جسٹس سرفراز ڈوگر اسلام آبادہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس کیلئے متفقہ طور پرنامزد
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
اسلام آباد(صغیر چوہدری ) جسٹس سرفراز ڈوگر آئینی اور قانونی طور مستقل چیف جسٹس کے منصب کیلئے متفقہ طور پر کامیاب ہوگئے جوڈیشل کمیشن نے اکثریتی فیصلے کی روشنی میں تمام ابہام دور کردئیے۔جوڈیشل کمیشن نے جسٹس سردار سرفراز ڈوگر کو بھاری اکثریت سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مستقل چیف جسٹس کے لئے نامزد کردیا گیا جبکہ پشاور، سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹس کے مستقل چیف جسٹس کیلئے بھی ناموں کی منظوری دے دی گئی ۔۔ سپریم کورٹ کے سینئرجج جسٹس منصور علی شاہ کا اجلاس کی کارروائی کے دوران اعتراض سامنے آیا انہوں نے26ویں آئینی ترمیم پر فیصلہ پہلے کرنے کا مطالبہ کردیا لیکن جوڈیشل کمیشن ممبران نے اکثریت کی بنیاد پر انکی تجویز مسترد کردی چیئرمین جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت کمیشن کے اجلاس میں ،جوڈیشل کمیشن میں جسٹس ایس ایم عتیق شاہ کو چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ، جسٹس روزی خان کو چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ ، جسٹس جنید غفار کو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اور جسٹس سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس کی آغاز پر جسٹس منصور علی شاہ نے اعتراض کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ چیف جسٹسز کی تعیناتی سے پہلے چھبیسویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ ہونا چاہیے۔
ذرائع کے مطابق جسٹس منیب اختر، اپوزیشن کے دو ارکان بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر علی خان نے بھی جسٹس منصور شاہ کی رائے کی حمایت کی، وزیر قانون خیبرپختواہ نے بھی جسٹس منصور علی شاہ کی رائے سے اتفاق کیا۔ جوڈیشل کمیشن نے جسٹس منصور علی شاہ کی تجویز اکثریت کی بنیاد پر مسترد کردیا.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ کے حق میں ووٹ دیا جسٹس سرفراز ڈوگر مستقل چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کو چیف جسٹس کورٹ کے
پڑھیں:
یحییٰ آفریدی نے آئینی بینچ کا حصہ بننے سے کیوں معذرت کی؟ چیف جسٹس کا خط منظر عام پر
چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کا ایک خط منظرِ عام پر آیا ، جو انہوں نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے نام لکھا تھا۔ یہ خط اُس اجلاس کے بعد لکھا گیا جو 31 اکتوبر کو ہوا تھا، جس میں دونوں ججز نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کو فل کورٹ کے سامنے 4 نومبر کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے خط میں واضح کیا کہ انہوں نے آئینی بینچ کا حصہ بننے سے کیوں معذرت کی۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 191 اے کے تحت، آرٹیکل 184 (3) کے تحت دائر درخواستوں کو صرف “آئینی بینچ” ہی سن سکتا ہے، نہ کہ فل کورٹ۔ مزید کہا کہ کیس مقرر کرنے کا اختیار بھی صرف آئینی بینچ پر مشتمل ججز کی کمیٹی کو حاصل ہے، نہ کہ سپریم کورٹ کی عام ججز کمیٹی کو۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے 13 ججز سے اس بارے میں رائے لی، جن میں سے 9 ججوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کو فل کورٹ کے بجائے آئینی بینچ کے سامنے ہی سنا جانا چاہیے۔ یہ بات دونوں معزز ججز (جسٹس منصور اور جسٹس منیب) کو بھی بتا دی گئی۔
انہوں نے لکھا کہ فل کورٹ اجلاس بلانا مناسب نہیں سمجھا، کیونکہ اس سے ججز کے درمیان باہمی اعتماد متاثر ہو سکتا ہے اور عدالت کو غیر ضروری عوامی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انہیں دونوں ججز کی طرف سے خطوط تاخیر سے موصول ہوئے، جس میں انہوں نے درخواست کی کہ معاملے کو فل کورٹ کے سامنے سنا جائے۔ ان خطوط کو محفوظ رکھنے کے لیے چیف جسٹس نے انہیں جوڈیشل کمیشن کے سیکریٹری کے حوالے کر دیا تاکہ 5 نومبر 2024 کے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ان پر بات ہو سکے۔
انہوں نے خط کے آخر میں واضح کیا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے مطابق بینچز کی تشکیل صرف متعلقہ آئینی کمیٹی کا اختیار ہے، اور بغیر آئینی جواز کے فل کورٹ بنانا آئین کی خلاف ورزی ہوگا۔
Post Views: 11