وزیراعظم کی ہدایت پر ایف بی آر نے اے آئی پر مبنی کسٹمز کلیئرنس اور رسک مینجمنٹ سسٹم متعارف کرا دیا
اشاعت کی تاریخ: 7th, July 2025 GMT
وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مبنی کسٹمز کلیئرنس اور رسک مینجمنٹ سسٹم متعارف کرایا ہے۔پیر کو اسلام آباد میں ایف بی آر اصلاحات سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ایف بی آر اصلاحات حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں۔ ٹیکس نظام کو خودکار بنا کر ہم اسے مزید شفاف اور موثر بنا رہے ہیں۔اجلاس کو بتایا گیا کہ نئے رسک مینجمنٹ سسٹم کے تحت امپورٹ اور ایکسپورٹ کے دوران اشیا کی لاگت اور نوعیت کا تخمینہ AI اور BOTs کے ذریعے لگایا جائے گا۔ نئے سسٹم کی ابتدائی جانچ کے دوران بانوے فیصد سے زیادہ بہتر کارکردگی دیکھی گئی۔ابتدائی جانچ نے نہ صرف ٹیکس وصولی کے لیے مزید 83 فیصد گڈز ڈیکلریشنز (GDs) کی نشاندہی کی بلکہ گرین چینل کے ذریعے نمایاں طور پر مزید GDs کی کلیئرنس کو بھی قابل بنایا۔نیا رسک مینجمنٹ سسٹم سسٹم میں شفافیت لائے گا، انسانی مداخلت کو کم کرے گا اور کاروباری افراد کو سہولت فراہم کرے گا۔وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکنالوجی پر مبنی یہ جدید نظام کاروبار کرنے میں آسانی پیدا کرے گا اور ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرے گا۔انہوں نے کہا کہ انسانی مداخلت میں کمی سے یہ نظام زیادہ موثر ہوگا اور وقت اور پیسہ دونوں کی بچت ہوگی۔وزیراعظم نے ہدایت کی کہ نئے نظام کو مربوط اور پائیدار بنایا جائے۔
اشتہار
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
وزیراعظم کی ہدایت پر کارروائی، سرفراز ورک کا تبادلہ، کئی افسران معطل
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں اعلیٰ سطحی تبادلوں کا آغاز ہو چکا ہے، جنہیں فوری طور پر نافذ العمل کر دیا گیا ہے۔ نئے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، رفعت مختار کے تقرر کے بعد یہ پہلا بڑا اقدام تصور کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد ادارے میں اصلاحات اور کرپشن کے خاتمے کی جانب پیش قدمی ہے۔
7 جولائی کو جاری کیے گئے نوٹیفکیشن نمبر A/2253/HR-I/2025/5108-20 کے مطابق متعدد افسران کے تبادلے کیے گئے، جن میں سب سے اہم تبدیلی لاہور زون میں سامنے آئی ہے۔ کیپٹن (ر) محمد علی ضیاء (پی ایس پی، بی ایس-20) کو ایف آئی اے لاہور زون کا نیا ڈائریکٹر مقرر کر دیا گیا ہے، جب کہ سرفراز خان ورک (پی ایس پی، بی ایس-20) کو لاہور زون سے ہٹا کر ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے۔
سرفراز ورک کا بطور ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور دورہ کافی متحرک مگر متنازع رہا۔ اگرچہ انسانی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ اور غیر قانونی اعضاء کی پیوند کاری کے خلاف کئی کارروائیاں ان کے دور میں ہوئیں، لیکن ان پر بدعنوانی کے سنگین الزامات بھی لگے۔ ان پر اربوں روپے کے غیر قانونی اثاثے جمع کرنے اور بھائی کے ذریعے کرپشن کرنے کے الزامات شامل ہیں، جن کی مختلف انٹیلی جنس رپورٹس اور میڈیا ذرائع سے تصدیق بھی ہوئی۔
لیسکو اور پاسکو جیسے اداروں میں بدعنوانی سے متعلق تحقیقات کے بعد سرفراز ورک کا تبادلہ ناگزیر ہو چکا تھا۔ ایف آئی اے لاہور پر لیسکو سے اربوں روپے کی ریکوری میں تاخیر، بجلی چوری کے خلاف غیر مؤثر کارروائی اور مبینہ ملی بھگت کے الزامات عائد کیے گئے۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے “انتہائی فوری اور خفیہ” ہدایت جاری کی گئی، جس میں ان افسران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے تحت وزارت داخلہ کو ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے اور ذمہ دار افسران کے خلاف عملی اقدام اٹھانے کا حکم دیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ڈی جی ایف آئی اے کو ادارے کا قبلہ درست کرنے، بدعنوانی کے خاتمے اور انصاف کی راہ ہموار کرنے کی خصوصی ہدایت دی۔ ذرائع کے مطابق، سرفراز ورک نے وزیراعظم کی ہدایات کے باوجود چھ ماہ سے زائد عرصہ تک چارج چھوڑنے سے گریز کیا، جسے بیوروکریسی میں ایک غیر معمولی عمل قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم رفعت مختار کے سخت رویے اور حکومتی دباؤ کے بعد بالآخر ان کی تبدیلی عمل میں لائی گئی۔
سرفراز ورک کی جگہ محمد علی ضیاء کی تعیناتی اور دیگر افسران کی معطلی کو حکومت کی جانب سے احتساب کے عمل کی شروعات کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ اقدام اس پیغام کے ساتھ کیا گیا ہے کہ ایف آئی اے میں کرپشن اور نااہلی کے لیے اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
مزیدپڑھیں:وفاق کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری