بجٹ میں ٹیکس و ٹیرف میں کمی، آزاد معیشت کی جانب مثبت پیشرفت
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
بجٹ 2025-26 میں حکومت نے درآمدی ڈیوٹی میں مرحلہ وار کمی، اضافی محصولات کے خاتمے اور سادہ ٹیرف سلیب متعارف کروانے کا اعلان کیا ہے، جس سے آئندہ پانچ برسوں میں مسابقتی معیشت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔تاہم کاروباری طبقے نے ان اصلاحات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، وفاقی بجٹ میں سرکاری اخراجات کم کر کے 22.6 فیصد جی ڈی پی تک محدود کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے مگر حکومتی ڈھانچے میں کمی کا واضح منصوبہ سامنے نہیں آیا۔دوسری جانب انکم ٹیکس کی شرح میں خاطر خواہ کمی نہیں کی گئی، جس سے کم منافع والے بڑے کاروباروں پر بھاری بوجھ برقرار رہے گا۔ جمہوری عمل میں اہم پیشرفت کے طور پر پہلی بار قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے فنانس بل پر شق وار جائزہ لیا اور کئی سفارشات منظور کی گئیں، جن میں سولر پینلز پر جی ایس ٹی کم کرنا اور ٹیکس دہندگان کے حقوق کا تحفظ شامل ہے۔معاشی ماہرین نے پارلیمانی بجٹ آفس کے قیام کو وقت کی ضرورت قرار دیا ہے تاکہ بجٹ سازی میں تحقیق پر مبنی فیصلے ممکن ہو سکیں۔ بجٹ میں اصلاحات اور جمہوری عمل کی شمولیت کو ایک مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
عوام ’’دوست‘‘ حکومتی اقدامات اور پیپلز پارٹی
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت نے ہماری تجاویز مان لیں، اس لیے ہم نے بجٹ کو سپورٹ کیا۔
حکومت نے ایف بی آر اختیارات میں ترمیم اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام فنڈ میں اضافہ جو 20 فی صد تھا منظور ہونے کے بعد پیپلز پارٹی نے بجٹ منظور کرایا ہے اور پیپلز پارٹی کے کہنے پر وزیر اعظم میاں شہباز شریف ہر سال بے نظیر انکم سپورٹ کی رقم پر اضافہ کرتے آ رہے ہیں جس کی وجہ سے مستحقین کو بڑا فائدہ ہو رہا ہے۔ ہماری تجاویز کی منظوری کے بعد ہی پیپلز پارٹی نے نئے بجٹ کو پاس کرانے میں اپنا کردار ادا کیا جس سے حکومت کو مطلع کر دیا گیا تھا۔
نئے بجٹ پر پیپلز پارٹی کے کچھ تحفظات تھے جنھیں دور کرنے کے لیے بلاول بھٹو اور اسحاق ڈار نے اتفاق کیا ہے جس کے بعد وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنا یہ دوسرا بجٹ منظور کرایا اور حکومت نئے بجٹ پر 201 ممبران قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی جب کہ اپوزیشن کے 57 ممبران اسمبلی نے بجٹ کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
حکومت نے اپوزیشن کی پیش کردہ ترامیم اکثریت رائے سے مسترد کر دیں اور حکومت نے پیپلز پارٹی کی مشاورت سے اپنا بجٹ منظور کرا لیا۔ نئے بجٹ میں حکومت سولر پینلز کی درآمد پر 18 فی صد سیلز ٹیکس لگانا چاہتی تھی جس پر پیپلز پارٹی نے ٹیکس کی مخالفت کی تھی مگر بعد میں پیپلز پارٹی یہ ٹیکس ختم تو نہ کرا سکی اور حکومت صرف 8 فی صد ٹیکس کم کرنے پر راضی ہوئی اور حکومت نے سیلز ٹیکس دس فی صد کر دیا اور نان فائلرز کے لیے حکومت سخت پالیسی نافذ نہ کرا سکی جس پر ملک کی تاجر برادری اور پیپلز پارٹی کے تحفظات تھے جس کے بعد حکومت نے نان فائلرز کو 70 لاکھ روپے تک کی کاریں خریدنے کی اجازت دے دی اور رہائشی املاک کے مالکان کو 6.5 فی صد ہولڈنگ ٹیکس سے بھی مستثنیٰ قرار دینا پڑا۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا میاں شہباز شریف کی قیادت میں یہ دوسرا بجٹ منظور ہوا جو پہلی بار وزیر خزانہ بننے والے غیر سیاسی شخصیت محمد اورنگزیب نے پیش کیا اور نان فائلرز کے خلاف حکومتی پالیسی بہت ہی سخت رہی اور ایف بی آر کی ریکوری کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے نان فائلرز کے لیے جو پالیسی بنانا چاہی تھی اس میں اس بار بھی کامیاب نہ ہو سکی۔
