Daily Ausaf:
2025-09-18@11:58:20 GMT

مودی کے بیانات، خطے میں آگ یا راکھ؟

اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
اقوامِ متحدہ اورانسانی حقوق کی تنظیمیں جن کے دفتروں کی دیواروں پرانسانیت کے عظیم اصول آویزاں ہیں،وہ مودی کے ان بیانات پریاتوخاموش ہیں یاایسے دیکھ رہی ہیں جیسے کسی ناول کے کردارجومکالمہ نہیں، فقط تماشاکرتے ہیں۔حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹرکی شق2(4)واضح طورپرکسی بھی ملک کودوسرے ملک کے خلاف طاقت یااس کی دھمکی سے باز رہنے کاپابندبناتی ہے۔ مگریہاں سوال اخلاقی جرات کاہے اورتاریخ گواہ ہے کہ طاقتورکے خلاف زبان کھولناہمیشہ کمزوردلوں کے بس کی بات نہیں رہی۔اگریہ بات دنیاکے سامنے پوری صداقت کے ساتھ لائی جاتی ہے تویہ صرف مودی کانہیں،بلکہ اسرائیل کے عسکری جنون اور امریکی خاموشی کا بھی پردہ چاک کرنے کالمحہ ہوگا۔اس سے قبل کہ اسرائیل کی مداخلت جنگ کانیامحاذ کھول دے تواس وقت تک بہت دیرہوجائے گی اوراس جنگ کو سنبھالناکسی کے بس میں نہ ہوگا۔
جب دشمن کھلی دھمکی دے اوردنیاخاموش رہے، توخاموشی کاتقاضہ یامزاحمت کابھرپورمظاہرہ اس لئے ضروری ہے کہ یہ خاموشی فقط حکمت نہیں بلکہ بزدلی کی چادراوڑھے ہوئے ظلم کی خاموش ساتھی بن جاتی ہے۔ پاکستان،جس نے ہمیشہ امن کی بات کی،اورعالمی سطح پرسفارتی وقارکے ساتھ اپنے اصولی موقف کواجاگر کیا سوال یہ ہے کیاعالمی برادری مودی کی دھمکیوں پر نوٹس لے سکتی ہے؟
مودی کی جانب سے پاکستانی شہریوں کو گولیوں سے اڑانے کی کھلی دھمکی بین الاقوامی قوانین،اقوام متحدہ کے منشور،اوربنیادی انسانی حقوق کے تمام معیارات کی صریح خلاف ورزی ہے۔یہ بیان کسی سیاسی اختلاف کا اظہار نہیں بلکہ ایک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک کی جانب سے دوسرے ملک کے شہریوں کے خلاف نسلی وریاستی دہشت گردی کاکھلااعلان ہے۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹرکی شق2(4)ہرملک کو اس بات سے روکتی ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے خلاف طاقت کے استعمال کی دھمکی دے۔اسی طرح انسانی حقوق کاعالمی اعلامیہ اور جنیواکنونشنزبھی اس قسم کے بیانات کونسل کشی،اشتعال انگیزی اورجنگی جرائم کے زمرے میں شمارکرتے ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے:کیااقوام عالم ایسے بیانات پرکوئی عملی قدم اٹھائیں گی؟ماضی کاتجربہ بتاتاہے کہ جب ایسے جارحانہ بیانات کسی بڑے تجارتی یادفاعی اتحادی ملک کی جانب سے آتے ہیںجیسے بھارت امریکا، اسرائیل اوریورپی طاقتوں کے ساتھ ہے تو ’’عالمی ضمیر‘‘اکثرمصلحت کاشکارہوجاتاہے۔اس کے باوجوداقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں اس معاملے کو اٹھایا جا سکتا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پررپورٹس جاری کرسکتی ہیں۔یورپی پارلیمنٹ میں قراردادپیش کی جاسکتی ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف میں اسے جنگی نفرت انگیزی قرار دیا جاسکتاہے لیکن اس سب کے لئے پاکستانی سفارت کاری، میڈیا،اورسول سوسائٹی کو فوری،متحداور سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی تاکہ عالمی رائے عامہ کومودی کے جنگی جنون سے آگاہ کیاجاسکے۔عالمی میڈیامیں مودی کے بیانات کوجنگی اشتعال انگیزی کے طورپرپیش کرے اورسب سے بڑھ کر،قوم کے اندرسیاسی استحکام، یکجہتی، اورداخلی ہم آہنگی کوفروغ دے تاکہ ہردھمکی، ہروار، ہرحملہ صرف قوم کی یکجہتی سے ہی پسپاہو۔
مودی کے حالیہ بیانات محض انتخابی جلسوں کی لفاظی نہیں بلکہ خطے کے امن کوتہہ وبالا کرنے والاذہنی ونظریاتی خاکہ ہے۔اقوامِ عالم کواگرواقعی خطے میں امن عزیزہے،توانہیں اس اشتعال انگیزی کانوٹس لینا ہو گا، ورنہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ دوممالک اگر جنگ کی جانب بڑھتے ہیں تواس کا ایندھن صرف جنوبی ایشیا نہیں بلکہ ساری دنیابن سکتی ہے۔
