کراچی:
’’ایک ارب 80 کروڑ روپے یہ رقم تو بہت زیادہ ہے، اگر بھارت نے حصہ نہیں لیا تو ایشیا کپ تو شاید ہو ہی نہیں سکے گا‘‘
پاکستانی ٹی وی چینل کے نمائندے نے جب حیرت سے بھارتی براڈ کاسٹر سے یہ پوچھا تو جواب ملا ’’ فکر نہ کریں ٹورنامنٹ ستمبر میں ہی ہوگا،ہماری ٹیم بھی شرکت کرے گی‘‘
یہ بات چیت حال ہی میں ہوئی ہے،پاکستان میں اس وقت چار اسپورٹس چینلز ہیں، ان میں سے ایک سرکاری ٹی وی کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں، دوسرا چینل ماضی میں بلیک لسٹ ہو کر اب پرانی ویڈیوز دکھا کر ہی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے، حال ہی میں ایک انٹرنیشنل اسپورٹس چینل سے الحاق یافتہ جبکہ ایک اور میڈیا گروپ ہی رائٹس کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں، ہماری مارکیٹ بڑی نہیں،ایسے میں اربوں روپے کی لاگت وصول کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ثابت ہو گا۔
خیر ہمارا ٹاپک یہ نہیں، ہمارے لیے اس میں مثبت بات ایشیا کپ کے حوالے سے مثبت اشارے ہیں، جنگ میں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارتی میڈیا نے یہ خبریں اڑائی تھیں کہ ٹیم ایشیائی مقابلوں کا حصہ نہیں بنے گی، البتہ بی سی سی آئی نے باضابطہ طور پر ایسی رپورٹس کو مسترد کر دیا تھا۔
حال ہی میں ویمنز ورلڈکپ کیلیے پاک بھارت ٹیموں کو آئی سی سی نے ایک ہی گروپ میں شامل کیا جس پر پڑوسی ملک میں کوئی شور نہ مچا، جونیئر ہاکی ورلڈکپ میں بھی پاکستانی ٹیم کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، پاکستان اور بھارت میں میڈیا مینجمنٹ الگ انداز سے ہوتی ہے، بھارت میں کرکٹ بورڈ حکام شازونادر ہی سامنے آتے ہیں، وہ صحافیوں کو خبریں فیڈ کر کے ذرائع کے حوالے سے چلواتے ہیں، جیسا چیمپئنز ٹرافی کے دوران ہوا۔
پی سی بی حکام پھر بھی کبھی کبھار میڈیا سے بات کر ہی لیتے ہیں، ایشیا کپ کے حوالے سے بھارتی میڈیا آج کل منفی خبریں نہیں دے رہا، اس کا مطلب ہے انھیں بھی بی سی سی آئی سے یہی اشارے ملے ہیں کہ ایونٹ ہوگا۔
ایشیائی کرکٹ کے 8 سالہ میڈیا رائٹس گذشتہ برس ہی 170 ملین ڈالر کے عوض بھارتی میڈیا گروپ کو جے شاہ نے ہی فروخت کیے، جنگ تو ابھی ہوئی اس سے پہلے دونوں ممالک کے تعلقات کون سے مثالی تھے؟ اس کے باوجود اتنا بڑا معاہدہ ہوا جس میں چار ایشیا کپ اور دیگر ویمن اور جونیئر ایونٹس شامل ہیں ، ہر میں روایتی حریفوں کے کم از کم 2 میچز کا یقین دلایا گیا ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ سونی کو بھی بی سی سی آئی کی جانب سے اب یہی کہہ دیا گیا ہے کہ ڈرو نہیں ہماری ٹیم ایشیا کپ میں کھیلے گی، باہمی تعلقات جتنے بھی خراب ہوں آج تک بھارتی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کیخلاف آئی سی سی ایونٹ میں مقابلے سے کبھی انکار نہیں کیا، اس کی واحد وجہ میڈیا رائٹس ہیں جو بھارتی چینلز کے پاس ہی ہوتے ہیں۔
اربوں روپے کی سرمایہ کاری کو ایسے ضائع نہیں کیا جا سکتا، اس وقت ’’دشمنی‘‘ بھلا دی جاتی ہے، اتنے بڑے معاہدوں میں ظاہر ہے سیاست دانوں کا بھی شیئر ہوتا ہوگا لہذا وہ بھی اعتراض نہیں کرتے، خوش قسمتی سے پاکستان کبھی کھیلوں میں سیاست کو نہیں لاتا، ہماری حکومت بھی نہیں کہتی کہ اس سے کھیلو اس کیخلاف نہ کھیلو،اس واضح پالیسی کی وجہ سے بورڈ کو فیصلے کرنے میں مشکل نہیں ہوتی۔
