مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
اقوامِ متحدہ اورانسانی حقوق کی تنظیمیں جن کے دفتروں کی دیواروں پرانسانیت کے عظیم اصول آویزاں ہیں،وہ مودی کے ان بیانات پریاتوخاموش ہیں یاایسے دیکھ رہی ہیں جیسے کسی ناول کے کردارجومکالمہ نہیں، فقط تماشاکرتے ہیں۔حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹرکی شق2(4)واضح طورپرکسی بھی ملک کودوسرے ملک کے خلاف طاقت یااس کی دھمکی سے باز رہنے کاپابندبناتی ہے۔ مگریہاں سوال اخلاقی جرات کاہے اورتاریخ گواہ ہے کہ طاقتورکے خلاف زبان کھولناہمیشہ کمزوردلوں کے بس کی بات نہیں رہی۔اگریہ بات دنیاکے سامنے پوری صداقت کے ساتھ لائی جاتی ہے تویہ صرف مودی کانہیں،بلکہ اسرائیل کے عسکری جنون اور امریکی خاموشی کا بھی پردہ چاک کرنے کالمحہ ہوگا۔اس سے قبل کہ اسرائیل کی مداخلت جنگ کانیامحاذ کھول دے تواس وقت تک بہت دیرہوجائے گی اوراس جنگ کو سنبھالناکسی کے بس میں نہ ہوگا۔
جب دشمن کھلی دھمکی دے اوردنیاخاموش رہے، توخاموشی کاتقاضہ یامزاحمت کابھرپورمظاہرہ اس لئے ضروری ہے کہ یہ خاموشی فقط حکمت نہیں بلکہ بزدلی کی چادراوڑھے ہوئے ظلم کی خاموش ساتھی بن جاتی ہے۔ پاکستان،جس نے ہمیشہ امن کی بات کی،اورعالمی سطح پرسفارتی وقارکے ساتھ اپنے اصولی موقف کواجاگر کیا سوال یہ ہے کیاعالمی برادری مودی کی دھمکیوں پر نوٹس لے سکتی ہے؟
مودی کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو گولیوں سے اڑانے کی کھلی دھمکی بین الاقوامی قوانین،اقوام متحدہ کے منشور،اوربنیادی انسانی حقوق کے تمام معیارات کی صریح خلاف ورزی ہے۔یہ بیان کسی سیاسی اختلاف کا اظہار نہیں بلکہ ایک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک کی جانب سے دوسرے ملک کے شہریوں کے خلاف نسلی وریاستی دہشت گردی کاکھلااعلان ہے۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹرکی شق2(4)ہرملک کو اس بات سے روکتی ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی دے۔اسی طرح انسانی حقوق کاعالمی اعلامیہ اور جنیواکنونشنزبھی اس قسم کے بیانات کونسل کشی،اشتعال انگیزی اورجنگی جرائم کے زمرے میں شمارکرتے ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے:کیااقوام عالم ایسے بیانات پرکوئی عملی قدم اٹھائیں گی؟ماضی کاتجربہ بتاتاہے کہ جب ایسے جارحانہ بیانات کسی بڑے تجارتی یادفاعی اتحادی ملک کی جانب سے آتے ہیںجیسے بھارت امریکا، اسرائیل اوریورپی طاقتوں کے ساتھ ہے تو ’’عالمی ضمیر‘‘اکثرمصلحت کاشکارہوجاتاہے۔اس کے باوجوداقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اس معاملے کو اٹھایا جا سکتا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پررپورٹس جاری کرسکتی ہیں۔یورپی پارلیمنٹ میں قراردادپیش کی جاسکتی ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف میں اسے جنگی نفرت انگیزی قرار دیا جاسکتاہے لیکن اس سب کے لئے پاکستانی سفارت کاری، میڈیا،اورسول سوسائٹی کو فوری،متحداور سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی تاکہ عالمی رائے عامہ کومودی کے جنگی جنون سے آگاہ کیاجاسکے۔عالمی میڈیامیں مودی کے بیانات کوجنگی اشتعال انگیزی کے طورپرپیش کرے اورسب سے بڑھ کر،قوم کے اندرسیاسی استحکام، یکجہتی، اورداخلی ہم آہنگی کوفروغ دے تاکہ ہردھمکی، ہروار، ہرحملہ صرف قوم کی یکجہتی سے ہی پسپاہو۔