پاکستان کوچاہیے کہ سفارتی سطح پرمودی کے بیانات کواقوامِ متحدہ،اوآئی سی،یورپی یونین اورعالمی میڈیاکے سامنے بھرپورانداز میں اٹھائے۔اسی طرح امریکا، اسرائیل اوربھارت کے درپردہ گٹھ جوڑکوبے نقاب کرکے دنیاکوبتایاجائے کہ یہ’’امن کی ثالثی‘‘نہیں بلکہ ’’جنگی جرائم پرپردہ ڈالنے‘‘کی کوشش ہے۔
مستقبل کی راہ میں جارحیت اورنفرت کی بجائے حکمت،تحمل اورسفارتی آداب کواپناناضروری ہے۔ سیاسی قائدانہ صلاحیت اسی میں ہے کہ کشیدگی کوکم کیاجائے،بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جائیں اورخطے کی بھلائی کے لئے مشترکہ حل تلاش کیے جائیں۔
مودی کے دھمکی آمیزالفاظ شایدعارضی طور پر قومی جذبے کوجلابخشیں،مگرتاریخ انہیں یادرکھے گی یاتوطاقت کی علامت کے طورپریاایک ایسی دھنک کے طورپرجوطوفان کے بعد غائب ہوجاتی ہے۔خاموشی تب ہی سنہری ہوتی ہے جب وہ طاقت کی علامت ہو،ورنہ وہ زوال کی پیشگی خبرہوتی ہے اورکسی بھی ملک کی خودداری یاسلامتی کے لئے نقصان دہ ہے۔
بین الاقوامی برادری کوچاہیے کہ وہ بھارت کوسفارتی اوراخلاقی طورپرجوابدہ بنائے۔اقوام متحدہ اوردیگرعالمی فورمزپر ایسے بیانات کی مذمت اورامن کے فروغ کے لئے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے۔
اب اقوام عالم کی ذمہ داری اورایک بڑاامتحان ہے کہ وہ بھارتی قیادت کوخبردارکرے کہ:
آئندہ وہ ایسے متنازعہ بیانات سے گریز کرے اورخطے میں امن قائم رکھنے کی کوشش کرے ۔
خطے کے ممالک میں اعتمادسازی کی کوششیں تیزکی جائیں۔بات چیت کے ذریعے اختلافات کوکم کرنے اوردیرپاامن قائم کرنے کی کوششوں کوبڑھایا جائے۔
بھارت،پاکستان اورچین کے درمیان اعتماد بڑھانے کے لئے مثبت اقدامات کیے جائیں۔
پاکستان اورچین کی حکمت عملی ماڈل سے استفادہ کیاجائے۔حکمت عملی اورتحمل کے ذریعے خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کوممکن بنایاجائے۔
عالمی برادری سے تعلقات بہتربنائے جائیں تاکہ خطے میں استحکام ممکن ہوسکے۔
بھارت کوچاہیے کہ وہ پاکستان اورچین کے ساتھ بات چیت کوترجیح دے تاکہ دیرپاامن کاراستہ کھلے۔
عوام میں امن اوررواداری کے فروغ کے لئے تعلیمی اورمیڈیاکی سطح پرپروگرام ترتیب دیے جائیں۔ تاکہ نفرت اورجارحیت کی فضاکوکم کیاجاسکے۔
مودی کے حالیہ بیانات محض انتخابی جلسوں کی لفاظی نہیں بلکہ خطے کے امن کوتہہ وبالاکرنے والاذہنی ونظریاتی خاکہ ہے۔اقوامِ عالم کواگرواقعی خطے میں امن عزیزہے،توانہیں اس اشتعال انگیزی کانوٹس لیناہوگا، ورنہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ دوممالک اگر جنگ کی جانب بڑھتے ہیں تواس کاایندھن صرف جنوبی ایشیانہیں بلکہ ساری دنیابن سکتی ہے۔
پاکستان کوچاہیے کہ سفارتی سطح پرمودی کے بیانات کواقوامِ متحدہ،اوآئی سی،یورپی یونین اورعالمی میڈیاکے سامنے بھرپورانداز میں اٹھائے۔اس طرح امریکا،اسرائیل اوربھارت کے درپردہ گٹھ جوڑکوبے نقاب کرکے دنیاکوبتایاجائے کہ یہ’’امن کی ثالثی‘‘نہیں بلکہ ’’جنگی جرائم‘‘ پرپردہ ڈالنے‘‘کی کوشش ہے۔
اورآخرمیں،ایک حکایت دانش وقت جب بولتاہے،توقوموں کوتاریخ بنادیتاہے اورجوقومیں اس کی آوازکونظراندازکریں،وہ عبرت کا افسانہ بن جاتی ہیں۔ پاکستان اورچین نے اس لمحے کوپہچان لیااورجولمحے کوپہچان لے،وہ زمانے کابادشاہ ہوتاہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان اورچین مودی کے بیانات اشتعال انگیزی اقوام متحدہ نہیں بلکہ کی کوشش کے خلاف کی جانب کے ساتھ کے لئے

پڑھیں:

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان

ڈاکٹر سلیم خان

