طے پایا کہ ہم کرومبر جھیل کا ٹریک چترال کی جانب سے کریں گے۔ لیکن اس منصوبے میں ایک دل چسپ اضافہ یہ ہوا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ اس ٹور میں بائیک بھی استعمال کی جائے گی اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی، جبکہ آخری مرحلے میں، یعنی لشکر گاز سے آگے، خالص ٹریکنگ کی جائے گی۔ اس لحاظ سے یہ ایک منفرد اور نسبتاً کم خرچ ٹور بننے والا تھا۔

چوںکہ میں ان دنوں لاہور میں مقیم ہوں جب کہ بڑے بھائی راشد اسرار اور غلام قادر کو فیصل آباد سے آنا تھا، اس لیے طے ہوا کہ میں لاہور سے بائیک سمیت بس کے ذریعے تیمرگرہ پہنچوں گا اور وہ دونوں حضرات فیصل آباد سے وہیں پہنچیں گے۔ میری ایک پرانی کم زوری ہے کہ سفر سے کئی دن پہلے ضروری اشیاء کی فہرست تو بنا لیتا ہوں، لیکن اس پر عمل بہت سستی سے کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ آخری دن آجاتا ہے اور تیاری بھاگ دوڑ میں مکمل ہوتی ہے، اور نتیجتاً ہمیشہ کوئی نہ کوئی اہم چیز رہ جاتی ہے۔ اس بار بھی ایک معمولی مگر اہم چیز رہ گئی، جس کا نقصان آگے جا کر ہوا۔

لاہور سے بس میں اپنی سیٹ ایڈوانس بک کروا لی تھی۔ سیٹ تو مل گئی، لیکن بائیک کے متعلق بتایا گیا کہ اس کے چارجز موقع پر وصول کیے جائیں گے۔ مجھے صرف یہ فکر تھی کہ بھائی لوگوں کو کوئی مسئلہ نہ ہو، کیوںکہ وہ آخری وقت پر ٹکٹ لیں گے، اور بعض اوقات ایک بس میں دو بائیکس رکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔

روانگی کا دن آیا، اور میں حسبِ معمول بھاگ دوڑ میں تیاری مکمل کر رہا تھا۔ چند چیزیں باقی تھیں کہ نماز کے لیے مسجد چلا گیا۔ واپسی پر دیکھا کہ بچوں نے میرے سامان سے ’’کُشتی‘‘ کی ہے اور میری لسٹ غائب ہے۔ وقت کم تھا، اس لیے نئی لسٹ بنانے کا وقت نہ ملا۔ یادداشت کے سہارے سامان مکمل کیا، اور طے کیا کہ کچھ راشن آگے سے لے لیا جائے گا۔

بائیک پر سارا سامان—کیمپنگ، کوکنگ اور ٹن فوڈ وغیرہ—لوڈ کرتے کرتے خاصا وقت لگ گیا۔ اللّہ اللّہ کر کے بس اڈے کی طرف روانگی ہوئی۔ بس روانہ ہونے میں صرف ایک گھنٹہ رہ گیا تھا۔ یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنے بھی میرے سفر بس سے شروع ہوئے، وہ ذلت سے خالی نہیں رہے۔ میرا کوئی بھی سفرنامہ اٹھا لیں، ابتدا کے ابواب میں یہی بھاگ دوڑ، رکاوٹیں اور مسئلے مسائل ہوتے ہیں۔

ٹھوکر نیاز بیگ سے لاری اڈا پہنچنے میں چالیس منٹ لگے۔ احمد ٹریولز پہنچا تو پتا چلا کہ بس کی ڈگی پہلے ہی سامان سے بھری ہے، اس لیے بائیک نہیں جاسکتی۔ میں جھنجھلا اٹھا کہ اگر پہلے ہی بائیک بک کر لیتے تو یہ مسئلہ نہ ہوتا۔ بہرحال، بتایا گیا کہ ایک گھنٹے بعد اگلی بس روانہ ہوگی، اس میں چلے جائیے۔ میں نے سوچا کہ فیصل آباد والے ساتھیوں سے پھر بھی پہلے پہنچ جاؤں گا، لہٰذا یہ آپشن قبول کرلیا۔

آدھے پونے گھنٹے بعد اگلی بس آگئی۔ کنڈکٹر نے کہا تھوڑا انتظار کریں، بائیک لوڈ کر دیتے ہیں۔ کچھ دیر بعد مینجر نے مجھے بلایا اور مضطرب چہرے کے ساتھ اطلاع دی کہ اس بس کی ڈگی بھی سامان سے بھری ہوئی ہے۔ غصہ تو بہت آیا، لیکن ضبط کیا۔ اس نے بتایا کہ ’’سپر تیمرگرہ‘‘ بس سروس دس بجے نکلتی ہے، ان کے پاس چلے جائیں، وہ لے جائیں گے۔ میں نے کہا کہ نیٹ پر تو نو بجے کا وقت لکھا تھا۔ کہنے لگا،’’اب دس بجے جا رہے ہیں۔‘‘ میں نے مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور مطلوبہ اڈے کی طرف نکل پڑا۔

وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ بس نو بجے ہی جاچکی ہے اور اب پونے دس بج رہے ہیں۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ فیصل آباد والوں سے پوچھا، شاید وہ بھی رہ گئے ہوں، مگر انہوں نے بتایا کہ وہ روانگی سے کچھ منٹ پہلے ہی پہنچے تھے، بائیکس لوڈ کیں اور اب سفر پر ہیں۔

میری پریشانی دیکھ کر وہاں سوات جانے والی بس کے کنڈکٹر نے کہا:’’ہمارے ساتھ چلیں، چکدرہ اتار دیں گے، وہاں سے تیمرگرہ صرف چالیس کلومیٹر ہے، بائیک پر آسانی سے پہنچ جائیں گے۔‘‘ آپشن تو معقول تھا، مگر کرایہ کافی زیادہ مانگا۔ خیر، مجبوراً ٹکٹ لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ بائیک سے سامان اتار لیں، پھر بائیک لوڈ کریں گے۔ جیسے ہی میں نے مشکل سے بندھا ہوا سامان نیچے رکھا، دیکھا کہ بس اڈے سے نکل کر دوڑ رہی ہے۔ میں حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ تین سو میٹر دور جا کے بس رکی اور پکارنے لگے کہ بائیک لے کر آؤ۔

دو مسئلے تھے: ایک تو سامان وہیں بکھرا ہوا تھا، چوری کا اندیشہ تھا۔ دوسرا، بائیک کی پیٹرول کی ٹنکی خالی تھی۔ (نوٹ: بائیکر حضرات خیال رکھیں، جب بھی بائیک بس پر لوڈ کرنی ہو تو صرف اتنا پیٹرول ڈالیں کہ بائیک اڈے تک پہنچ جائے، کیوںکہ بس والے ٹنکی خالی کرواتے ہیں)۔ خیر، سامان وہیں چھوڑ کر بائیک پیدل لے گیا، اور لوڈ کروائی۔ پھر واپس بھاگا، سامان اٹھایا اور اطمینان ہوا کہ سب کچھ موجود ہے۔ اب نئی مشکل یہ تھی کہ سامان خاصا زیادہ تھا، اور ایک ہی بار میں اٹھا کر لے جانا تھا۔ رک سیک، سیڈل بیگز، ٹینٹ، ٹینک بیگ۔۔۔ کچھ ہاتھوں میں، کچھ گلے میں ڈالے، اور کوئی تیس چالیس کلو وزن لے کر ہانپتا کانپتا بس تک پہنچا۔ عجلت میں سامان لوڈ کیا اور پسینے سے شرابور ہو کر بس میں جا بیٹھا۔ نہ کچھ کھایا تھا، نہ کافی دیر سے واش روم جا سکا تھا۔ کنڈکٹر کی منت سماجت کر کے واش روم استعمال کیا، اور باقی ساری رات کا سفر بھوکے پیٹ ہی گزری۔

صبح چھے بجے کے قریب بس نے مجھے چکدرہ اتارا۔ بائیک نکالی، سامان اتارا تو ایک اور مصیبت سامنے آئی۔ سامان باندھنے والی ’’بنجیاں‘‘ (Bungee cord) غائب تھیں۔ لاکھ کہا کہ اچھی طرح ڈگی میں دیکھو، مگر کنڈکٹر صاف مکر گیا کہ ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی، اور بس لے کر روانہ ہو گیا۔

صبح چھے بجے بس والوں نے مجھے چکدرہ کے قریب اتارا اور غائب ہوگئے، جب کہ سامان باندھنے والی بنجیاں بھی ناپید تھیں۔ ایک تو مجھے اس سنسان سی جگہ پر اتارا گیا تھا اور دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ بنجیاں کوئی ایسی عام چیز نہیں جو ہر جگہ سے آسانی سے مل جائے۔ خیر، کچھ دیر بعد یاد آیا کہ ایک ایکسٹرا بنجی میں نے کسی بیگ میں رکھی تھی۔ تھوڑی تلاش کے بعد وہ برآمد کرلی۔ تین بنجیوں سے بندھا ہوا سامان ایک بنجی سے باندھنا کوئی آسان کام نہ تھا، لیکن اب اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ سامان باندھا اور اللہ کا نام لے کر آہستہ آہستہ چل پڑا۔

اب میرا ہدف تھا کہ کسی طرح اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ جاؤں، کیوںکہ مجھے معلوم تھا کہ بھائی راشد اسرار ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتے ہیں۔ ماضی میں جب بھی کوئی افتاد آن پڑی—چاہے میری کسی بے وقوفی کے باعث ہی کیوں نہ ہو—ہمیشہ انہوں نے ہی مصیبت اپنے سر لی اور اسے دور کیا۔

