کشمیر کے سیاسی قیدیوں کو انصاف ملنا چاہیئے، الطاف بخاری
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
بزرگ حریت پسند رہنما شبیر شاہ کی صحت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے الطاف بخاری نے کہا کہ ان کی سوچ ہم سے مختلف ہوسکتی ہے لیکن وہ ایک شریف اور بزرگ انسان ہیں اور انکو وہی طبی سہولیات ملنی چاہئیں جو دوسرے قیدیوں کو دی جا رہی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر "اپنی پارٹی" کے صدر اور سابق وزیر سید محمد الطاف بخاری نے کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی کے لئے وزیراعلٰی عمر عبداللہ کو "اپنی کرسی چھوڑنے" کے بجائے اپنے اختیارات کا مؤثر استعمال کرکے ریاستی درجہ واپس حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ وزیراعلٰی کو ریاستی درجہ کے لئے اپنی کرسی چھوڑنی پڑے گی بلکہ ان کو اپنی کرسی کا پاور استعمال کر کے ریاستی درجہ بحال کرانا چاہیئے۔ امرناتھ یاترا 2025ء کے حوالے سے بات کرتے ہوئے الطاف بخاری نے کہا کہ یہ یاترا صدیوں سے جاری ہے اور اب یہ کشمیریوں کا ایک تہوار بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ یاترا اب پورے ہندوستان سے لوگوں کو کشمیر کھینچ کر لاتی ہے اور کشمیری لوگ ہمیشہ کی طرح مہمان نواز ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
بزرگ حریت پسند رہنما شبیر شاہ کی صحت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے الطاف بخاری نے کہا کہ ان کو فوری علاج کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ شبیر شاہ کی سوچ ہم سے مختلف ہو سکتی ہے، لیکن وہ ایک شریف اور بزرگ انسان ہیں اور ان کو وہی طبی سہولیات ملنی چاہئیں جو دوسرے قیدیوں کو دی جا رہی ہیں۔ الطاف بخاری نے ایک اور محبوس کشمیری لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ انجینئر رشید کی مسلسل قید پر بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اگر پانچ لاکھ لوگوں نے ان کو ووٹ دیا ہے تو ان کو رہا کیوں نہیں کیا جا رہا۔ الطاف بخاری نے کہا کہ اگر ایسی وجوہات کی بنا پر انہیں بند رکھا جا رہا ہے تو یہ مرکزی سرکار کی ایک بہت بڑی سیاسی غلطی ہے۔ یاسین ملک کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ ایک وقت کی سوچ کے نمائندے تھے اور آج شاید اس سوچ کے پیروکار کم ہوں، لیکن ایک منصفانہ ٹرائل ان کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف بند رکھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: الطاف بخاری نے کہا کہ ریاستی درجہ انہوں نے
پڑھیں:
حماس نے قیدیوں کی رہائی اور اسرائیلی انخلا بدلے جنگ بندی کی شرط مان لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر اپنا باقاعدہ جواب ثالثی کے ذریعے جمع کرا دیا ہے۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس پیکیج کے کئی اہم نکات بڑی حد تک تسلیم کرتے ہیں بشرطِ یہ کہ اس کے بدلے میں فوری اور مکمل اسرائیلی انخلا اور تمام قیدی رہا کیے جائیں۔
تنظیم کی جانب سے بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ وہ غزہ میں جاری عسکری کارروائیوں کے خاتمے اور محاصرے کے اٹھائے جانے کو اپنی اولین شرط قرار دیتی ہے اور اسی بنیاد پر وہ بین الاقوامی ثالثوں کے ذریعے تفصیلی مذاکرات میں شامل ہونے کو تیار ہے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ غزہ کا انتظام ایک آزاد، غیرجانبدار اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل تنظیم کے حوالے کیا جانا چاہیے، جسے قومِ فلسطین کے وسیع اتفاقِ رائے اور عرب و اسلامی حمایت کے ساتھ قائم کیا جائے۔
یہ مطالبہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حماس چاہتی ہے کہ غزہ کی آئندہ حکمرانی مقامی نمائندوں اور شفاف قومی فورم کے ذریعے مرتب کی جائے، نہ کہ بیرونی یا یکطرفہ منصوبوں کے تحت۔ تنظیم نے زور دیا کہ غزہ کے مستقبل اور فلسطینی حقوق کے مسائل کو بین الاقوامی قوانین اور سابقہ اقوامِ متحدہ قراردادوں کے مطابق ایک جامع قومی ڈھانچے کے تحت حل کیا جائے۔
حماس نے پیکیج کے بعض نکات پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے، خاص طور پر برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے مجوزہ کردار کو قبولیت سے خارج کر دیا گیا ہے۔
مزاحمتی تحریک کے سینئر رہنما موسی ابو مرزوق نے واضح کیا کہ اسرائیلی قبضہ ختم ہوئے بغیر حماس غیرمسلح نہیں ہوگی اور غزہ کے حوالے میں 72 گھنٹے کے اندر کسی طرح کی فوری تبدیلی یا رہائی کا مطالبہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ ان رہنماؤں نے کہا کہ حقیقی امن اسی وقت قائم ہوگا جب محاصرے اور جارحیت کا خاتمہ ہو، نہ کہ محض عارضی یا سطحی انتظامی تبدیلیوں سے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر نے حماس کو ایک سخت ڈیڈ لائن دی تھی اور خبردار کیا تھا کہ معاہدے کی عدم توثیق کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔ حماس کی جانب سے جوابی مراسلہ اور ثالثوں کے ذریعے مذاکرات میں شرکت کا اعلان اس کشیدہ منظرنامے میں ایک مثبت رخ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اس کا پیچھے محض دباؤ یا ایک طرفہ رضامندی نہ ہو بلکہ اس کے بدلے واضح، قابلِ پیمائش اور بین الاقوامی ضمانت یافتہ اقدامات ہوں۔
فلسطینی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو حماس کے فیصلے نے ایک اہم پیغام دیا ہے کہ جنگ بندی اور شہریوں کی حفاظت ان کی اولین ترجیحات ہیں، مگر وہ اس کی قیمت اپنے قومی اصولوں اور حق خود ارادیت کو قربان کرکے ادا کرنا نہیں چاہتے۔
موجودہ پیش رفت اس امید کو جلا دے سکتی ہے کہ اگر ثالثی حقیقی ضمانتوں اور تمام فریقین کی شمولیت کے ساتھ آگے بڑھے تو ایک دیرپا اور قانونی طور پر باضابطہ حل ممکن ہے۔
اب بین الاقوامی برادری، عرب ممالک اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مذاکرات کو شفاف، منصفانہ اور فلسطینی قومی مفاد کے مطابق بنائیں۔ اگر مذاکرات حقیقی قومی نمائندوں اور بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر ہوں تو یہ مرحلہ محصور عوام کے لیے ریلیف اور مستقل امن کی جانب اولین قدم ثابت ہوسکتا ہے۔