برہان وانی کا آج 9 واں یومِ شہادت، مقبوضہ کشمیر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
13 اپریل 2015ء کو بھارتی فورسز نے اس کے بھائی کو شہید کیا اور یہی لمحہ برہان کی زندگی کا موڑ ثابت ہوا، برہان نے ہتھیار کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو بھی جدوجہد کا میدان بنایا۔ اسلام ٹائمز۔ تحریکِ آزادی کشمیر کے نوجوان رہنما برہان مظفر وانی کی شہادت کو آج 9 برس مکمل ہو گئے، مقبوضہ کشمیر میں شٹرڈاؤن ہڑتال اور سناٹے کا راج ہے جبکہ قابض فوج کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔کشمیری عوام آج کا دن تجدیدِ عہد کے طور پر مناتے ہیں، برہان مظفر وانی وہ نوجوان جو کشمیر کی مزاحمت کا چہرہ بن گیا، مقبوضہ کشمیر کے علاقے ترال میں پیدا ہونے والا یہ نوجوان بھارتی جبر کے خلاف ابتدا ہی سے سراپا احتجاج بن چکا تھا۔ 13 اپریل 2015ء کو بھارتی فورسز نے اس کے بھائی کو شہید کیا اور یہی لمحہ برہان کی زندگی کا موڑ ثابت ہوا، برہان نے ہتھیار کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کو بھی جدوجہد کا میدان بنایا، اس کی آواز قابض قوتوں کے ایوانوں میں گونجی اور وہ کشمیری نوجوانوں کا ’’پوسٹر بوائے‘‘ بن گیا۔ بھارتی فوج نے 8 جولائی 2016ء کو ایک جھڑپ میں اسے شہید کر دیا، لیکن اس کی سوچ، جذبہ اور مشن آج بھی زندہ ہیں، یوم شہادت پر ریاست کے دونوں جانب کشمیری عوام اسے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور دنیا کی توجہ کشمیر کی آزادی کی طرف مبذول کرواتے ہیں۔
برہان وانی کا جنازہ کشمیری تاریخ کے سب سے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا، جس میں 2 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی، وادی کشمیر میں 53 روزہ سخت کرفیو کے باوجود نوجوانوں کے پرتشدد احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے، بھارتی افواج کی جوابی کارروائیوں میں 100 سے زائد کشمیری نوجوان شہید کیے گئے۔ برہان وانی آج بھی کشمیری نوجوان نسل کے ہیرو کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں، ان کی لازوال قربانی، نڈر مزاحمت اور واضح نظریاتی مؤقف نے انہیں تحریک آزادی کشمیر کا استعارہ بنا دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت پر پابندی، کشمیری سیاستدان برہم
محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت کو عیاں کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی کئی سیاسی لیڈروں نے انہیں خانہ نظربند کر کے آزادی پسند لیڈر اور حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت سے روکنے کا الزام عائد کرتے ہوئے انتظامیہ کے اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے سخت ردعمل ظاہر کرتے کہا کہ سیاسی قیادت کو نظر بند کرنے کا فیصلہ "جموں و کشمیر کی سخت اور غیر جمہوری حقیقت" کو عیاں کرتا ہے۔ انہوں نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ صرف اس لئے گھروں میں نظر بند کیا گیا کہ ہم سوپور جا کر پروفیسر عبدالغنی بٹ کے انتقال پر تعزیت نہ کر سکیں۔ محبوبہ مفتی نے بی جے پی پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ وہ دکھ اور بے چینی کو سیاسی مفاد کے لئے ہتھیار بنا رہی ہے۔
پروفیسر بٹ کے قدیم ساتھی اور پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد لون نے بھی الزام عائد کیا کہ انہیں سوپور جانے سے روکنے کے لیے گھر میں نظر بند کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نہیں سمجھتا اس کی کوئی ضرورت تھی، پروفیسر صاحب ایک پُرامن شخصیت کے مالک تھے اور برسوں سے عملی سیاست سے الگ ہو چکے تھے، ان کو آخری الوداع کہنا سب کا حق تھا۔ ادھر میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق، جو ان کے دیرینہ ساتھی رہے ہیں، نے الزام عائد کیا کہ حکام نے جنازہ جلد بازی میں کرایا اور انہیں بٹ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔
انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ ناقابلِ بیان دکھ ہے کہ حکام نے پروفیسر صاحب کے جنازے کو عجلت میں نمٹا دیا۔ انہون نے کہا "مجھے گھر میں بند رکھا گیا اور آخری سفر میں شریک ہونے کے حق سے محروم کر دیا گیا، ان کے ساتھ میری رفاقت اور رہنمائی کا رشتہ 35 سال پر محیط تھا، اتنے لوگوں نے ان کا آخری دیدار کرنے کی خواہش کی تھی، مگر ہمیں اس حق سے بھی محروم رکھنا ظلم ہے"۔