ لائن بچھا دی تھی پاکستان نے بھی یہ کام شروع کر دیا تھا مگر افسوس کہ امریکا نے یہ کام آگے نہ بڑھنے دیا اور جب سے اب تک یہ کام التوا میں پڑا ہوا ہے۔
حالانکہ پاکستان کو اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی ملک سے گیس یا تیل حاصل کرنے کی آزادی حاصل ہے مگر امریکی پابندیوں سے تمام ہی ممالک خوفزدہ ہیں۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کو گیس کی جگہ درآمد شدہ تیل پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے جس کے بھاری اخراجات کی وجہ سے ایک طرف عوام پر مہنگائی کا بوجھ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے تو دوسری جانب معیشت مشکلات کا شکار ہوتی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا سہارا لینا ناگزیر ہوگیا ہے۔
ایسے مشکل وقت میں گزشتہ دنوں پاکستان کو بھارت کی جارحیت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بھارت نے پہلگام میں بغیر کسی ثبوت کے وہاں دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگا کر حملہ کر دیا۔ اس حملے سے مشرقی سرحدی علاقوں میں کئی افراد شہید ہوئے۔ پھر پاکستان نے ناچار اس بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے فضائی حملے کیے جن کی تاب نہ لا کر بھارت نے ٹرمپ کی مدد سے جنگ بندی کرا لی۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کو رکوا کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔
بھارت پہلے کشمیر کے معاملے میں کسی ملک کی ثالثی کا قائل نہیں تھا مگر ٹرمپ کی پیشکش پر مودی انکار نہ کر سکا۔ گوکہ ثالثی کے معاملے پر بھارت میں مودی پر سخت تنقید کی جا رہی ہے تاہم اس سے اتنا ضرور ہوا کہ مسئلہ کشمیر جسے مودی یہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے اسے سرد خانے میں ڈال دیا ہے اس کا خیال غلط ثابت ہوا اور اب مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہو گیا ہے کیونکہ اس کے حل کے بغیر برصغیر میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ صدر ٹرمپ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کا راستہ کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے۔