27ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
27ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں سپریم جوڈیشل کونسل، جوڈیشل کمیشن اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی تشکیل نو کردی گئی۔
سپریم کورٹ نے اعلامیہ جاری کردیا، سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق دونوں چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے جسٹس جمال خان مندوخیل سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے ممبر بن گئے۔
جسٹس عامر فاروق جوڈیشل کمیشن کے ممبر نامزد کیے گئے، جسٹس جمال خان مندوخیل پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے ممبر نامزد کیے گئے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہونگے۔
چیف جسٹس امین الدین خان جوڈیشل کونسل کے دوسرے سینئر ممبر ہونگے، جسٹس منیب اختر جسٹس حسن رضوی، جسٹس جمال مندوخیل جوڈیشل کونسل کے رکن ہونگے، جسٹس مندوخیل کی نامزدگی دونوں چیف جسٹس نے مشاورت سے کی۔
چیف جسٹس یحیی آفریدی جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہونگے، چیف جسٹس امین خان جسٹس منیب اختر کمیشن کے رکن ہونگے، جسٹس حسن رضوی، جسٹس عامر فاروق جوڈیشل کمیشن کے ممبر بن گئے۔
ان کے علاوہ وزیر قانون اعظم تارڑ، اٹارنی جنرل منصور اعوان کمیشن کے رکن ہونگے، حکومتی اور اپوزیشن کے دو دو ارکان پارلیمان کمیشن کے رکن ہونگے، پاکستان کا بار کونسل نامزد وکیل اور اسپیکر قومی کی نامزد خاتون کمیشن کی ممبر ہونگے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جوڈیشل کونسل کے جوڈیشل کمیشن کے رکن ہونگے چیف جسٹس کمیشن کے کے ممبر
پڑھیں:
27ویں ترمیم کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 27 ویں ترمیم کو آئین سے متصادم قرار دیکر غیر آئینی قرار دیا جائے، 27 ویں ترمیم اور اسکے تحت ہونے والی کارروائیاں کالعدم قرار دی جائیں۔ درخواست کے حتمی فیصلے تک 27 ویں ترمیم پر عملدرآمد روکا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ 27ویں ترمیم کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی۔ بیرسٹر علی طاہر نے 27 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کیا ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم جلد بازی میں منظور اور نوٹفائی کی گئی۔ نوٹیفیکیشن کے اجراء کے اگلے ہی روز وفاقی آئینی عدالت کے ججز نے حلف اٹھا لیا۔ 27ویں آئینی ترمیم قانونی طور پر منظور نہیں ہوسکتی۔ واضح ہے کہ انتظامیہ اپنے فائدے کے لئے عدالتیں قائم کرنا چاہتی تھی۔ وفاقی آئینی عدالت میں ججز کی تقرری میں سینارٹی کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے سینیئر ججز کو نظر انداز کیا گیا۔ وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تقرری جوڈیشنل کمیشن کے ذریعے عمل میں نہیں لائی گئی۔ وفاقی آئینی عدالت کا قیام عدلیہ کی مضبوطی نہیں بلکہ من پسند فیصلے حاصل کرنے کے لئے کیا گیا۔ سندھ میں آئینی بینچز کا قیام عدلیہ کی آزادی کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ہائی کورٹس آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے، کسی بھی عمومی قانون سازی سے ہائی کورٹ کو آئین سے علیحدہ نہین کیا جاسکتا، آرٹیکل 202A کے ذریعے آرٹیکل 199 کے تحت درخواستیں آئینی بینچز کا دائرہ اختیار قرار دیا گیا ہے، 26 ویں ترمیم سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری میں ایگزیکیٹیو کا کوئی کردار نہین ہوتا تھا، 27 ویں ترمیم کے ذریعے تاحیات استثنیٰ غیر قانونی ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 27 ویں ترمیم کو آئین سے متصادم قرار دیکر غیر آئینی قرار دیا جائے، 27 ویں ترمیم اور اسکے تحت ہونے والی کارروائیاں کالعدم قرار دی جائیں۔ درخواست کے حتمی فیصلے تک 27 ویں ترمیم پر عملدرآمد روکا جائے اور درخواست کو ریگولر فل بینچ کے روبرو سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