اس بار ایشیا کپ کا بھارت میزبان ہے اور رپورٹس کے مطابق وہ امارات کرکٹ بورڈ سے میچز کرانے کیلیے بات بھی کر چکا،12 سے28 ستمبر تک انعقاد متوقع ہے، پہلے بھی ایشیا کپ دبئی میں ہو چکا اب بھی ایسا ممکن ہوگا، پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ملک میں نہ جانے اور نیوٹرل وینیو پر کھیلنے کا معاہدہ کر چکے ہیں،ایشیائی ایونٹ پر بھی اس کا اطلاق ہوگا۔
پاک بھارت کرکٹ تعلقات میں توازن لانے کا کریڈٹ محسن نقوی کو جاتا ہے، انھوں نے چیمپئنز ٹرافی سے قبل واضح موقف اپنایا جس پر بھارت معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا،ورنہ ہماری ٹیم تو آئی سی سی ایونٹس کیلیے وہاں جاتی تھی وہ نہیں آتے تھے۔
اب بی سی سی آئی کو بخوبی علم ہے کہ وہ جیسا کرے گا پاکستان کی جانب سے زیادہ سخت ردعمل سامنے آئے گا، اس لیے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ستمبر میں ایشیائی کرکٹ کے حکمران کا تعین کرنے کیلیے میدان سجے گا، البتہ بھارت کا کوئی بھروسہ نہیں، کیا پتا عین وقت پر وہ کوئی شرارت کر دے اس لیے محسن نقوی کو بطور ایشیائی کرکٹ چیف پلان بی بھی تیار رکھنا ہوگا۔
ویسے بھی جنگ میں بھارت کا جو حال ہوا اسے اندازہ ہو گیا ہے کہ اب کرکٹ میچ میں ہی پاکستان کو ہرا کر اپنی عوام کو کوئی خوشی فراہم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے، یا اکشے کمار یا اجے دیوگن کی ایک، دو فلمیں بنا کر ان میں خیالی کامیابی سے اپنی قوم کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔
خیر جو بھی ہو شائقین کیلیے روایتی حریفوں کے میچز ہمیشہ دلچسپی کا باعٹ ہوتے ہیں اب بھی یہی توقع ہے، پاکستانی تو ویسے ہی کرکٹ کے منتظر ہیں، حیرت اس بات کی ہے کہ پی ایس ایل سے قبل سیریز رکھ کر اپنے کھلاڑیوں کو تھکا دیا گیا اور اب کوئی میچ ہی نہیں ہے۔
اگر بنگلہ دیش جولائی میں تین اضافی ٹی 20 میچز کھیلنے پر آمادہ نہ ہوتا تو یہ آف سیزن مزید طویل ہو جاتا، ان دنوں بیشتر ٹیمیں کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہیں،زمبابوے تک کے میچز ہو رہے ہیں اور ہماری ٹیم فارغ ہے،ایک اسٹار کھلاڑی اپنے شوروم مالک دوست کے ساتھ یورپ میں چھٹیاں منا رہے ہیں، دیگر کہیں اور ٹائم پاس کر رہے ہیں، گوکہ کیمپ تو لگایا گیا لیکن اس کا کوئی اتنا زیادہ فائدہ نظر نہیں آتا، بورڈ کے بھی بعض آفیشلز لاہور کی گرمی سے تنگ آ کر بیرون ملک جا چکے۔
آج کل زیادہ فراغت والا دور نہیں ہے، 15،20 دن کا آرام کافی ہوتا پھر چند میچز رکھ دیتے،آئندہ فیوچر ٹور پروگرام کے حوالے سے بھی پاکستان کو خاصی محنت کی ضرورت ہے، سمیر سید کو کرکٹ کا علم نہیں لہذا پرانے آفیشلز کو ان کی رہنمائی کرتے رہنا چاہیے، میدان آباد ہی اچھے لگتے ہیں،کیمپ میں جو بھی کر لیں میچ کی بات ہی الگ ہے، ایشیا کپ اور پھر ٹی ٹوئنٹی کا ورلڈکپ بھی ہوگا، اس کی تیاری بنگلہ دیش کو ہرا کر ممکن نہیں مضبوط ٹیموں سے جتنے میچز ہوئے اتنا ہی فائدہ ہوگا۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے حوالے سے ہماری ٹیم ایشیا کپ
پڑھیں:
کرکٹ کو سیاسی میدان کی جنگ نہ بنایا جائے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارت اس وقت پاکستان کے تناظر میں سیاسی، دفاعی اور ابلاغ سمیت عالمی سفارت کاری کے محاذ پر پسپائی کا شکار ہے اور بھارت کو غصہ ہے کہ عالمی اور بالخصوص علاقائی سیاست میں اس کے پاس پاکستان کے خلاف برتری کا پہلو کمزور ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بھارت کا مجموعی مزاج پاکستان مخالفت کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کی ایک جھلک ہمیں حالیہ ایشیا کپ کے مقابلوں میں ملی جہاں بھارت نے یقینی طور پر کرکٹ کے میدان میں پاکستان پر اپنی برتری کو قائم کیا اور لگاتار تین میچوں میں پاکستان کو شکست دی۔ لیکن کھیل کے اس منظر نامے میں بھارت کی برتری کے باوجود اس کی سفارتی برتری یا کھیل کے میدان میں بھارت کے کرکٹ بورڈ، ٹیم اور مینجمنٹ سمیت ان کے میڈیا نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بھارت کا مجموعی رویہ پاکستان دشمنی پر مبنی تھا اور پہلے ہی میچ سے بھارت نے اپنے ہر عمل سے کرکٹ کے شائقین کو مایوس کیا اور ظاہر کیا کہ وہ کرکٹ کھیلنے سے زیادہ پاکستان دشمنی کا ایجنڈا رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے تینوں میچوں میں کیا۔ میچ سے قبل دونوں کپتانوں کا ٹاس کے بعد ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا اور میچ کے بعد نتیجہ کچھ بھی ہو ٹیم کا ایک دوسرے کے کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانا کرکٹ کے کھیل کی روایت ہے اور کسی بھی ٹیم نے کبھی بھی اس روایت سے انحراف نہیں کیا، مگر بھارت کی کرکٹ ٹیم اور ان کی مینجمنٹ نے جیت کے باوجود یہ سب کچھ کیا جس کوکرکٹ کی تاریخ میں کوئی اچھی مثال نہیں کہا جاسکتا اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر بھارت کے کپتان نے میچ جیت کر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاوجہ پاک بھارت کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے سیاست کو موضوع بحث بنایا، اس کی بھی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ ایشیا کپ کے فائنل میں تو بھارت کی ٹیم نے حد ہی کردی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ محسن نقوی سے ٹرافی لینے ہی سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ اگر ٹرافی کو وصول کریں گے تو کسی اور مہمان سے لی جائے گی۔ بھارت کی ٹیم کے اس مایوس کن طرز عمل کی وجہ سے ٹرافی کی تقریب منعقد نہ ہوسکی اور عملی طور پر ایشیا کپ کے منتظمین کو ٹرافی فاتح ٹیم کو دیے بغیر واپس لے جانا پڑی۔ یقینی طور پر بھارت کے کپتان، کھلاڑیوں، مینجمنٹ نے جو کچھ ایشیا کپ کے دوران منفی طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہ بھارت کی حکومت کی سرپرستی یا ان کے حکم کے بغیر نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کرکٹ سے جڑے تمام ماہرین جن میں بھارت کے سابق کھلاڑی اور کمنٹیٹر بھی شامل تھے سب نے مل کر بھارت کے اس طرز عمل پر نہ صرف سخت تنقید کی بلکہ اسے کرکٹ کے کھیل کو سیاست کی نذر کرنے اور کھیل کے خلاف ایک بڑی سازش کے طور پر پیش کیا ہے۔ بھارت کے کرکٹ ماہرین کے بقول اگر یہ سب کچھ بھارت کی ٹیم کو کرکٹ کے میدان میں کرنا تھا تو بہتر تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اس ٹورنامنٹ میں کھیلنے ہی سے انکار کردیتی تاکہ بھارت کو عالمی سطح پر ایک بڑی سیاسی سبکی یا شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ آئی سی سی کو بھارت کے ایشیا کپ کے مجموعی طرز عمل پر سخت ایکشن لینا چاہیے تاکہ مستقبل میںکوئی بھی حکومت اپنی سیاست کو کرکٹ کی نذر نہ کرے اور نہ ہی عملاً کرکٹ کو سیاست میں بطور ہتھیار استعمال کیا جائے۔ ایک زمانے میں دو ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری میں کرکٹ کو بطور ڈپلومیسی استعمال کیا جاتا تھا اور جنرل ضیا الحق مرحوم کے دور میں کرکٹ ڈپلومیسی کی اصطلاح بھی استعمال ہوئی تھی۔ لیکن اب بدقسمتی سے بھارت نے کرکٹ ڈپلومیسی میں تعلقات کو بہتر بنانے کے بجائے اسے سیاسی دشمنی کے کارڈ کے طور پر استعمال کیا ہے اور اگر آئی سی سی نے بھارت کے اس طرز عمل پر کوئی ایکشن نہ لیا تو مستقبل کی کرکٹ میں اسی طرح کے واقعات کی جھلک دیکھنے کو ملے گی اور اس کی ساری ذمے داری آئی سی سی پر ہوگی، کہا جاتا ہے کہ آئی سی سی پر بھارت کا کنٹرول زیادہ ہے اور آئی سی سی بھارت کے خلاف کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ کھلاڑیوں کو سیاست کی نذر کرنا اور ان کو یہ پیغام دینا ہے کہ ان کو پاکستان کے خلاف وہی کچھ کرنا ہے جو بھارت کی حکومت کہے گی، یہ صورت حال شرمناک ہے۔ آئی سی سی پر دنیا کے مختلف کرکٹ بورڈ کو بھی دبائو ڈالنا ہوگا کہ وہ بھارت کے اس طرز عمل پر کوئی نہ کوئی ایسا ایکشن لے جو مستقبل میں اس طرز کے واقعات کو کنٹرول کرنے میں مدد دے سکے۔ ایشیا کپ جیتنے کے بعد بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جس لب ولہجے میںگفتگو کی اور اس جیت کو آپریشن سیندور سے جوڑا اس کی بھی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے اور اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اصولی طور پر بھارت کے مجموعی رویے نے جہاں کرکٹ کے شائقین کو مایوس کیا وہیں اس کھیل کی حقیقی روح کو بھی مجروع کیا ہے۔ بھارت نے اس کھیل کو جس طرح پاکستان کے خلاف ایک جنگی بیانیہ کے طور پر پیش کیا وہ یقینی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ بھارت پاکستان دشمنی میں کس حد تک آگے جاسکتا ہے۔ بھارت نے پاکستان دشمنی میں کرکٹ جیسے کھیل کو بھی خراب کیا اور بھارت کی کرکٹ ٹیم کو بطور کھیلوں کے سفیر دنیا میں بدنام کیا ہے۔ اسی طرز عمل کی وجہ سے بھارت نے عملاً کرکٹ کے ان اصولوں اور روایات کو بھی پامال کیا ہے جو اپنی پہچان رکھتے تھے۔ کرکٹ ٹیموں میں مخالف ٹیم کے بارے میں جتنی بھی شدت یا غصہ ہو مگر انہوں نے کبھی بھی کرکٹ کے کھیل کے اصول اور روایات کو پامال نہیں کیا۔ لیکن بھارت کی حکومت نے یہ سب کچھ منفی بنیادوں پر کرکے کرکٹ کو نقصان پہنچایا ہے۔ ابھی تو بھارت نے ایشیا کپ پاکستان سے جیتا ہے اور اگر وہ یہ کپ پاکستان سے ہار جاتے تو نہ معلوم بھارت کی اپنی ٹیم سے وہ کیا منفی سلوک کرتے۔ بھارت کے کپتان نے کپ جیتنے کے بعد اپنے میچوں کی تمام آمدنی بھارت کی فوج کو دینے کا اعلان کرکے بھی وہی کچھ کیا جو بھارت کی حکومت کا ان پر حکم تھا۔ یہ سب کچھ جو بھارت اور ان کی ٹیم نے کیا وہ یقینی طور پر کرکٹ کو نقصان پہنچانے اور اس میں سیاست کا ماحول پیدا کرنے کا سبب بنے گا جس سے کرکٹ سیاست کا رنگ اختیار کرلے گی اور کھیل کے مثبت پہلوئوں کو نظر انداز کرکے کرکٹ میں سیاسی دشمنی کے رنگ کو نمایاں کیا جائے گا جو کرکٹ کے لیے ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی طرح بھارت کا میڈیا بھی پاکستان دشمنی میں نمایاں تھا اور جس طرح سے وہ پاکستان کی ٹیم اور کھیل کی تضحیک اور بھارت کا جشن منارہے تھے وہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ کھیل نہیں بلکہ ایک ملک کے خلاف دشمنی کے ساتھ اس میدان میں موجود ہیں۔ اب گیند بنیادی طور پر آئی سی سی کی کورٹ میں ہے اور اگر انہوں نے بھارت کے طرز عمل پر کوئی بڑا ایکشن نہ لیا تو اس سے کرکٹ اور خود آئی سی سی کی ساکھ بھی عالمی سطح پر بری طرح متاثر ہوگی۔