اسلام آباد:

پاکستان نے اربوں ڈالر کے مائننگ معاہدوں کی پیشکش کے لیے ’’کھلے ہاتھ‘‘ کی پالیسی اپنانے کا فیصلہ کر لیا جس کے تحت امریکا، چین اور روس جیسے حریف ممالک کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

وزارت پٹرولیم نے حال ہی میں امریکی حکام اور کمپنیوں کے ساتھ ایک ویبینار منعقد کیا جس میں مشترکہ منصوبوں کی پیشکش کی گئی۔ وفاقی وزیر برائے پٹرولیم علی پرویز ملک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت تمام ممالک کو مائننگ سیکٹر میں سرمایہ کاری کے یکساں مواقع دے رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت ریکوڈک گولڈ اینڈ کاپر منصوبے پر کام کر رہا ہے، جو اربوں ڈالر مالیت کا منصوبہ ہے اور مختلف ممالک کے لیے سرمایہ کاری کا نیا دروازہ کھولے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریکوڈک منصوبہ سرمایہ کاری کے لیے رول ماڈل بنے گا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیر نے کسی بھی ملک سے امتیازی سلوک کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں روس کا دورہ کر چکا ہوں اور وہاں کی کمپنیوں کو بھی سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے، جب بھی ہم بولی کا عمل شروع کریں گے، کوئی بھی کمپنی حصہ لے سکتی ہے۔

ایل این جی کے موجودہ بحران پر بات کرتے ہوئے انھوں نے سابق حکومت کو قطر کے ساتھ دوسرے طویل المدتی معاہدے کا ذمے دار قرار دیا۔انھوں نے واضح کیا کہ حکومت 2026 میں ختم ہونے والے ایل این جی معاہدے پر نظرثانی کا ارادہ رکھتی ہے۔

سرکلر ڈیٹ اور گیس کی کٹوتی کے حوالے سے انھوں نے پاور ڈویژن کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ پاور سیکٹر مطلوبہ گیس لینے کو تیار نہیں۔ کیبنٹ سے ایل این جی کی ’ٹیک اینڈ پے‘ گارنٹی 60 فیصد سے کم کر کے 50 فیصد کروانے کی منظوری بھی پاور ڈویژن نے لی تھی، جس سے پٹرولیم ڈویڑن میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔

وزیر نے بتایا کہ مہنگی درآمدی ایل این جی کی وجہ سے حکومت کو 300 ایم ایم سی ایف ڈی مقامی گیس کی پیداوار روکنی پڑی۔ آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم زیرو خسارے کے ہدف پر ہیں، اس لیے اقدامات ناگزیر ہیں۔

ایران سے تیل و گیس درآمد کیلیے امریکی پابندیوں میں چھوٹ کے سوال پر انھوں نے بتایا کہ ایک وزارتی کمیٹی اس پر غور کر رہی ہے۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر دونوں ممالک پیرس میں ثالثی میں مصروف ہیں۔چین اور بھارت کو دی گئی چھوٹ کے بارے میں وزیر نے کہا کہ یہ ممالک آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ نہیں جبکہ پاکستان ہے، اس لیے ہمیں احتیاط برتنی ہوگی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرمایہ کاری ایل این جی کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ

پڑھیں:

قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان  فہرست سے خارج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

برطانوی اخبار دی گارڈین نے ایک نئی عالمی تحقیق کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جو فطرت اور قدرت سے سب سے زیادہ قریبی تعلق رکھتے ہیں، ان میں نیپال سرفہرست ہے جب کہ پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں۔

یہ تحقیق بین الاقوامی جریدے ایمبیو (AMBIO) میں شائع ہوئی ہے، جس کی تیاری میں برطانیہ اور آسٹریا کے ماہرین نے حصہ لیا ہے۔ اس تحقیق نے دنیا بھر میں انسانی رویوں اور فطرت کے درمیان تعلق کے بارے میں دلچسپ پہلو اجاگر کیے ہیں۔

