اقوام متحدہ کی اسرائیل پر اسلحہ بندش، تجارتی پابندی اور مالی تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جنیوا: اقوام متحدہ میں فلسطینی علاقوں سے متعلق خصوصی نمائندہ فرانچیسکا البانیزے نے اسرائیل پر ’نسل کشی کی مہم‘ چلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل پر اسلحہ کی فراہمی پر پابندی عائد کرے، تجارتی و مالی تعلقات منقطع کرے اور اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی کمپنیوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے خطاب کرتے ہوئے فرانچیسکا البانیزے نے کہا کہ فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں صورتحال قیامت خیز ہوچکی ہے اور اسرائیل جدید تاریخ کے بدترین نسل کشی کے مظالم کا ذمہ دار ہے۔
فرانچیسکا البانیزے نے اپنے تازہ ترین رپورٹ میں ان 60 سے زائد کمپنیوں کی نشاندہی کی جو ان کے بقول اسرائیلی بستیوں کی تعمیر اور غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں میں معاونت فراہم کر رہی ہیں، یہ صرف ایک فہرست نہیں بلکہ ایک منظم نظام ہے، جسے بے نقاب کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔”
انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ اسرائیل پر مکمل اسلحہ پابندی عائد کی جائے، اسرائیل کے ساتھ تمام تجارتی معاہدے معطل کیے جائیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث کمپنیوں کو قانونی طور پر جوابدہ بنایا جائے۔
اسرائیل نے اقوام متحدہ کی ماہر کی رپورٹ کو “قانونی طور پر بے بنیاد، بدنیتی پر مبنی اور ان کے منصب کا کھلا غلط استعمال” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی برادری نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو انسانی تاریخ ایک اور سیاہ باب کی گواہ بنے گی۔
خیال رہےکہ اقوام متحدہ کی کونسل میں ان کے خطاب پر شرکاء کی جانب سے زوردار تالیاں بجائی گئیں، جنیوا میں اسرائیلی مشن کی جانب سے تاحال اس بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا جب کہ اسرائیلی نمائندہ اجلاس میں موجود نہیں تھا کیونکہ اسرائیل نے انسانی حقوق کونسل کو “یہودی مخالف تعصب کا شکار” قرار دے کر اجلاسوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے غزہ میں اکتوبر 2023 سے جاری فوجی کارروائیوں میں اب تک 57 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، جب کہ لاکھوں افراد بنیادی ضروریات سے محروم ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی اس تازہ پیش رفت نے عالمی برادری کو ایک بار پھر اس مسئلے پر فیصلہ کن اقدامات کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی عالمی برادری اسرائیل پر کہ اسرائیل
پڑھیں:
ریاض کو ایف 35 کی فروخت صرف تب ہوگی جب یہ طیارے مغربی سعودیہ میں تعینات نہ ہوں، تل ابیب کی شرط
ویب سائٹ ٹائمز آف اسرائیل نے ہفتہ کی شب رپورٹ کیا تھا کہ صہیونی ذرائع کے مطابق تل ابیب کو سعودی عرب کو ایف 35 طیارے دینے پر اصولی اعتراض نہیں، مگر یہ سودا نارمل تعلقات سے مشروط ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صہیونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل، امریکہ کی جانب سے جدید ایف 35 جنگی طیاروں کی سعودی عرب کو فروخت کی مخالفت نہیں کرتا، لیکن اس معاملے پر چند لازمی شرائط عائد کی گئی ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ یہ طیارے مغربی سعودیہ میں تعینات نہ کیے جائیں۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارہ تسنیم کے مطابق صہیونی حکومت نے کہا ہے کہ سعودی عرب کو ایف 35 جنگی طیاروں کی فروخت صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کی نارملائزیشن کی سازش مکمل ہو جائے۔
ویب سائٹ ٹائمز آف اسرائیل نے ہفتہ کی شب رپورٹ کیا تھا کہ صہیونی ذرائع کے مطابق تل ابیب کو سعودی عرب کو ایف 35 طیارے دینے پر اصولی اعتراض نہیں، مگر یہ سودا نارمل تعلقات سے مشروط ہے۔ ایک صہیونی اہلکار نے کہا کہ ہم نے ٹرمپ انتظامیہ سے کہا تھا کہ ایف 35 کی سعودی عرب کو فروخت، تعلقات کی نارملائزیشن سے مشروط ہونی چاہیے،
ورنہ اس کے منفی نتائج سامنے آئیں گے۔
دوسرے اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ ترکی کو ایف 35 دینے کی ہم سخت مخالفت کرتے ہیں، لیکن سعودی عرب کے بارے میں ہمارا خدشہ کم ہے، بشرطیکہ یہ سودا ابراہیمی معاہدوں کے فریم ورک میں علاقائی سیکیورٹی تعاون کا حصہ ہو، جیسا تعاون اس وقت ہمارے اور امارات کے درمیان ہے۔ ایف 35 کی خطے میں تیزی سے نقل و حرکت کی صلاحیت کے متعلق تل ابیب پہلے بھی خطے کے ممالک کو ایف 35 طیاروں کی فروخت پر اعتراضات اٹھاتا رہا ہے، کیونکہ اسرائیل اپنی معیاری فوجی برتری کو اپنی بقا کا حامل سمجھتا ہے۔
مبصرین کے مطابق فی الحال اسرائیل خطے کا واحد ملک ہے جس کے پاس یہ جدید طیارے موجود ہیں، اس کے پاس 45 ایف 35 طیارے فعال حیثیت میں ہیں، جبکہ مزید 30 طیارے آرڈر پر ہیں۔ ایک اور صہیونی اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ ایک ایف 35 طیارہ سعودی عرب سے اسرائیل تک پہنچنے میں صرف چند منٹ لیتا ہے، اس لیے ہم زور دیتے ہیں کہ یہ جنگی طیارے مغربی سعودیہ میں کسی صورت مستقر نہ کیے جائیں۔