اب صورت حال یہ تھی کہ زیرتعمیر سڑک کے باعث ہر دس کلومیٹر پر سامان ایک طرف کو جھک جاتا اور مجھے اتر کر اسے دوبارہ باندھنا پڑتا۔ تیمرگرہ سے چند کلومیٹر دور ہی تھا کہ ایک بس کے زور دار ہارن پر مجھے سائیڈ لینا پڑی، اور جیسے ہی بس قریب سے گزری، میں نے دیکھا کہ بھائی راشد اور غلام قادر بس میں بیٹھے پرجوش انداز میں ہاتھ ہلا رہے ہیں۔ ان کا چہرہ دیکھ کر میرا کل سے گرا ہوا حوصلہ بحال ہوگیا۔ مزید ایک آدھ بار سامان باندھا اور آخرکار میں بھی ان کے پیچھے تیمرگرہ پہنچ گیا۔

بھائی راشد نے نہ صرف میرا کچھ سامان اپنی بائیک پر لوڈ کیا بلکہ ایک اضافی بنجی بھی دے دی، اور میرا سامان اپنے مخصوص ماہرانہ انداز میں باندھ دیا۔ وہ بنجیوں سے سامان باندھنے کی ایسی تیکنیک استعمال کرتے ہیں کہ جتنا بھی سامان ہو، شاید ہی اپنی جگہ سے ہلے۔

ایک بات اور بتاتا چلوں کہ ہمارے عمومی ٹورز میں بھائی راشد کے علاوہ تقریباً سب نہلے دھلے اکٹھے ہوتے ہیں۔ چلنے سے پہلے غلام قادر نے اعلان کیا کہ بائیک کا پیٹرول فراہم کرنے والا پلاسٹک کا چھوٹا سا پائپ، کسی دھینگا مشتی کے نتیجے میں، ٹوٹ چکا ہے۔ صبح کا وقت تھا، جمعے کا دن تھا، اور تقریباً سارا بازار بند تھا۔ ایک نئی مصیبت گلے پڑ گئی۔ بھائی راشد نے کہا: ’’میں بازار کی طرف جاتا ہوں، پائپ ڈھونڈ کے لاتا ہوں، تم بائیک کو پیٹرول پمپ پر لے چلو۔‘‘ غلام قادر بائیک گھسیٹتے ہوئے روانہ ہوا، اور دو منٹ بعد میں بھی اس کے پیچھے نکلا، مگر وہ کہیں نظر نہ آیا۔ حیرت ہوئی کہ وہ تو پیدل نکلا ہے، اتنی جلدی کہاں غائب ہوسکتا ہے؟ میں چوک تک گیا، لیکن وہ نہ دکھائی دیا۔ میں نے سوچا کہ شاید وہ دائیں طرف شہر کی طرف مڑ گیا ہوگا، چنانچہ میں بھی ادھر مڑ گیا، مگر پھر بھی کچھ پتا نہ چلا۔ پانچ منٹ بعد بھائی راشد واپس آ گئے۔ میں نے پوچھا، ’’پائپ کا کیا بنا؟‘‘ کہنے لگے، ’’موٹر سائیکلوں کی کوئی دکان تو کھلی نہیں، لیکن بلڈنگ میٹیریل والوں سے واٹر لیول چیک کرنے والا پائپ مطلوبہ سائز میں کٹوا لیا ہے، یعنی جگاڑ لگا لیا ہے۔‘‘ اب ہم چوک میں کھڑے ہو کر غلام قادر کا انتظار کرنے لگے۔ میں نے کال کی تو موبائل آف جا رہا تھا۔ بھائی راشد نے بتایا کہ جب رات کو بس میں بیٹھے تھے تو اس کے پاس صرف آٹھ فیصد بیٹری تھی، اور اس نے گھر کال ملائی اور تب تک سکون نہیں پایا جب تک بیٹری مکمل ختم نہ ہوگئی۔ ہم نے سوچا وہ پیٹرول پمپ پر ہی ہوگا۔ وہاں گئے، حلیہ بتایا، فلر نے پورے یقین سے کہا کہ اس نے یہاں سے پیٹرول ڈلوایا تھا اور دیر کی طرف چلا گیا ہے۔ ہمیں یقین نہ آیا کہ وہ اکیلا آگے کیسے جا سکتا ہے۔ فیصلہ ہوا کہ میں آگے جاتا ہوں، اور بھائی راشد پیچھے جا کر بازار میں اسے ڈھونڈتے ہیں۔ میں نے خاصی اسپیڈ سے بائیک دیر روڈ پر دوڑا دی۔ کچھ دیر بعد رک کر کال چیک کی۔ تقریباً تیس کلومیٹر آگے گیا، ایک دو جگہ پر لوگوں سے بھی پوچھا کیونکہ بائیکر اپنے مخصوص گیجٹس کی وجہ سے جلد پہچانے جاتے ہیں، مگر کوئی سراغ نہ ملا۔

ایک ہوٹل پر بائیک روکی، بھائی راشد سے رابطہ کیا۔ وہ کہنے لگے:’’میں نے تو چَپّا چَپّا چھان لیا، مگر وہ نہیں ملا۔ تم ادھر ہی رکو، میں بھی آ رہا ہوں، پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔‘‘ رات سے کچھ نہ کھایا تھا، دس بج چکے تھے، بھوک ستا رہی تھی۔ میں ناشتہ کرنے لگ گیا۔ کوئی آدھا گھنٹہ بعد بھائی راشد پہنچے، ان کے لیے بھی ناشتہ منگوایا۔ ہم غلام قادر کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔ مجھے غصہ آ رہا تھا کہ اگر ذرا سی عقل استعمال کرتا تو کہیں سے موبائل چارج کر کے ہمیں کال کرلیتا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ جب تک وہ کال نہیں کرتا، ہم یہیں بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں۔ باز اوقات دل میں خیال آتا کہ کہیں وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہوگیا ہو۔

