دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے دوست پاکستان کےساتھ کھڑے ہیں،، ترک صدر WhatsAppFacebookTwitter 0 30 June, 2025 سب نیوز

ترک صدر طیب اردوان نے ہفتے کے روز خیبر پختونخوا میں دہشتگرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے شہدا کے اہل خانہ اور حکومت پاکستان سے تعزیت کا اظہارکیا ہے۔

ترک میڈیا کے مطابق صدر طیب اردوان نے حکومت پاکستان سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترکیے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنے دیرینہ دوست پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

حملے کا پس منظر
واضح رہے کہ ہفتے کے روزصوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں بھارتی اسپانسرڈ دہشتگردوں کے حملے میں 13 پاکستانی فوجی شہید ہوئے تھے جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں سکیورٹی فورسز نے 14 خوارج ہلاک کیے تھے ۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملے کی کوشش کی گئی اور خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی سے فورسز کے قافلے کو نشانہ بنانےکی کوشش کی۔

آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ قافلےکے آگے موجود دستے نے بروقت کارروائی میں ناپاک منصوبے کو ناکام بنایا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرچین نے پاکستان کو دیئے گئے 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کے قرضے کی مدت میں توسیع کر دی چین نے پاکستان کو دیئے گئے 3 ارب 40 کروڑ ڈالر کے قرضے کی مدت میں توسیع کر دی پاک فضائیہ کے ساتھ جھڑپ میں بھارتی طیارے تباہ ہوئے، بھارتی دفاعی اتاشی کا اعتراف ڈی ایچ کیو اسپتال پاکپتن میں 20بچوں کی موت کیسے ہوئی؟ انکوائری مکمل پاکستان سے مفرور 2ملزمان اسپین میں گرفتار، دفتر خارجہ کی تصدیق ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ کے ملک میں داخلے پر پابندی لگادی پاکستان کی کوئی یونیورسٹی سرفہرست 350 یونیورسٹیوں میں جگہ نہ بنا سکی ،رینکنگ جاری TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

تعاون انسداد دہشت گردی اور پانی کا مسئلہ

پاکستان اور امریکا نے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید گہرا کرنے کا عہد کیا ہے۔ اس پیش رفت کو پاکستان کے لیے ایک ایسے وقت میں بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جب بھارت بلوچستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے بی ایل اے سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کی کھلم کھلا حمایت کر رہا ہے۔

امریکا اور پاکستان کے درمیان انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کو مزید گہرا کرنے کا حالیہ فیصلہ ایک انتہائی موافق سفارتی سنگِ میل ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ خطے میں امن و سلامتی کے فروغ کے لیے ذمے دارانہ کردار ادا کیا ہے۔

چاہے یہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں ہوں، سرحدی تحفظ ہوں یا عالمی سطح پر تعاون، پاکستان نے وقتاً فوقتاً اپنی سنجیدگی اور مؤثر اقدامات سے دنیا کو یہ باورکروایا ہے کہ وہ عالمی امن کی مطلوبہ ضمانت ہے، اگرچہ اس راہ میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن پاکستان نے ثابت قدمی سے حالات کا مقابلہ کیا ہے۔

بھارت کے ان کھلم کھلا حمایتی بیانات اورکردار کے باوجود، پاکستان نے بی ایل اے جیسے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مؤثر اور مستقل کارروائیوں سے یہ واضح کیا ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف ملک میں انتشار پھیلانے کی ہرکوشش ناکام بنانے کے عزم پر قائم ہے۔

دہشت گردی کا مسئلہ صرف پاکستان کا داخلی معاملہ نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی خطرہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے۔ دہشت گردی کی نوعیت تبدیلی پذیر ہے، عالمی دہشت گرد نیٹ ورکس اور ان کے علاقائی شاخیں مسلسل اپنے حربے بدلتی رہتی ہیں۔

ایسے میں اگر پاکستان کو تازہ ترین انٹیلی جنس، جدید تربیت اور وسائل تک رسائی ملے تو وہ نہ صرف مؤثر ردِ عمل دے سکتا ہے بلکہ دہشت گردی کے نئے رجحانات کا بروقت ازالہ بھی کرسکتا ہے۔ امریکا کے ساتھ اس تعاون کے نتیجے میں پاکستان کی انٹیلی جنس شیئرنگ، ڈیٹا اینالیسس اور ملٹری پراکٹیکل آپریشنز مزید مضبوط ہوں گے، جس سے پاکستان خود نہ صرف اپنی سرحدوں، بلکہ بڑھتے ہوئے بیرونی خطرات کے پیش نظر بہتر مزاحمتی صلاحیت تشکیل دینے میں کامیاب ہوگا۔

