ٹرمپ کی پیش کردہ جنگ بندی تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں: حماس
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حماس نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے آخری جنگ بندی کی پیش کردہ تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق حماس نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی معاہدے کی بنیادی شرط اسرائیلی فوج کا غزہ سے مکمل انخلاء ہوگی، امریکی صدر ٹرمپ نے منگل کو اعلان کیا تھا کہ اسرائیل، حماس کے ساتھ 60 روزہ جنگ بندی کے لئے مطلوبہ شرائط پر آمادہ ہو چکا ہے۔
عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق حماس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ مصر اور قطر کے ذریعے موصول ہونے والی تازہ پیشکشوں پر غور کر رہی ہے اور ایسی ڈیل کی خواہاں ہے جو جنگ کا خاتمہ اور اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلاء یقینی بنائے۔
واضح رہے کہ یہ پیشرفت ان کے نمائندوں اور اسرائیلی حکام کے درمیان ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے، ادھر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے پہلی بار ٹرمپ کے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل حماس کو مکمل طور پر ختم کرے گا، نیتن یاہو نے مزید کہا کہ نہ حماس رہے گی نہ حمستان، ہم ماضی میں واپس نہیں جا رہے، یہ سب ختم ہو چکا۔
یاد رہے کہ دونوں فریقوں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مؤقف میں اب بھی سخت گیر رویہ برقرار ہے، جس سے کسی ممکنہ سمجھوتے کی راہ ہموار ہوتی نظر نہیں آرہی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ٹرمپ کے جنگ بندی منصوبے پر جلد ردعمل دیں گے، حماس رہنما ابو نزال
حماس کے ایک سینئر رہنما نے کہا ہے کہ فلسطینی تنظیم جلد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ میں جاری اسرائیل کی تقریباً 2 سالہ جنگ ختم کرنے کے لیے پیش کیے گئے منصوبے پر اپنا ردعمل دے گی۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق حماس کے سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال نے کہا کہ گروپ اس منصوبے پر غور کر رہا ہے تاکہ اسرائیل کی جنگ کو روکا جا سکے اور جلد ہی اپنے مؤقف کا اعلان کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بطور فلسطینی مزاحمت کی نمائندہ جماعت، حماس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایسا مؤقف اپنائے جو فلسطینی عوام کے مفاد میں ہو۔
یہ بھی پڑھیں:
’ہم اس منصوبے کو اس منطق کے تحت نہیں دیکھ رہے کہ وقت ہماری گردن پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے۔‘
اس ہفتے کے آغاز میں وائٹ ہاؤس نے 20 نکاتی منصوبہ جاری کیا، جس میں فوری جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے، مرحلہ وار اسرائیلی انخلا، حماس کا غیر مسلح ہونا اور ایک عبوری بین الاقوامی حکومت کے قیام کی تجاویز شامل ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو حماس کو تین سے چار دن کی مہلت دی کہ وہ اس منصوبے پر فیصلہ کرے۔
مزید پڑھیں:
اگرچہ فلسطینی عوام جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر کا ماننا ہے کہ یہ منصوبہ اسرائیل کے حق میں زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے۔
ماضی کی بات چیت میں حماس نے مکمل اسرائیلی انخلا، مستقل جنگ بندی اور بے گھر خاندانوں کی واپسی کی ضمانت پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالطیف نے پیرس میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ ان کا ملک قطر اور ترکی کے ساتھ مل کر حماس کو اس منصوبے کی منظوری پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں:
انہوں نے اسرائیل کی روزانہ کی جارحیت کو ’نسلی تطہیر اور نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔
ادھر وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ توقع کرتے ہیں کہ حماس اس منصوبے کو قبول کرے گی، بصورت دیگر اس کے نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔
امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ جنگ بندی میں رکاوٹ کی اصل وجہ حماس ہے۔
مزید پڑھیں:
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی چیف کاجا کالاس نے بھی حماس سے منصوبے کو قبول کرنے، یرغمالیوں کی رہائی اور ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ ان کا ملک صرف اسی صورت منصوبے کی حمایت کرے گا جب یہ دو ریاستی حل کی جانب پیش رفت کرے۔
فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں نوئیل بارو نے کہا کہ حماس کو ہتھیار ڈال دینے چاہییں کیونکہ وہ یہ جنگ ہار چکے ہیں۔
مزید پڑھیں:
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ مشرق وسطیٰ کو بیرونی قوتوں کے ذریعے نئے انداز سے تشکیل دینے کی مغربی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے، جو ماضی میں عراق جیسے ممالک میں ناکام ہو چکی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس منصوبے میں ٹونی بلیئر جیسے متنازع کرداروں کی شمولیت خطے کے عوام کے خدشات میں مزید اضافہ کرتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اسرائیلی انخلا امریکی صدر بے دخلی حماس خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ محمد نزال مشرق وسطیٰ نسل کشی نسلی تطہیر وائٹ ہاؤس یورپی یونین