کوئی آدھے پونے گھنٹے بعد اس کے نمبر سے کال آئی۔ اس نے ’’ہیلو‘‘ کہا، ابھی بھائی نے پوچھا ہی تھا کہ ’’کہاں ہو؟‘‘ کہ کال کٹ گئی۔ کچھ سکون تو ملا کہ موصوف زندہ اور باہوش و حواس ہیں۔ دس پندرہ منٹ بعد دوبارہ کال آئی۔ پتا چلا کہ وہ اسی چوک میں کھڑا ہے جہاں سے گم ہوا تھا۔ اسے کہا گیا کہ سیدھا دیر روڈ پر آ جاؤ، مگر وہ گھبرایا ہوا تھا، کہنے لگا:’’مجھے واپس آ کر یہاں سے لے جائیں۔‘‘ بھائی راشد کو غصہ آگیا، کہنے لگے: ’’تم کوئی بچے ہو؟ سیدھا سیدھا راستہ ہے، خود ہی آجاؤ۔‘‘

ہم نے بائیکس بالکل سڑک کے کنارے کھڑی کر دیں تاکہ کسی طور بھی وہ ہم سے آگے نہ نکل جائے۔ آدھے گھنٹے کا سفر وہ ایک گھنٹے میں طے کرکے، بوکھلایا ہوا ہمارے پاس پہنچا۔ بلاوجہ کا ایڈونچر چار پانچ گھنٹے ضائع کرنے کے بعد ختم ہوا۔

اب جو کہانی سامنے آئی، وہ کچھ یوں تھی: غلام قادر اڈے سے پیدل نکلا، تھوڑا آگے جا کر موٹرسائیکل سٹارٹ کرلی کیوںکہ تھوڑا بہت پیٹرول کاربوریٹر میں موجود تھا۔ چوک سے سیدھا پیٹرول پمپ چلا گیا۔ میں جب پیچھے نکلا تو سمجھا وہ دائیں طرف بازار کی طرف گیا ہوگا، اور بھائی راشد سے آ ملنے کے بعد ہم دونوں چوک پہنچ گئے۔ اس دوران غلام قادر پیٹرول ڈلوا کر واپس اڈے پر جا چکا تھا۔ پیٹرول پمپ والے نے ہمیں گم راہ کیا کہ وہ دیر کی طرف چلا گیا ہے، جس پر میں آگے نکل گیا اور بھائی راشد احتیاطاً پیچھے بازاروں میں ڈھونڈنے لگے۔ وہ دو بار اڈے کے باہر تک بھی گئے، مگر غلام قادر اڈے کے اندر بیٹھا انتظار کرتا رہا کہ اسے وہاں سے لے جایا جائے گا۔ اسے ہمارے نمبر زبانی یاد نہ تھے، اور دو ڈھائی گھنٹے بعد اس کی عقل نے کام کیا کہ موبائل چارج کر کے کال کرے۔ رابطہ ہونے کے بعد بھی سخت پریشانی کے عالم میں آگے آیا کہ کہیں راستہ کسی اور طرف نہ مڑ جائے۔ ایک اور مصیبت یہ تھی کہ اس کے پاس جو موبائل تھا، وہ ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد بند ہوجاتا۔ تب مجھے یاد آیا کہ سات سال پہلے جب وہ ہمارے ساتھ کرومبر ٹریک پر آیا تھا، تب بھی ایسا ہی ایک ’’نمونہ‘‘ موبائل لایا تھا، جس کا اسپیکر خراب تھا، اور پھر لاؤڈر آن کرکے گھر سے آئی کال سنتا تھا۔ اور یہ تو ہمارے شادی شدہ بھائی جانتے ہی ہیں کہ لاؤڈر آن کر کے بیگم کی کال سننے سے ماحول میں کس قدر صوتی آلودگی پیدا ہو سکتی۔

ہم نے ناشتے کے دوران غلام قادر کو آئندہ گم ہونے سے بچانے کے لیے پلاننگ کی۔ میرے ذہن میں ایک ترتیب آگئی کہ سب سے آگے میں چلوں گا درمیان میں غلام قادر ہوگا اور آخر میں راشد بھائی ہوں گے۔ میری ایک عادت ہے میں مسلسل ایک ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ بائیک پر سفر نہیں کرتا۔ کسی نہ کسی بہانے رکتا ہوا جاتا ہوں کبھی چائے کے لیے کبھی نماز کے لیے کبھی کھانا کھانے کے لیے، لیکن آج کافی زیادہ وقت ضائع ہوچکا تھا اس لیے بغیر رکے ہی جا رہے تھے۔ ہمارے پلان کے مطابق آج ہمیں بونی تک پہنچنا تھا۔ ہم کوئی دو بجے لواری ٹنل تک پہنچ گئے۔ بائیکر حضرات کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ بائیک لواری ٹنل کے اندر سے چلا کر نہیں لے جاسکتے یا تو کسی لوڈر گاڑی پر لوڈ کر کے لے جا سکتے ہیں یا پھر لواری ٹاپ کے اوپر سے چلا کر جا سکتے ہیں۔ لواری ٹاپ سے بیس پچیس کلومیٹر زائد سفر کرنا پڑتا دشوار گزار بھی ہے اس لیے دو اڑھائی گھنٹے زیادہ وقت لگ جاتا۔