اسرائیل کے وزیر اعظم نے قطر میں حملہ کرکے ہمام الحیہ سمیت پانچ لوگوں کو شہید تو کردیا مگر اپنے مقصد کی حصولیابی میں ناکام رہا کیونکہ اس کا اصل ہدف تو حماس رہنما خلیل الحیہ تھے جو اپنے ساتھیوں سمیت زندہ بچ گئے لیکن اس حماقت نے نیتن یاہو سمیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو رسوا کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ آخرنیتن یاہو پر اچانک اس خودکش حملے کا جنون کیوں سوار ہوا؟ اسرائیل کے اندر ہونے والے احتجاج کا دباؤ کے علاوہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے پہلے دن 9ستمبر کو اس حرکت کے لیے منتخب کیا گیا ۔امسال کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے تمام 193رکن ممالک کی نمائندگی ہو رہی ہے جنہیں ایک ملک، ایک ووٹ” کی بنیاد پر برابر کا حق حاصل ہے ۔جنرل اسمبلی کے علاوہ سلامتی کونسل میں سبھی اراکین کو قراردادوں پر ووٹ دینے کے یکساں اختیارات حاصل نہیں ہے اور سب برابر بھی نہیں ہیں۔ چند مستقل ارکان ممالک کے پاس ویٹو کا حق ہے جس استعمال کرکے وہ سارے لوگوں کی آواز دبا دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے اجلاس کا اس سال موضوع ہے :بہتر ساتھ:امن، ترقی اور انسانی حقوق کے لیے 80 سال اور اس سے بھی زیادہ۔یہ غیر معمولی اجلاس 29 ستمبر تک جاری رہے گا۔12 ستمبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے ‘نیویارک ڈیکلیئریشن’ کی منظوری دی تاکہ ‘مقررہ مدت کے اندر، ٹھوس، ناقابل واپسی اقدامات’ کیے جاسکیں ۔اجلاس میں اس قراراداد کے حق میں 142 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت 10 ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیا ۔ یہ خوش آئند ہے کہ بڑے دنوں کے بعد ہندوستان نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا ۔ 22ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران غزہ کے معاملے پر عالمی رہنماؤں کا اجلاس ہو گا جس میں امکان ہے کہ برطانیہ فلسطین کو بطورِ ریاست تسلیم کر لے گا۔فرانس سمیت برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک نے اس دوران فلسطین کو تسلیم کرکے دو ریاستی حل پر زور دینے کا فیصلہ کیا تھا اور چونکہ دو تہائی اکثریت سے قرارداد منظور ہوئی ہے اس لیے فلسطین کو مبصر سے رکن کا درجہ مل جائے گا۔
اسرائیل قطر میں حماس پر حملہ کرکے فلسطین کی رکنیت کو اور بھی زیادہ اہم اور آسان بنادیا ہے ۔پچھلے سال یعنی 2024 میں اقوام متحدہ
کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو نئے "حقوق اور مراعات دینے کے لیے ووٹ دے کر سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسے اقوام متحدہ کا 194 واں رکن بنائے ۔اس قرارداد کو 143 بمقابلہ 9 ووٹوں کے فرق سے منظور کیا گیا جبکہ 25 ارکان غیر حاضر تھے ۔ مخالفین میں صرف امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ارجنٹینا، چیکیا، ہنگری، مائیکرونیشیا، ناؤرو، پلاوو اور پاپوا نیو گنی جیسے ممالک تھے لیکن اس ایک سال کے اندر غیر حاضر ممالک کی تعداد میں بڑی کمی ہوئی ہے اور اس میں فرانس و برطانیہ جیسے ویٹو والے ممالک ہوں گے ۔اسی طرح دو سال قبل 27 اکتوبر کو جنرل اسمبلی کی غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کے حق میں 120کے خلاف صرف 14 ووٹ پڑے تھے لیکن 45کی غیر حاضری بڑی رکاوٹ تھی یہ اعدادو شمار فلسطین کے حق میں رائے عامہ کی ہمواری کا ثبوت ہیں۔
امریکہ نے فلسطین کی رکنیت کو روکنے کے لیے اسے اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی براہِ راست بات چیت ، سرحدوں پر امن و سلامتی اور
یروشلم کے مستقبل سمیت اہم مسائل کے حل سے جوڑ دیا ۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے ‘نہ نو من تیل ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی’ اس طرح کی شرائط لگا کر
تو روس اور یوکرین کی رکنیت بھی ختم کردینی چاہیے لیکن اس کا تو تصور بھی محال ہے کیونکہ روس ویٹو کی طاقت رکھنے والا ملک ہے اور یوکرین