تحقیق کرنے والی ٹیم میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف ڈربی کے معروف ماہر پروفیسر مائلز رچرڈسن شامل تھے، جو  قدرت سے وابستگی پر اپنے کام کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تحقیق اس بات کو سمجھنے کے لیے کی گئی کہ مختلف سماجی، معاشی، ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر رکھنے والے لوگ قدرت کے ساتھ کس قدر گہرا ربط محسوس کرتے ہیں اور اس احساس پر روحانیت، مذہب اور طرزِ زندگی کا کتنا اثر ہوتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سروے میں دنیا کے 61 ممالک کے 57 ہزار افراد سے رائے لی گئی۔ نتائج نے حیران کن طور پر یہ ظاہر کیا کہ فطرت سے وابستگی کا سب سے گہرا تعلق مذہبی عقائد اور روحانیت سے ہے، یعنی وہ لوگ جو مذہب یا روحانی نظامِ فکر کے قریب ہیں، وہ قدرت کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ زندگی گزارتے ہیں۔

فہرست کے مطابق نیپال کو دنیا کا سب سے زیادہ  قدرت سے جڑا ہوا ملک قرار دیا گیا۔ نیپال کے بعد دوسرے نمبر پر ایران ہے، جب کہ جنوبی افریقا، بنگلادیش اور نائیجیریا بالترتیب تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر آئے۔

جنوبی امریکا کا ملک چلی چھٹے نمبر پر رہا۔ سرفہرست 10 ممالک میں یورپ کے صرف 2 ملک شامل ہیں ، کروشیا ساتویں اور بلغاریہ نویں نمبر پر ہے۔ اسی طرح آٹھویں نمبر پر افریقی ملک گھانا اور دسویں پر شمالی افریقا کا ملک تیونس ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ممالک جنہیں عام طور پر ماحولیاتی آگہی میں نمایاں سمجھا جاتا ہے، وہ قدرت سے وابستگی کے لحاظ سے نچلے درجے پر ہیں۔ فرانس فہرست میں 19ویں نمبر پر ہے، جب کہ برطانیہ 55ویں نمبر پر پایا گیا۔

اسی طرح نیدرلینڈز، کینیڈا، جرمنی، اسرائیل اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی آخری نمبروں میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 61 ممالک کی فہرست میں اسپین سب سے آخری یعنی 61ویں نمبر پر ہے۔

تحقیق میں ایک اور دلچسپ نکتہ یہ سامنے آیا کہ  کاروبار میں آسانی یا معاشی سرگرمیوں کے فروغ سے قدرت سے وابستگی میں کمی آتی ہے۔ یعنی جہاں معاشی نظام زیادہ مضبوط اور مارکیٹ زیادہ متحرک ہوتی ہے، وہاں انسان فطرت سے نسبتاً دور ہوتا جاتا ہے۔

پروفیسر مائلز رچرڈسن کے مطابق صنعتی ترقی اور شہری مصروفیات نے جدید انسان کو قدرتی ماحول سے جدا کر دیا ہے، جس سے اس کے ذہنی سکون، تخلیقی صلاحیت اور مجموعی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مذہبی یا روحانی رجحان رکھنے والے معاشروں میں لوگ فطرت کو ایک مقدس امانت سمجھتے ہیں، جب کہ مادی معاشروں میں اسے صرف وسائل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہی فرق ان معاشروں میں قدرت سے تعلق کے معیار کو متعین کرتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ تحقیق عالمی پالیسی سازوں کے لیے ایک انتباہ ہے کہ ترقی کی دوڑ میں فطرت سے رشتہ کمزور ہونا انسانی بقا کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ نیپال، ایران اور افریقا کے کچھ ممالک کی مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ سادگی، روحانیت اور قدرت سے قرب نہ صرف ثقافتی طور پر اہم ہیں بلکہ پائیدار طرزِ زندگی کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • قدرت سے جڑے ہوئے ممالک میں نیپال نمبر ون، پاکستان  فہرست سے خارج
  • پاکستان سے امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی کے سلسلے میں بڑی پیشرفت
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • سفیر پاکستان رضوان سعید شیخ کا پاک امریکا معاشی تعلقات مضبوط بنانے پر زور
  • امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی میں بڑی پیشرفت
  • مصری رہنما کی اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید
  • پاکستان سے امریکا کیلئے براہ راست پروازوں کی بحالی پر اہم پیشرفت
  • امریکا کی امیگریشن پالیسی میں نیا قانون نافذ، ورک پرمٹ کی خودکار توسیع ختم کر دی
  • عمرہ زائرین کیلئے نئی شرط، سعودی حکومت نے پالیسی میں بڑی تبدیلی کر دی