غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں اور اسرائیلی بمباری بھی جاری
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جون 2025ء) غزہ پٹی کے شمالی علاقے کے رہائشیوں نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب کیے گئے اسرائیلی حملوں کو حالیہ ہفتوں میں کی گئی بدترین بمباری قرار دیا۔ یہ تازہ حملے اسرائیلی فوج کی جانب سے چند گھنٹے قبل وسیع پیمانے پرانخلاء کے احکامات جاری کیے جانے کے بعد کی گئی۔ اُدھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جنگ کے خاتمے کی اپیل کے بعد اسرائیلی حکام واشنگٹن میں نئی جنگ بندی کوششوں کے لیے موجود ہیں۔
صدر ٹرمپ کی جانب سے 20 ماہ پر محیط جنگ کے خاتمے کی اپیل کے ایک دن بعد اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے قریبی ساتھی اور اسٹریٹیجک امور کے وزیر رون ڈرمر وائٹ ہاؤس پہنچیں گے۔ ان کے ایجنڈے میں غزہ میں جنگ بندی، ایران سے متعلق امور اور ممکنہ علاقائی سفارتی معاہدے شامل ہیں۔
(جاری ہے)
مزید پچیس فلسطینی ہلاکتاہم غزہ کی پٹی میں زمینی صورتحال اس کے برعکس ہے، جہاں لڑائی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔
غزہ سٹی کے رہائشی 60 سالہ صلاح نے بتایا، ''دھماکے رکے ہی نہیں، اسکولوں اور گھروں پر بمباری کی گئی، یوں لگا جیسے زلزلہ آ رہا ہو۔ خبروں میں سن رہے ہیں کہ جنگ بندی قریب ہے لیکن زمین پر ہمیں موت اور دھماکے سنائی دیتے ہیں۔‘‘مقامی رہائشیوں کے مطابق اسرائیلی ٹینک مشرقی غزہ سٹی کے علاقے زیتون میں داخل ہوئے اور شمالی حصوں میں کئی مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ جنگی طیاروں نے چار اسکولوں پر بمباری کی، جن میں پناہ گزین سینکڑوں خاندانوں کو بمباری سے قبل نکلنے کا حکم دیا گیا تھا۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق پیر کے روز اسرائیلی حملوں میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 10 زیتون کے علاقے میں مارے گئے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا، تاہم فوج کا کہنا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند شہری آبادی میں چھپے ہوتے ہیں، جس کی عسکری گروہ تردید کرتے ہیں۔
اس تازہ بمباری سے قبل اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے وسیع علاقوں میں انخلاء کے نئے احکامات جاری کیے، جہاں پہلے بھی کارروائیاں ہو چکی ہیں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیل چکی ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ وہ شمالی غزہ، خاص طور پر غزہ سٹی کے اندر موجود حماس جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کرے گی۔ آئندہ اقداماتٹرمپ کے اس بیان، ''غزہ میں معاہدہ کریں، یرغمالیوں کو واپس لائیں‘‘ کے ایک دن بعد اسرائیلی وزیر رون ڈرمر کی پیر کو وائٹ ہاؤس آمد متوقع ہے، جہاں ایران اور غزہ سے متعلق بات چیت طے ہے۔ دوسری جانب اسرائیل میں نیتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ غزہ سے متعلق آئندہ اقدامات پر غور کے لیے اجلاس منعقد کرنے والی ہے۔
جمعے کے روز اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کہا تھا کہ زمینی کارروائی اپنے اہداف کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ اتوار کو نیتن یاہو نے کہا کہ یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے نئے امکانات سامنے آئے ہیں، جن میں سے 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔
فلسطینی اور مصری ذرائع کے مطابق قطر اور مصر کی جانب سے جنگ بندی کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں، تاہم فریقین کے درمیان نئے مذاکرات کی کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی۔
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک عہدیدار نے کہا کہ جنگ بندی کی جانب پیش رفت کا انحصار اسرائیل کے موقف کی تبدیلی پر ہے، خاص طور پر جنگ کے خاتمے اور فوجی انخلاء پر آمادگی پر۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جنگ کا خاتمہ صرف اس وقت ہوگا جب حماس کو غیر مسلح اور تحلیل کر دیا جائے، جسے حماس تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے۔
یہ جنگ سات اکتوبر 2023 ءکو اس وقت شروع ہوئی تھی، جب حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر اچانک حملہ کر کے 1,200 افراد کو ہلاک کر دیا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، اور 251 افراد کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے۔
یہ اسرائیل کی تاریخ کا سب سے خونی دن تھا۔اس کے ردعمل میں اسرائیلی فوجی کارروائی نے اب تک غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 56,000 سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ اس جنگ نے 23 لاکھ آبادی والے غزہ کو مکمل انسانی بحران کا شکار بنا دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کا 80 فیصد سے زائد علاقہ یا تو اسرائیلی فوج کے زیر کنٹرول ہے یا وہاں انخلاء کے احکامات نافذ ہیں۔
شکور رحیم روئٹرز کے ساتھ
ادارت: عاطف توقیر، رابعہ بگٹی
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی فوج کی جانب سے کے مطابق کہ جنگ کی گئی
پڑھیں:
اسرائیلی فوج کے انخلا اور جنگ بندی کی شرط پر تمام یرغمالیوں کی رہائی کیلیے تیار ہیں؛ حماس
حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر اپنا جواب ثالثوں کے پاس جمع کرادیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے حماس نے یہ مختصر ردعمل اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حماس کا باضابطہ اور تفصیلی جواب چند گھنٹوں میں متوقع ہے۔ جواب کے لیے صدر ٹرمپ نے حماس کو اتوار 6 بجے تک کا وقت دیا تھا۔
حماس نے بیان میں کہا کہ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر اپنی آمادگی کی توثیق کرتے ہیں لیکن فوری طور پر ثالثی ممالک کے ذریعے اس معاہدے پر مزید مذاکرات کے خواہ ہیں۔
حماس نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ پر اپنی جنگ ختم کرے اور اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا یقینی بنایا جائے تو وہ تمام اسرائیلی قیدیوں چاہے وہ زندہ ہوں یا ہلاک ہوچکے کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ایک آزاد فلسطینی ماہرین (ٹیکنوکریٹس) پر مشتمل عبوری ادارے کو منتقل کرنے پر تیار ہیں بشرطیکہ یہ ادارہ "فلسطینی قومی اتفاق رائے اور عرب و اسلامی حمایت" کی بنیاد پر تشکیل پائے۔
حماس کا مزید کہنا ہے کہ ٹرمپ منصوبے میں غزہ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق سے متعلق دیگر امور کا فیصلہ ایک جامع فلسطینی قومی فریم ورک کے تحت ہوگا۔
حماس نے مطالبہ کیا کہ اس فریم ورک میں تمام فلسطینی دھڑوں کو شامل کیا جائے گا اور حماس بھی "ذمہ دارانہ کردار" ادا کرے گی۔ تمام فیصلے متعلقہ بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کے مطابق کیے جائیں گے۔