ہم نے ایک شہ زور والے سے بات کی جس نے فی بائیک چار سو روپیہ وصول کیا اور بائیک لوڈ کرنے لگا۔ اس میں دو بائیک رکھنے کی جگہ تھی تو اس نے پہلے بھائی راشد کی بائیک لوڈ کی اور پھر میری کرنے لگا تو غلام قادر کہنے لگا پہلے میری کرو، میں نے بھی کہا کہ پہلے اس کی کرلو لیکن پک اپ والا جو کہ پٹھان تھا، اس نے کہا تم لوگ چپ کرو۔ اس نے بڑی دو بائیکس آگے کھڑی کیں اور غلام قادر کی بائیک کا بس آگے والا ٹائر اوپر چڑھایا اور پیچھے سے ہوا میں معلق کردی۔ غلام قادر کی تو جان پر بن گئی، لیکن اس نے رسی سے خوب کس کے باندھ دی۔ میں اور غلام قادر ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔ پھر جو اس نے اندھیری ٹنل میں ڈال کر گاڑی دوڑائی۔۔۔ خدا کی پناہ، اور ساتھ میں ٹنل کا شور عجیب ہی سماں باندھ رہا تھا۔

خیر خیریت سے ٹنل کے پار پہنچے بائیکس اتاریں اور پھر سے چل سو چل۔ چار بجے کے قریب چترال پہنچے۔ اب تک بھوک بھی خوب لگ چکی تھی۔ ایک ذرا اچھے ہوٹل کا پوچھ کے پہنچے۔ ایک چھوٹا سا لطیفہ پھر بنا۔ چترال پل کراس کر کے شہر کی طرف بائیں مڑ گئے۔ غلام قادر نے پل کے پیچھے تھوڑی بریک لگائی بھائی راشد اسے کراس کرگئے۔ غلام قادر نے ہمیں مڑتے نہیں دیکھا اور پل کراس کر کے دائیں طرف مڑگئے۔ ہم تھوڑا آگے جا کے سڑک پر ہی رک گئے لیکن غلام قادر پھر غائب۔ آخر راشد بھائی واپس گئے اور تھوڑی بھاگ دوڑ کر کے پھر اسے پکڑ لائے۔

کھانا ٹھیک تھا بس چائے تین کپ کا آرڈر دیا تھا لیکن انہوں نے بڑی سی چینک میں کوئی نو کپ بھجوا دیے۔ وہ علیحدہ بات کہ دودھ اور پتی صرف تین کپ کا ہی ڈالا ہوا تھا۔ ہم جلدی میں تھے، ایک ایک کپ پی ہی لیا لیکن جاتے ہوئے انہیں سمجھایا بھائی چائے تھوڑی تھوڑی دے دیا کرو لیکن کچھ مزے کی تو ہونی چاہیے۔ یہاں سے نکلے تو اب منزل بونی تھی۔ خیر ریشن سے پہلے غلام قادر نے رولا ڈالا کہ میرا پیٹرول ختم ہونے والا ہے۔ حیرانی سے پوچھا اتنی جلدی تو ختم نہیں ہوسکتی فل ٹنکی، کہنے لگا کہ میں نے تو پانچ لیٹر ڈلوایا تھا۔ سمجھایا بھائی میاں! ٹور میں جب بھی پیٹرول پمپ پر پہنچیں ٹینکی فل کروانی ہے ہمیشہ۔

میری بائیک کی چین مسئلہ کر رہی تھی، میرے خیال میں ڈھیلی ہوچکی تھی، راستے سے بھی ٹائٹ کروائی تھی لیکن پھر بھی تنگ کر رہی تھی، اور بائیکر حضرات جانتے ہیں کہ یہ سوزوکی کی جی ایس 150 کا پیدائشی فالٹ ہے۔ ریشن سے غلام قادر نے پیٹرول ڈلوایا۔ میں نے وہاں کھڑے لڑکوں سے کسی مکینک کا پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تو دکان بند کرکے چلا گیا ہوگا۔ پھر ایک لڑکے نے دوسرے سے کہا کہ تم بھاگ کر اسے گھر سے لے آئو، میں انہیں لے کے دکان پر پہنچتا ہوں۔ ہم نے بہت کہا کہ ہم چلے جائیں گے شاپ تک، لیکن وہ لڑکے ہمیں اپنے ساتھ ہی لے کر شاپ تک پہنچے۔ تھوڑی دیر بعد میکینک بھی پہنچ گیا۔ اس نے بائیک دیکھی تو کہنے لگا چین ڈھیلی نہیں زیادہ ٹائٹ ہوچکی ہے، کیوں کہ گرم علاقے سے ٹھنڈے علاقے میں آگئی ہے۔ ہم ہم اسے بار بار کسوا رہے تھے اس لیے مسئلہ حل نہیں ہورہا تھا۔ بندہ سمجھ دار لگا اس لیے سب نے اپنی بائیکس کی ضروری چیزیں چیک کروالیں۔ جب پیسے پوچھے تو کہنے لگا آپ مہمان ہیں کوئی پیسہ نہیں لوں گا۔ ہم نے بہت کوشش کی لیکن وہ تو بضد تھا چائے بوتل بھی پلواتا ہوں۔ ان سب کی مہمان نوازی نے ہمارے دل جیت لیے۔ 