مودی کے حالیہ بیانات محض انتخابی جلسوں کی لفاظی نہیں بلکہ خطے کے امن کوتہہ وبالا کرنے والاذہنی ونظریاتی خاکہ ہے۔اقوامِ عالم کواگرواقعی خطے میں امن عزیزہے،توانہیں اس اشتعال انگیزی کانوٹس لینا ہو گا، ورنہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ دوممالک اگر جنگ کی جانب بڑھتے ہیں تواس کا ایندھن صرف جنوبی ایشیا نہیں بلکہ ساری دنیابن سکتی ہے۔
پاکستان کوچاہیے کہ سفارتی سطح پرمودی کے بیانات کواقوامِ متحدہ،اوآئی سی،یورپی یونین اورعالمی میڈیاکے سامنے بھرپورانداز میں اٹھائے۔اسی طرح امریکا، اسرائیل اوربھارت کے درپردہ گٹھ جوڑکوبے نقاب کرکے دنیاکوبتایاجائے کہ یہ’’امن کی ثالثی‘‘نہیں بلکہ ’’جنگی جرائم پرپردہ ڈالنے‘‘کی کوشش ہے۔
مستقبل کی راہ میں جارحیت اورنفرت کی بجائے حکمت،تحمل اورسفارتی آداب کواپناناضروری ہے۔ سیاسی قائدانہ صلاحیت اسی میں ہے کہ کشیدگی کوکم کیاجائے،بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جائیں اورخطے کی بھلائی کے لئے مشترکہ حل تلاش کیے جائیں۔
مودی کے دھمکی آمیزالفاظ شایدعارضی طور پر قومی جذبے کوجلابخشیں،مگرتاریخ انہیں یادرکھے گی یاتوطاقت کی علامت کے طورپریاایک ایسی دھنک کے طورپرجوطوفان کے بعد غائب ہوجاتی ہے۔خاموشی تب ہی سنہری ہوتی ہے جب وہ طاقت کی علامت ہو،ورنہ وہ زوال کی پیشگی خبرہوتی ہے اورکسی بھی ملک کی خودداری یاسلامتی کے لئے نقصان دہ ہے۔
بین الاقوامی برادری کوچاہیے کہ وہ بھارت کوسفارتی اوراخلاقی طورپرجوابدہ بنائے۔اقوام متحدہ اوردیگرعالمی فورمزپر ایسے بیانات کی مذمت اورامن کے فروغ کے لئے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے۔
اب اقوام عالم کی ذمہ داری اورایک بڑاامتحان ہے کہ وہ بھارتی قیادت کوخبردارکرے کہ:
آئندہ وہ ایسے متنازعہ بیانات سے گریز کرے اورخطے میں امن قائم رکھنے کی کوشش کرے ۔
خطے کے ممالک میں اعتمادسازی کی کوششیں تیزکی جائیں۔بات چیت کے ذریعے اختلافات کوکم کرنے اوردیرپاامن قائم کرنے کی کوششوں کوبڑھایا جائے۔
بھارت،پاکستان اورچین کے درمیان اعتماد بڑھانے کے لئے مثبت اقدامات کیے جائیں۔
پاکستان اورچین کی حکمت عملی ماڈل سے استفادہ کیاجائے۔حکمت عملی اورتحمل کے ذریعے خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کوممکن بنایاجائے۔
عالمی برادری سے تعلقات بہتربنائے جائیں تاکہ خطے میں استحکام ممکن ہوسکے۔
بھارت کوچاہیے کہ وہ پاکستان اورچین کے ساتھ بات چیت کوترجیح دے تاکہ دیرپاامن کاراستہ کھلے۔
