اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات نظریہ پاکستان سے غداری ہے، ڈاکٹر صابر ابومریم
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
ایک بیان میں سیکرٹری جنرل پی ایل ایف نے کہا کہ فلسطین کی حمایت دراصل مظلوم انسانیت کی حمایت ہے، اور اس مسئلے پر پاکستان کی ریاستی اور عوامی پوزیشن ہمیشہ دوٹوک رہی ہے، جسے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین، علماء کرام، ذاکرین، خطبا، دانشوروں، اسکالرز اور معاشرے کے تمام طبقات سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے بھرپور کردار ادا کریں اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کسی بھی کوشش یا مطالبے کی شدید مذمت کریں۔ ڈاکٹر صابر ابو مریم کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات دراصل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے نظریات اور اصولوں کے منافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی بنیاد ہی نظریہ اسلام اور مظلوموں کی حمایت پر رکھی گئی تھی، اور فلسطین کا مسئلہ امت مسلمہ کا بنیادی مسئلہ ہے، ایسے میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے یا اسے تسلیم کرنے کی بات کرنا نہ صرف فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے بلکہ یہ پاکستان کے نظریاتی تشخص پر بھی حملہ ہے۔ انہوں نے تمام ذمے دار حلقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کسی بھی کوشش کا سخت نوٹس لیں اور ایسے عناصر کا محاسبہ کیا جائے جو اس حساس معاملے پر قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیل کو تسلیم کرنے کی
پڑھیں:
وہ واحد اسرائیلی وزیراعظم جسے پرامن فلسطین کی خواہش پر قتل کردیا گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہم اسرائیل کی بھلائی چاہتے ہیں تو فلسطینیوں کے ساتھ قتل و غارت نہیں امن کے ساتھ رہنا ہے۔
اسرائیلی تاریخ کا واحد وزیر اعظم جسے فلسطینیوں کے ساتھ امن سے رہنے کی خواہش کی وجہ سے قتل کر دیا گیا، وہ تھے اسحاق رابین (Yitzhak Rabin)
اسحاق رابین 1974 میں اسرائیل کے پانچویں وزیر اعظم بنے۔ جبکہ یہ 1992 میں بھی وزیر اعظم کے طور پر چنے گئے اور 4 نومبر 1995 میں اپنی موت تک عہدے پر برقرار رہے۔
اسحاق رابین اسرائیل کے وہ پہلے وزیر اعظم بھی ہیں جو فلسطین میں پیدا ہوئے۔ اسحاق رابین نے وزیر اعظم بننے سے پہلے ایک فوجی جنرل کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ یہی وہ وقت تھا جس میں انہوں نے محسوس کیا کہ اسرائیل کی بھلائی اگر درکار ہے تو فلسطینیوں کے ساتھ قتل و غارت سے نہیں بلکہ امن کے ساتھ ہی رہا جاسکتا ہے۔
اس کیلئے انہوں نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن معاہدے ’اوسلو ایکورڈز‘ پر دستخط کیے جسکے تحت متعدد فلسطینی علاقوں کو خودمختاری دی گئی اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مستقل امن کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی گئی۔
تاہم اسرائیل میں انتہا پسند دائیں بازو کے یہودی عالموں اور اپوزیشن پارٹی لیکود جس کے رنما بینجمن نیتن یاہو تھے، نے قومی سطح پر وزیر اعظم کیخلاف اشتعال انگیز محاذ کھڑا کردیا جس میں اسحاق رابین کی موت کے نعرے لگائے گئے۔
اسحاق رابین کا فلسطینیوں سے امن معاہدے کا فیصلہ اسرائیل کے اندر انتہا پسند عناصر کو سخت ناپسند تھا۔ انہوں نے امن معاہدے کو ’اسرائیل کی مقدس سرزمین کا غدارانہ سودہ‘ قرار دیا۔
یہودیوں عالموں اور لیکود پارٹی کی اشتعال انگیز تقاریر کا ہی اثر تھا کہ ییگال عامیر نامی ایک یہودی شدت پسند جو قانون کا طالبعلم تھا، نے اسحاق رابین کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔
ییگال عامیر کا کہنا تھا کہ یہودیت کا قانون اسے اس قتل کی اجازت دیتا ہے کیونکہ وہ اسحاق رابین کو قتل کرکے یہودیوں کو بچا رہا ہے۔
4 نومبر 1995 میں اسحاق رابین نے تل ابیب میں فلسطینیوں سے امن کی ریلی کا انعقاد کیا جس میں وہ خود بھی شریک ہوئے، ریلی کے بعد وہ اپنے گاڑی میں آکر بیٹھے ہی تھے کہ ییگام عامیر نے موقع سے فائدہ اٹھا کر انہیں پیٹ اور سینے پر گولی مار کر قتل کردیا۔
اس وقت کے اسرائیل میں داخلی سیکورٹی کے چیف کارمی گیلون نے بعد ازاں اپنے بیان میں انکشاف کیا کہ انہیں سیکورٹی ذرائع سے متوقع قاتلانہ حملے کا علم ہوچکا تھا جس پر انہوں نے اُس دن اسحاق رابین کو بلیٹ پروف جیکٹ پہننے اور معمول کی گاڑی میں جانے سے منع کیا تھا جس پر انہوں نے انکار کردیا تھا۔
کارمی گیلون نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے بینجیمن نیتن یاہو سے بھی رابطہ کیا تھا اور اسحاق رابین پر متوقع قاتلانہ حملے سے خبردار کرتے ہوئے درخواست کی تھی کہ وہ وزیر اعظم کیخلاف اشتعال انگیز تقاریر بند کردیں جسے بینجیمن نیتن یاہو نے ماننے سے انکار کردیا تھا۔
اسحاق رابین موت نے اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن کی کوششوں کو ناقابلِ تلافی نقصان اور شدید دھچکا پہنچایا۔