ریشن سے نکلنے تک رات ہوچکی تھی، آگے روڈ بھی زیرتعمیر تھا جس کی وجہ سے سپیڈ کافی کم تھی۔ ہم کوئی نو بجے کے قریب بونی میں داخل ہوگئے۔you love i booni لکھا ہوا ہمارا استقبال کر رہا تھا۔ بازار میں رک کر ہوٹل کا پوچھنے ہی لگے تھے کہ ایک جیپ والا ہمارے پاس آکر رکا اور بولا، ادھر ایک بائیکر کا ہوٹل ہے، تم بھی بائیکر ہو اس لیے تمہیں اس کے پاس لے چلتا ہوں۔ ہم اس کے ساتھ ہولیے۔ وہ جیپ چلاتا بازار سے بھی باہر نکل گیا۔ پھر بونی شہر بھی ختم ہوگیا لیکن وہ چلتا ہی جا رہا تھا۔ روک کر پوچھا بھائی! کہاں لے جا رہے ہو۔ وہ کہنے لگا بس قریب ہی ہے۔ تقریباً تین کلو میٹر فاصلہ طے کر لیا جب اکرام اللّہ نامی بائیکر کا ہوٹل آیا۔ کچھ بھاؤ تاؤ کرکے مناسب پیسوں میں کمرا حاصل کیا اور سونے کی کوشش کرنے لگے۔

تھکاوٹ بہت زیادہ ہوچکی تھی۔ آج تقریباً تین سو کلومیٹر فاصلہ بھی طے کر لیا تھا اور دوسرے آنے والے کل کے اندیشے بھی دل میں تھے کیوںکہ اس سے آگے دو سو کلومیٹر سے زیادہ کی آف روڈ ہماری منتظر تھی۔

ہم نے ناشتے کے دوران غلام قادر کو آئندہ گم ہونے سے بچانے کے لیے پلاننگ کی۔ میرے ذہن میں ایک ترتیب آ گئی کہ سب سے آگے میں چلوں گا درمیان میں غلام قادر ہوگا اور آخر میں راشد بھائی ہوں گے۔ 

تھکاوٹ بہت زیادہ ہوچکی تھی آج تقریباً تین سو کلومیٹر فاصلہ بھی طے کرلیا تھا اور آنے والے کل کے اندیشے بھی دل میں تھے، کیوںکہ اس سے آگے دو سو کلومیٹر سے زیادہ کی آف روڈ ہماری منتظر تھی۔

میرے کرومبر جھیل کے سفرنامے کا نام وادی یارخون کیوں ہے۔ آپ لوگوں میں سے کچھ نے سوچا بھی ہوگا۔ وجہ تسمیہ صرف اتنی ہے کہ یہ نام جب سے سنا تھا مجھے بہت پسند تھا۔ جیسے تارڑ صاحب نے اپنے کرومبر جھیل سفرنامے کا نام یاک سرائے رکھا تھا، حالاںکہ یاک سرائے نام کی کوئی جگہ نہیں۔ بس اس وادی میں یاکوں کی بہتات کی وجہ سے تارڑ صاحب نے یہ نام وضع کیا۔

ہم پاور یار خون تک پہنچے تھے۔ صبح بغیر ناشتہ کیے نکلے تاکہ زیادہ وقت ضائع نہ ہو۔ پاور سے آگے ایک گاؤں تھا یوپو۔ وہاں ناشتے کے لیے رک گئے کیوںکہ آگے جلد کسی ہوٹل آنے کے امکانات ناپید تھے۔ ہوٹل والے سے ناشتے کا پوچھا تو اس نے کہا چائے ملے گی اور ساتھ ایک عجیب وغریب سی چیز کا نام بتایا جو کہ کوئی مقامی روٹی وغیرہ ہے۔ ہم نے کہا بھیا کوئی انڈا پراٹھا ہی بنا دو تو اس نے اس سلسلے میں معذوری کا اظہار کیا۔ وہ بہت زور دے رہا تھا کہ تازہ دودھ کی چائے کے ساتھ وہ روٹی آپ کو پسند آئے گی۔