مغرب کا حلیف یا آلۂ کار ہے ۔ اس لیے ان پر امریکہ بہاد ر یہ شرائط نہیں رکھے گا۔ اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت اسرائیل کی علامتی
شکست ہونے کے سبب اہمیت کی حامل ہے ۔ اسی لیے امریکہ نے 18اپریل کو وسیع پیمانے پر حمایت یافتہ کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا ۔
سلامتی کونسل کی اس ووٹنگ میں، فلسطینیوں کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے بہت زیادہ حمایت ملی تھی ۔ اس کے حق میں 12ووٹ پڑے تھے مگر برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے حصہ نہیں لیا تھا اور ریاستہائے متحدہ نے قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔اس لیے کہنا پڑے گا کہ اقوام متحدہ کی ماں جمعیت اقوام کے بارے میں علامہ اقبال نے جو کہا تھا وہ اب بیٹی پر بھی صادق آتا ہے
بیچاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے ڈر ہے خبر بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
ممکن ہے کہ یہ داشتہ پیرک افرنگ ابلیس کے تعویذ سے کچھ روز سنبھل جائے
یہ عجیب منافقت ہے کہ 144ممالک فلسطین کی ریاست کو تسلیم تو کرتے ہیں مگر اقوام متحدہ میں رکنیت کی حمایت نہیں کرتے ۔ اس سے قبل امریکی اتحادیوں میں سے فرانس، جاپان، جنوبی کوریا، اسپین، آسٹریلیا، ایسٹونیا اور ناروے نے فلسطین حمایت کی تھی مگر یورپی ممالک اس پر آمادہ نہیں تھے ۔ یہ فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کے روس اور چین، اس لیے بھی حامی ہیں کیونکہ اس طرح روس کے لئے کوسوو اور چین کے لئے تائیوان کو رکن بنانے میں آسانی ہوگی ۔ اس بار یوروپ کی برف پگھلی ہے ۔ جولائی میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس اقوام متحدہ کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ فرانس کے وزیر خارجہ جین نول باروٹ نے اقوام متحدہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بین الاقوامی اتفاق رائے ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے سیاسی حل کا وقت آ گیا ہے لیکن اس کے لیے عالمی طاقتوں کو کام کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا تھا کہ ، ”یوروپی یونین کی جانب سے یوروپی کمیشن کو اپنی توقعات کا اظہار کرنا ہو گا۔ اسے یہ بھی دکھانا ہو گا کہ ہم اسرائیلی حکومت کی اس اپیل کو سننے کے لیے کس طرح حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔
جولائی کے اواخر میں اقوام متحدہ کے فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے منعقدہ مشترکہ اجلاس میں کی گئی تھی۔ عشروں پرانے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے پہلے دن پرفرانسیسی وزیر خارجہ باروٹ نے مندجہ بالابیان دیا تھا ۔ اس اجلاس کی صدارت کرنے والے فرانس نے یوروپی یونین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیل پر فلسطینیوں کے ساتھ دو ملکی حل پر رضامندی کے لیے دباؤ ڈالے ۔ یہ فرانس کی طرف سے ایک تیز حملہ تھا کیونکہ وہ فلسطین کو ایک قوم کے طور پر تسلیم کرنے کے وعدے کے چند دن بعد ہی غزہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہاہے ۔ فرانس کی جانب سے اس صدائے امن کے جواب میں ایک درجن سے زیادہ دیگر مغربی ممالک نے
دوسرے ملکوں سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ بیلجیئم نے امسال 9 ستمبر سے شروع ہو رہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے خلاف سخت پابندیاں بھی عائد کردی ۔ بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ غزہ میں رونما ہونے والے انسانی المیے کے پیش نظر کیا گیا ہے ، جہاں اسرائیلی جارحیت زیادہ تر آبادی کو کم از کم ایک بار بے گھر کر چکی ہے اور اقوام متحدہ نے قحط اور بھکمری کو تسلیم کیا ہے ۔