عالمی سطح پر پاکستان کی اس کامیابی کا مفہوم بھی بڑا ہے۔ ایک طرف بھارت عالمی فورمز پر پاکستان کے خلاف ناپسندیدہ باتیں کرتا رہا ہے، بھارت کے بلوچستان سے متعلق بیانات، پروپیگنڈا اور حمایتیں صرف مقامی امن کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش نہیں بلکہ ایک منظم سفارتی محاذ ہیں۔

بی ایل اے کی کھلم کھلا حمایت بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے جو عالمی اصولوں کے خلاف ہے۔ ایسے حالات میں اگر پاکستان نے مؤثر کارروائی کی ہیں اور امریکا جیسے شریکِ کار نے اسے تسلیم کیا، تو یہ نہ صرف پاکستان کی ساکھ کے لیے مثبت ہے بلکہ خطے میں توازن کی بحالی میں بھی ایک مضبوط پیغام ہے۔

 اس دوطرفہ تعاون کا اثر معاشی اور معاشرتی شعبوں میں بھی قابلِ غور ہے۔ امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے آثار ہوتے ہیں تو غیر ملکی سرمایہ کاری، سیاحت اور ترقیاتی منصوبے تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔

بالخصوص بلوچستان جیسے علاقے میں جہاں دیرینہ محرومیوں اور اجتماعی نظریاتی بحرانوں کا شکار عوام آباد ہیں، وہاں اگر امن کی فضا برقرار رہے اور تحفظ کا احساس مضبوط ہو، تو لوگ اپنے گھروں اورکاروباروں میں سرمایہ لگانے میں حائل خطرات سے بے نیاز ہو سکتے ہیں۔

اس سے مقامی سطح پر خوشحالی کی روایت پروان چڑھے گی، خالی رہ جانے والی زمینیں آباد ہوں گی، نوجوانوں کو روزگارکے نئے مواقع ملیں گے اور دہشت گردی کے خول خود بہ خود تحلیل ہونے لگیں گے، یہ سب کچھ ممکن ہو پائے گا اگر انسدادِ دہشت گردی میں ایک حقیقی، مضبوط اور متوازن اقدامات کا تسلسل ہو۔

ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس طرح کا تعاون پاکستان کو خود کفیل بنا سکتا ہے۔ امریکا کے تعاون سے نہ صرف فوری حل ملے گا بلکہ پاکستان کی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا کہ مستقبل میں وہ خود اپنی زمین، ہواؤں اور سمندروں پر جاری خطرات کا مؤثر مقابلہ کر سکے، اگرچہ بیرونی تعاون اہم ہے، لیکن اس تعاون کا صحیح ڈھانچہ، مشترکہ اہداف اور واضح افقی منصوبہ بندی ہی اس تعاون کو پائیداری عطا کرے گی۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس تعاون کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کے لیے شفاف انداز سے اپنی ضروریات، ترجیحات اور اہداف امریکی شراکت داروں کے سامنے رکھے، تاکہ طویل المدتی تعاون کا توازن اور استحکام برقرار رہ سکے۔ امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی پوزیشن کو مضبوط بنا سکتے ہیں، خاص طور پر اقتصادی محاذ پر جہاں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات میں امریکا کا اثر و رسوخ کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پاکستان کے حصے کا پانی نہیں روک سکتا۔ پڑوسی ملک نے ہمارا پانی بند کرنے کی دھمکی دی ہے لیکن وہ پاکستان سے ایک بوند پانی بھی نہیں چھین سکتا، اگر دوبارہ کوئی ایسی حرکت کی تو وہ حشر کریں گے کہ کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔ بلاشبہ وزیراعظم شہباز شریف کے حالیہ بیان نے قومی وقار، سلامتی اور پانی جیسے بنیادی حق سے جڑی حساسیت کو بھی ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کا پانی نہیں روک سکتا اور اگر ایسی کوئی کوشش کی گئی تو اس کا ایسا انجام ہوگا کہ دشمن کو خود اپنی حرکت پر شرمندگی ہوگی۔ یہ الفاظ محض ایک سیاسی رد عمل نہیں بلکہ ایک قوم کی طرف سے اپنے قدرتی وسائل اور قومی مفادات کے دفاع کا اعلان ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جس پر عالمی بینک کی گواہی بھی موجود ہے۔ اس کے تحت تین مشرقی دریا بھارت کے سپرد کیے گئے اور تین مغربی دریا پاکستان کے حصے میں آئے۔

برسوں سے یہ معاہدہ خطے میں پانی کی تقسیم کے سلسلے میں ایک مستند حوالہ رہا ہے، مگر وقتاً فوقتاً بھارت کی طرف سے ایسے اقدامات سامنے آتے رہے ہیں جنھیں پاکستان نے معاہدے کی روح کے منافی قرار دیا۔ حالیہ بھارتی رویہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں دشمن ملک کی طرف سے مبینہ طور پر پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دی گئی ہے۔

پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں، یہ ہماری زراعت، صنعت، معیشت اور روزمرہ زندگی کا بنیادی ستون ہے۔ پاکستان کا زیادہ تر انحصار ان ہی مغربی دریاؤں پر ہے جن کا بہاؤ معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے مخصوص کیا گیا ہے، اگر دشمن ملک ان دریاؤں پر بند باندھنے یا ان کا رخ موڑنے کی کوشش کرے تو یہ نہ صرف ایک بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ پاکستان کے کروڑوں عوام کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

یہ معاملہ صرف سفارتی یا سیاسی نوعیت کا نہیں بلکہ انسانی حقوق، ماحولیاتی توازن اور علاقائی سلامتی کا بھی ہے۔ پاکستان کو نہ صرف عالمی سطح پر اس مسئلے کو مؤثر انداز میں اٹھانا چاہیے بلکہ اندرونی طور پر بھی آبی وسائل کے تحفظ اور منصفانہ تقسیم کے لیے فوری اور مستقل بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں صرف دشمن کی سازشوں سے باخبر رہنا نہیں، بلکہ اپنے نظام کو اس قابل بھی بنانا ہوگا کہ وہ کسی ممکنہ خطرے کا بروقت اور مؤثر انداز میں جواب دے سکے۔یہ امر بھی خوش آیند ہے کہ حکومت نے بین الاقوامی سطح پر مؤثر سفارت کاری کے ذریعے اپنے مؤقف کو اجاگرکرنے کا عندیہ دیا ہے۔

اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور عالمی آبی اداروں کو متحرک کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ بھارت کو یہ باورکرانا ہوگا کہ وہ عالمی قوانین اور معاہدوں کی خلاف ورزی کرکے خود اپنی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ پاکستان، ایک ذمے دار ریاست ہونے کے ناتے، ہمیشہ سے پرامن مذاکرات اور قانونی چارہ جوئی پر یقین رکھتا ہے، اگر اس کے بنیادی حقوق پر حملہ کیا جائے گا تو وہ اپنے دفاع میں کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرے گا۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم محض ردعمل دینے کے بجائے ایک طویل المدت آبی پالیسی مرتب کریں، جس میں پانی کی ذخیرہ اندوزی، منصفانہ تقسیم، بارش کے پانی کا استعمال اور زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال جیسے اقدامات شامل ہوں۔ ہمیں اپنے دریاؤں کی حفاظت کے لیے صرف سیاسی بیانات پر نہیں، عملی اقدامات پر انحصارکرنا ہوگا۔

ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ پانی کا مسئلہ آنے والے برسوں میں مزید شدت اختیارکرے گا۔ اقوام عالم اس وقت ایک ماحولیاتی بحران کی لپیٹ میں ہیں، اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ بحران دوگنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہم اب بھی اگر بیدار نہ ہوئے تو کل ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ بچے گا۔

وزیراعظم نے ایک قومی مؤقف پیش کیا ہے۔ اب یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ اس مؤقف کو مضبوطی، حکمت اور تدبر کے ساتھ آگے بڑھائیں، اگر ہم نے متحد ہو کر، درست سمت میں اقدامات کیے، تو کوئی طاقت ہمارے دریاؤں کا رخ موڑ نہیں سکتی اور اگر ہم نے غفلت کی، تو شاید ہمارا کل، آج سے بھی زیادہ پیاسا ہو۔

قوم کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر اپنے اداروں پر بھروسا رکھے اور حکومت کو اس نازک مسئلے پر بھرپور حمایت فراہم کرے۔ یہ وقت قومی یکجہتی، بصیرت اور عمل کا ہے۔ پانی ہماری زندگی ہے، اور زندگی پر سودے بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سچن ٹنڈولکر کے بیٹے کی معروف بزنس مین کی پوتی سے منگنی
  • قومی اسمبلی: انسداد دہشت گردی بل منظور، فورسز مشکوک شخص کو 3 ماہ قید رکھ سکیں گی: یوم آزادی، معرکہ حق پر قرارداد منظور
  • پشاور، تھانے اور پولیس چوکیوں پر دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنا دیا گیا، ایک اہلکار شہید
  • انسداد دہشت گردی ترمیمی بل منظور؛ فورسز کو کسی بھی شہری کو 3 ماہ تک حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل
  • تعاون انسداد دہشت گردی اور پانی کا مسئلہ
  •  وزیراعظم،صدرکا بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردوں کی ہلاکت پر فورسز کو خراجِ تحسین 
  • بی ایل اے بے نقاب: دہشت گردی اور مودی کی پشت پناہی کا گٹھ جوڑ
  • صدر اور وزیراعظم کا بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردوں کی ہلاکت پر سیکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین
  • صدر آصف علی زرداری کا ژوب میں بھارتی سپانسرڈ دہشت گردوں کی ہلاکت پر سکیورٹی فورسز کو خراجِ تحسین
  • پاکستان نے فیلڈ مارشل سےمنسوب باتوں پر بھارتی وزارت خارجہ کا بیان مسترد کردیا