کے پی کے مشیر خزانہ کا کہنا ہے کہ رواں سال وفاق نے ایک کھرب سے کم ٹیکس جمع کیا جس کی وجہ سے ہمارے لیے 90 ارب کی کمی ہوئی ہے۔ عشروں سے یہی دیکھا جا رہا ہے کہ ایف بی آر اپنے اہداف کی وصولی میں کامیاب نہیں رہی مگر اعداد کے ہیر پھیر سے کامیابی ظاہر کی جاتی رہی ہے اور من پسند افسروں پر نوازشات تو جاری رہیں جنھوں نے اپنے مقررہ اہداف حاصل کیے ان کی کارکردگی کی تعریف تو اصولی طور ہونی چاہیے مگر جو افسران اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہے ہیں ان کے خلاف ایف بی آر کی جانب سے کارروائی کی نہیں جاتی جب کہ اہداف کے حصول میں ناکام رہنے والوں کی نااہلی پر ان کے خلاف کارروائی کی تشہیر ہونی چاہیے تاکہ دوسروں کو سبق حاصل ہو۔
ٹیکس نہ دینا بھی غلط ہے مگر نان فائلرز فائلر بن کر ٹیکس کیوں ادا نہیں کرتے ٹیکس چوری کرتے ہیں اور ایف بی آر کے شکنجے میں کیوں کتراتے ہیں،حکومت کو اس کی وجوہات جاننے پر سب سے پہلے توجہ دینی چاہیے تھی کہ چھوٹے بڑے تاجر اور صنعتکار ٹیکس کیوں اور پورا ادا نہیں کرتے۔ ٹیکس سے کیوں بچا جاتا ہے یا ٹیکس کم کیوں مل رہا ہے اس کی وجوہات چھپی ہوئی نہیں حکومت کو بھی حقائق کا علم ضرور ہوگا اگر نہیں ہے تو وہ متعلقہ افراد سے مل کر معلومات لے کر ٹیکس وصولی کا آسان راستہ نکال سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے نئے بجٹ کی منظوری کے لیے دباؤ ڈال کر حکومت سے اس بار بھی 20 فی صد رقم بڑھوا لی ہے جس کا اسے مزید سیاسی فائدہ ہوگا اور بعض علاقوں میں اس کا ووٹ بینک بھی بڑھے گا مگر پیپلز پارٹی سولر پینلز پر سیلز ٹیکس حکومت سے مکمل ختم نہ کرا سکی کیونکہ اس کا اسے سیاسی فائدہ نہیں ہونا تھا اگر پی پی عوام کا اجتماعی مفاد پیش نظر رکھتی تو یہ ٹیکس مکمل طور پر ختم کرا سکتی تھی ۔
موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی آڑ لے کر عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے سہولیات ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے کیونکہ حکومتی عہدیداروں کو سولر پینلز کی ضرورت نہیں ، سولر پینلز کی ضرورت ان لوگوں کو ہے جو لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں اور بجلی کے بھاری بل مجبوراً ادا کر رہے ہیں اور سولر پینلز لگوا کر اپنا یہ مسئلہ حل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں تو حکومت نے سولر پینلز پر سیلز ٹیکس لگا کر یہ سہولت مہنگی کرا دی جب کہ حکومت پر اعتماد کرکے جن لوگوں نے لاکھوں روپے سے سولر پینلز لگا کر اپنی بجلی کی ضرورت پوری کی تھی اور اپنی فاضل بجلی حکومت کو فروخت کرکے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرانے کی کوشش کی تھی ان کی کوشش کو سراہنے کے بجائے حکومت نے ان سے خریداری کا نرخ کم کر دیا جب کہ حکومت خود بجلی کے من مانے نرخ وصول کر رہی ہے۔
بجٹ منظوری میں ایم کیو ایم کہاں غائب رہی وہ تو سالوں سے غیر قانونی طور پر نافذ کوٹہ سسٹم بھی ختم نہ کرا سکی۔ پیپلز پارٹی اگر چاہے تو وہ مزید ٹیکس ختم کرا سکتی تھی جس پر بلاول بھٹو کا اسحاق ڈار سے اتفاق بھی ہوا ہے اس لیے پیپلز پارٹی کو حکومت کے مزید عوام دشمن اقدامات ختم کرانے چاہئیں۔