خیر چائے بنی اور اس مقامی روٹی کے چند نوالے سب نے بددلی سے کھائے لیکن پھر بھی اسے کہا جناب بہت اچھی ہے اور اس کا دل رکھنے کے لیے تصویر بھی بنائی اس روٹی کی۔۔۔ جو تصویر میں کافی اچھی لگ رہی تھی۔ اللّہ کا نام لے کر پھر سفر شروع کیا لیکن یوپو سے آگے کا راستہ انتہائی کٹھن تھا، بڑے بڑے پتھر، جگہ جگہ بہتی نالیاں، اور رفتار پہلے سے بھی بہت کم ہوگئی تھی۔

حالاںکہ ارد گرد کے مناظر بہت شان دار تھے، خاص طور پر کچی مٹی کے پہاڑ جن پر بارشوں کے بہاؤ سے بڑی خوب صورت فورمیشن بن جاتی ہے، جیسے بلوچستان میں ہنگول نیشنل پارک میں بھی ہیں۔ ایک جگہ تو وسیع میدان میں بے شمار چھوٹی چھوٹی ندیاں تھیں جن میں موجود پتھروں سے کئی بار گرتے گرتے بچے۔ میرے اور غلام قادر کے جوگر باربار بھیگ رہے تھے۔ ایسی ندی میں جب آپ جوگروں کو بچانے کے لیے پاؤں تھوڑا اوپر کرلیتے ہیں تو بائیک پر کنٹرول کافی کم زور پڑ جاتا اور گرنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ بھائی راشد نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ ایسے علاقوں کی رائیڈ کے لیے پلاسٹک کی چپل کا استعمال کرتے ہیں اور آرام سے پاؤں پانی میں ڈال کر بہترین بیلنس سے چلتے ہیں۔

ہم کافی برے راستے سے دوپہر کو یارخون لشٹ تک پہنچے۔ شنید تھی کہ یہاں پر ایک ہوٹل ہے اور موبائل فون سگنلز بھی صرف یہیں تک ہیں، اس سے آگے کسی موبائل کی سروس نہیں ہے۔ یہاں پر تھوڑے فریش ہوئے۔ آخری بار گھر کالز بھی کیں اور پھر روانہ ہو گئے۔ مستوج سے پاور تک تھوڑی مناسب آف روڈ ہے۔ پاور سے لشٹ تک بہت بری سڑک ہے لیکن اس سے آگے تو بس بڑے بڑے پتھر ہیں جن پر بائیک کتھک ڈانس کرتے ہوئے چلتی ہے۔ سڑک باربار کافی اوپر تک چلی جاتی اور بہت تنگ ہوجاتی اور جب بائیک پتھروں پر ڈانس کرتی تو ہمیشہ کسی بے وقوف جانور کی طرح کھائی کی طرف جھانکنے کی کوشش کرتی، اور اس دھینگامشتی میں کئی بار بند بھی ہوجاتی۔

ایک جگہ پھر ایسی شدید لینڈ سلائیڈ کا علاقہ ہے کہ ہر پتھر ہی اپنی جگہ چھوڑنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ دریا کے بالکل ساتھ آجانے کی وجہ سے بس سلائیڈ کے پتھروں کو ہی تھوڑا سیدھا کر کے راستہ قرار دے دیا گیا ہے، اور راستہ بھی اس طرح کا ہے کہ جیسے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہوں۔ آپ ان پتھروں پر بائیک کو پوری قوت سے پہاڑی نما چڑھائی پر چلا رہے ہوتے ہیں جس سے بائیک بار بار صراط مستقیم سے بھٹکنے لگتی ہے۔ اگر بائیک کو کنٹرول کرنے کے لیے تھوڑا آہستہ کرتے تو وہ اوپر چڑھنے سے انکاری ہوجاتی۔ میرے بائیک چلانے میں بھائی راشد ہمیشہ سے ایک غلطی کی نشان دہی کرتے تھے کہ تم ایسے پتھروں کے اوپر صرف بائیک پر انحصار کرتے ہو حالاںکہ ایسی جگہوں پر اپنے پاؤں کا بھی استعمال کرنا پڑتا ہے، کیوںکہ جب پتھروں میں بائیک پھنسے تو پاؤں کا استعمال نہ کریں تو بائیک پھنس جاتی ہے اور ایک بار پھنس جائے تو پھر دھکے لگا کے نکالنی پڑتی ہے۔ اور یہ پہلا ٹور تھا بقول بھائی راشد کے کہ میں بھی اب تک پاؤں کا استعمال کافی اچھا کر رہا تھا اب تک۔

      ( جاری ہے ) 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور غلام قادر بھائی راشد نے غلام قادر نے کرومبر جھیل نے بتایا کہ پیٹرول پمپ سو کلومیٹر فیصل ا باد اس سے ا گے گھنٹے بعد بائیک لوڈ میں بھی ا کی وجہ سے روانہ ہو جائیں گے لے جائیں انہوں نے بائیک پر کہ بائیک کہنے لگا لیکن اس لیکن وہ کے قریب تھا اور تک پہنچ ہوا تھا کرنے لگ رہا تھا چلا گیا نے سوچا پھر بھی اور پھر رہی تھی تھوڑا ا ا گے جا ا یا کہ لیکن ا لوڈ کی کہا کہ کے پاس کے بعد کوئی ا اور اس ہے اور لوڈ کر نے کہا تھی کہ کا نام تھا کہ اور دو کہ میں اس لیے بھی اس گیا کہ سے بھی کیا کہ کی طرف سے کہا کہ ایک ہوا کہ

