غزہ میں خوراک کے متلاشی فلسطینیوں پر فائرنگ، 27 مئی سے 613 شہادتیں
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ: اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں خوراک کی تقسیم کے مراکز پر اسرائیلی فوج اور امریکی کنٹریکٹرز کی فائرنگ کے نتیجے میں 27 مئی سے اب تک 613 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین، بچوں اور بزرگوں کی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہید ہونے والے تمام فلسطینی خوراک کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے تھے اور اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے کہ ان پر بلااشتعال فائرنگ کر دی گئی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ان امدادی مراکز پر تعینات امریکی کنٹریکٹرز جو اسرائیل اور امریکا کی حمایت یافتہ امدادی اسکیموں کی سیکیورٹی پر مامور تھے، نے براہ راست گولیاں چلائیں، گرنیڈز پھینکے اور بعض مواقع پر تفریح اور ہنسی مذاق کے انداز میں بھوکے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ غزہ میں خوراک کے متنازع مراکز کی سیکیورٹی اسرائیلی فوج کے بجائے نجی امریکی اداروں کو سونپی گئی ہے، جنہیں مکمل آزادی اور تحفظ حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ عناصر انتہائی سنگدل انداز میں انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں۔
ان دل دہلا دینے والے انکشافات پر عالمی برادری میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے، انسانی حقوق کے عالمی ادارے، اقوام متحدہ، اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ فوری جنگ بندی کرے اور فلسطینیوں کو انسانی امداد تک رسائی کے محفوظ راستے فراہم کرے۔
یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں 1500 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 251 افراد یرغمال بنائے گئے تھے، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر تباہ کن حملے شروع کر دیے۔ اسرائیلی بمباری کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور اب تک 53 ہزار سے زائد فلسطینی شہید جبکہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔
غزہ کے شہری شدید غذائی قلت، وبائی امراض، اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی جیسے خطرناک حالات سے دوچار ہیں۔ ایسے میں خوراک کی تقسیم کے مراکز پر بھی فلسطینیوں کو نشانہ بنایا جانا انسانی المیے کو مزید سنگین کر رہا ہے۔
عالمی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس صورتحال پر ہنگامی بنیادوں پر کارروائی کرے اور انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ میں خوراک
پڑھیں:
جموں وکشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے، الطاف وانی
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 60ویں اجلاس کے موقع پر مکالمے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے اان کا کہنا تھا کہ جب تک کشمیری عوام کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت نہیں دیا جاتا، اس وقت تک ایک جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے قیام کا عالمی وعدہ پورا نہیں ہو سکتا۔ اسلام ٹائمز۔ انسانی حقوق کے معروف کارکن اور کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین الطاف حسین وانی نے کشمیری عوام کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت سے محروم رکھنے کی بھارت کی پالیسی کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق الطاف وانی نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 60ویں اجلاس کے موقع پر "جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے فروغ" کے موضوع پر ایک آزاد ماہر کے ساتھ باضابطہ مکالمے کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سنجیدہ یقین دہانیوں کے باوجود، بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ اپنے وعدوں کو دس لاکھ سے زائد قابض فوجیوں کی تعیناتی، بڑے پیمانے پر نگرانی اور آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے جیسے سنگین اقدامات سے بدل دیا ہے۔ انہوں نے بھارت کے اگست2019ء میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے یکطرفہ اورغیر قانونی اقدامات کا حوالہ دیا جن کے تحت جموں و کشمیر کے الحاق اور آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ الطاف وانی نے خبردار کیا کہ جموں و کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے جہاں پرامن اختلافِ رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے اور صحافیوں کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کونسل پر زور دیا کہ وہ اپنے آئندہ اجلاس سے قبل کشمیر پر ایک خصوصی بین الاجلاسی پینل طلب کرے، جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی نگرانی کے لیے اقوام متحدہ کا فیلڈ مشن دوبارہ قائم کرے اور مستقبل کے اقدامات میں کشمیری سول سوسائٹی کے نمائندوں کی شمولیت کو یقینی بنائے۔ انہوں نے زور دیا کہ جب تک کشمیری عوام کو ان کا ناقابل تنسیخ حق خودارادیت نہیں دیا جاتا، اس وقت تک ایک جمہوری اور منصفانہ عالمی نظام کے قیام کا عالمی وعدہ پورا نہیں ہو سکتا۔