عوام میں امن اوررواداری کے فروغ کے لئے تعلیمی اورمیڈیاکی سطح پرپروگرام ترتیب دیے جائیں۔ تاکہ نفرت اورجارحیت کی فضاکوکم کیاجاسکے۔
مودی کے حالیہ بیانات محض انتخابی جلسوں کی لفاظی نہیں بلکہ خطے کے امن کوتہہ وبالاکرنے والاذہنی ونظریاتی خاکہ ہے۔اقوامِ عالم کواگرواقعی خطے میں امن عزیزہے،توانہیں اس اشتعال انگیزی کانوٹس لیناہوگا، ورنہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ دوممالک اگر جنگ کی جانب بڑھتے ہیں تواس کاایندھن صرف جنوبی ایشیانہیں بلکہ ساری دنیابن سکتی ہے۔
پاکستان کوچاہیے کہ سفارتی سطح پرمودی کے بیانات کواقوامِ متحدہ،اوآئی سی،یورپی یونین اورعالمی میڈیاکے سامنے بھرپورانداز میں اٹھائے۔اس طرح امریکا،اسرائیل اوربھارت کے درپردہ گٹھ جوڑکوبے نقاب کرکے دنیاکوبتایاجائے کہ یہ’’امن کی ثالثی‘‘نہیں بلکہ ’’جنگی جرائم‘‘ پرپردہ ڈالنے‘‘کی کوشش ہے۔
اورآخرمیں،ایک حکایت دانش وقت جب بولتاہے،توقوموں کوتاریخ بنادیتاہے اورجوقومیں اس کی آوازکونظراندازکریں،وہ عبرت کا افسانہ بن جاتی ہیں۔ پاکستان اورچین نے اس لمحے کوپہچان لیااورجولمحے کوپہچان لے،وہ زمانے کابادشاہ ہوتاہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان اورچین مودی کے بیانات اشتعال انگیزی اقوام متحدہ نہیں بلکہ کی کوشش کے خلاف کی جانب کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستانی سفارتکار نے بھارت کو آئینہ دکھا دیا
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 59 ویں اجلاس میں پاکستانی سفارتکار دانیال حسنین نے بھارت کو آئینہ دکھادیا۔
انسانی حقوق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی سفارت کار دانیال حسین نے کہا کہ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک بدمعاش اور انتہاپسند ریاست بن چکا ہے جو خطے کے امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی مسلسل کھلم کھلا سنگین خلاف ورزیاں کرنے والا بھارت بدقسمتی سے ہمارا پڑوسی ہے اور پڑوسی ملک کے خلاف سرحدی جارحیت اور پانی بند کرنے کی دھمکیاں دے کر بھارت اس خطے کو ایٹمی جنگ کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔
دانیال حسین کا کہنا تھا کہ کوئی ابہام نہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردوں کی پشت پناہی کررہا ہے، بھارتی قیادت کھلے عام اس دہشت گردی کا کریڈت لیتی ہے۔ بھارت میں اختلاف رائے پر لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے، مخالفین کے گھر گرائے جارہے ہیں۔
پاکستانی سفارت کار نے کہا کہ سیاسی بنیادوں پر نفرتوں کا فروغ اور اقلیتوں سے ناروا سلوک بھارت کا وتیرہ بن چکا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت سازش کے تحت جغرافیائی تبدیلیوں کے عالمی قوانین کی سنگین خلاف وزری کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انڈین اسپانسرڈ دہشتگردی ہو یا سرحدی جارحیت، پاکستان نے ہمیشہ ڈٹ کر بھارت کا مقابلہ کیا ہے۔ پاکستان اپنی خود مختاری کا تحفظ کرنا اچھی طرح جانتا ہے۔