پڑھیں:

ایپل کا انقلابی قدم: آئی فون 17 پرو میکس میں 5000 ایم اے ایچ بیٹری، پہلی بار پورٹ فری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کیلیفورنیا: ایپل نے اس سال اپنی نئی آئی فون 17 سیریز میں ایک بڑا انقلاب لانے کی تیاری کرلی ہے اور اگر حالیہ لیکس درست ثابت ہوئیں تو یہ کمپنی کی تاریخ کا سب سے طاقتور بیٹری والا اور سب سے پتلا اسمارٹ فون بھی ہوگا۔

ٹیکنالوجی کی دنیا میں زیر گردش ایک نئی لیک کے مطابق آئی فون 17 پرو میکس وہ پہلا ایپل فون ہوگا جس میں 5000 ایم اے ایچ بیٹری دی جائے گی۔ یہ پیش رفت ایپل صارفین کے لیے غیر معمولی خوشخبری ہے جو طویل عرصے سے آئی فون کی بیٹری لائف پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

ایپل نے اب تک اپنے کسی آئی فون ماڈل میں اتنی بڑی بیٹری نہیں دی۔ مثال کے طور پر موجودہ آئی فون 16 پرو میکس میں 4685 ایم اے ایچ بیٹری استعمال کی گئی ہے، جو اینڈرائیڈ کے بیشتر فلیگ شپ فونز سے کم مانی جاتی ہے۔ تاہم نئے ماڈل میں 5000 ایم اے ایچ بیٹری متعارف کروانے سے ایپل پہلی بار بیٹری کے میدان میں اینڈرائیڈ فلیگ شپ فونز کے ہم پلہ ہو جائے گا۔

بڑی بیٹری کے ساتھ، صارفین کو پاور سیونگ فیچرز کے ذریعے مزید طویل بیٹری ٹائمنگ حاصل ہونے کا امکان ہے، جو خاص طور پر ان افراد کے لیے خوش آئند ہوگا جو فون کو ورک، گیمنگ یا ویڈیو ایڈیٹنگ جیسے بھاری کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

دوسری جانب، ایپل آئی فون 17 ایئر کے ساتھ ایک اور انقلابی قدم اٹھانے جا رہا ہے۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق، یہ فون محض 5.5 ملی میٹر موٹائی کا ہوگا، یعنی اب تک کا سب سے پتلا آئی فون۔

اس فون کے پیچھے صرف ایک کیمرا ہوگا اور یہ ممکنہ طور پر دنیا کا پہلا پورٹ فری اسمارٹ فون بھی ہوگا، یعنی اس میں چارجنگ یا ڈیٹا ٹرانسفر کے لیے کوئی فزیکل پورٹ نہیں دی جائے گی۔ برسوں سے افواہوں میں رہنے والی “پورٹ فری” ٹیکنالوجی بالآخر حقیقت کا روپ دھارنے جا رہی ہے۔

آئی فون 17 ایئر میں ایپل کا نیا A19 چپ سیٹ دیا جائے گا، جو کہ پاور ایفیشینسی اور رفتار کے اعتبار سے نمایاں ہوگا۔ قیمت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس کا ابتدائی ماڈل تقریباً 900 امریکی ڈالرز میں دستیاب ہوگا۔

رپورٹس کے مطابق آئی فون 17 سیریز کو ستمبر 2025 میں باقاعدہ طور پر متعارف کرایا جائے گا۔ ایپل کے شائقین اور ٹیک ماہرین پہلے ہی اس سیریز کو ایپل کی تاریخ کا سب سے انوکھا اور جدید فیچر سے لیس قدم قرار دے رہے ہیں۔

یہ نئی سیریز نہ صرف بیٹری، ڈیزائن اور چپ سیٹ کے میدان میں نئی جہتوں کا تعین کرے گی بلکہ اسمارٹ فونز کے مستقبل کا اندازہ بھی پیش کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • ایپل کا انقلابی قدم: آئی فون 17 پرو میکس میں 5000 ایم اے ایچ بیٹری، پہلی بار پورٹ فری
  • لاہور: تیز رفتار موٹرسائیکل سوار درخت سے ٹکرا کر جاں بحق
  • ہیروں کے تاجر نیرو مودی کا بھائی نہال مودی امریکا میں گرفتار
  • بھارتی فضائیہ کے دو اہلکار جھیل میں ڈوب کر ہلاک
  • حکومتی بے بسی، مغوی اسسٹنٹ کمشنر کے بھائی کی کالعدم تنظیم سے رہائی کی اپیل
  • دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن کے تحت سیمینار میں طلبہ کو شیلڈ پیش کی جارہی ہے
  • لاڑکانہ: بہن کے قتل کے الزام میں بھائی گرفتار
  • خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں گلیشیائی جھیل پھٹنے سے سیلاب کا خطرہ
  • ماہ محرم الحرام امن اوربھائی چارے کا درس دیتا ہے، استحکام پاکستان