بیلجیئم کے وزیر خارجہ پریوٹ نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا، ”اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نسل کشی کے کسی بھی خطرے کو روکنے کے لیے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بیلجیئم کو اسرائیلی حکومت اور حماس کے ‘دہشت گردوں’ پر دباؤ بڑھانے کے لیے سخت فیصلے لینے پڑے ۔یہ اسرائیلی عوام کو سزا دینے کے بارے میں نہیں ہے ، بلکہ اس بات کو یقینی بنانے کے بارے میں ہے کہ ان کی حکومت بین الاقوامی اور انسانی قانون کا احترام اور پاسداری کرے جو اس کے برعکس زمینی صورت حال کو تبدیل کرنے کی کارروائیوں میں مصروف ہے ۔امسال 31جولائی (2025)کو فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا نے بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا مشروط اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مالٹا نے طویل عرصے سے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کی ہے اور ”ذمہ دار ملک کے طور پر ہمارا فرض ہے کہ ہم دو ریاستی حل کے تصور کو نظریہ سے عملی شکل دینے کے لیے کام کریں۔ کینیڈا کے صدر میک کارنی نے کہا کہ ”کینیڈا اس حقیقت کی مذمت کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں تباہی پھیلانے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ اس پر اسرائیل کو ایسی مرچی لگی کہ اس کے وزارت خارجہ نے لکھا ”کینیڈین حکومت کی پوزیشن میں تبدیلی حماس کے لیے انعام ہے اور غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے ۔
امریکہ کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ نے بھی مغربی ممالک کے ان اعلانات کے خلاف اسرائیلی موقف کو اختیار کرتے ہوئے اسے حماس کے لیے انعام قرار دیا، نیز اسے غلط وقت میں اٹھایا گیا قدم بتایا۔ اپنے بین الاقوامی حلیفوں کے پیٹھ پھیر لینے سے بے چین ہوکربن یامین نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی ابتداء میں ہی قطر کے اندر یہ ناکام حملہ کرکے مغربی ہمدردوں کواور بھی دور کردیا ہے ۔ فرانس اور سعودی عرب کے مشترکہ صدارت سے اسرائیل فلسطین تنازع کے دو ملکی حل پر اقوام متحدہ کے نیویارک دفتر میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس نے اسرائیل کے ہوش اڑا دئیے ہیں ۔برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جرمنی اور فرانس میں اپنے ہم منصبوں سے لڑائی کو روکنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے ۔ انہوں نے کہا تھاکہ جنگ بندی ”ہمیں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے راستے پر ڈالے گی۔ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے ناقدعالمی رہنما مل کر نیتن یاہو کے ذریعہ تباہ کرنے کی کوشش کا مقابلہ دو ریاستی حل سے کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کے مسئلے پر ہار ماننا درست نہیں، فرانچسکا آلبانیز
  • آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ
  • آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ
  • اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل کا اجلاس،اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ
  • اقوام متحدہ مالی بحران کا شکار،مجموعی وسائل کم پڑ گئے
  • اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کو مٹانے کے لیے نسل کشی کر رہا ہے، اقوام متحدہ
  • اقوام متحدہ نے رپورٹ میں اسرائیلی قیادت پر غزہ میں نسل کشی کا الزام عائد کردیا
  • اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
  • اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل کی قرارداد
  • عمران خان اور بشریٰ بی بی کے لیے اقوام متحدہ میں اپیل دائر کر دی : زلفی بخاری