’’ارے بھائی! آج ایک گورے سے میری ملاقات ہوئی تھی، وہ بار بار بلیک سیڈ آئل کے بارے میں کہہ رہا تھا، بہت تعریفیں کر رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ آپ کے پاکستان سے آتی ہے، وہ ایک چھوٹی سی تیل کی بوتل پاکستان کے اسٹور سے لی تھی، بہت مہنگی ملتی ہے، اکیاسی یورو کی وہ بوتل اور اس سے اسے بہت فائدہ ہوا تھا، بلڈ شوگر وغیرہ کو، تو میں نے سوچا پتا نہیں یہ بلیک سیڈ کیا ہے پھر میں نے ایک پاکستانی آنٹی سے پوچھا کہ یہ بلیک سیڈ کیا ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ یہ کوئی ایسی خاص چیز نہیں ہے، ہمارے پاکستان میں یہ ہر گھر میں ہوتی ہے، اسے کلونجی کہتے ہیں، تو پھر میں نے اسے گوگل پر سرچ کیا تو میں تو اس کے فوائد جان کر حیران رہ گیا، ہمیں تو بھائی کوئی قدر ہی نہیں۔ تو سب کو چاہیے کہ کلونجی استعمال کریں بھائی۔‘‘
کلونجی کی اہمیت سے ہم سب واقف ہیں، لیکن استعمال کی حد تک بات بہت مختلف ہے، حدیث نبویؐ ہے کہ ’’ کلونجی کے دانے میں سوائے موت کے ہر مرض کا علاج ہے۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ قدرت نے سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے دانوں میں کس قدر افادیت رکھی ہے۔
بچپن میں اچار میں کالے رنگ کے ان دانوں کی کبھی سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ کیا ہیں۔ وقت کے ساتھ پتا چلتا گیا اور صبح نہار منہ چٹکی بھر دانے ضرور پھانکے جاتے تھے کہ سنت بھی اور افادیت بھی، لیکن پھر ان دانوں میں جالے بنتے گئے۔ بچپن میں ان دانوں میں ایک ہلکی سی مرچ محسوس ہوتی تھی چبانے میں، لیکن آج بھی کھا کر دیکھیے کیسی مرچ اور کہاں کی مرچ۔ یہ تو تیل فری سوکھی بے سواد کلونجی ہے۔
بازار میں دستیاب عام کلونجی اسی طرح کی ہوتی ہے جس سے فیکٹری والے تیل نکال لیتے ہیں، پہلے یہ عمل صرف بڑے معروف ادارے کرتے تھے، پر آج ہر چھوٹے بڑے دکان دار نے کلونجی کے سونے جیسے تیل سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ عمل شروع کر رکھا ہے اور خالی پھوک بھی مہنگے دام بیچتے ہیں، جو ہم جیسے معصوم خرید کر استعمال بھی کر لیتے ہیں۔ ذرا سوچیے ایک چھوٹی سی بوتل اکیاسی یورو کی، گویا پاکستانی چھبیس ستائیس ہزار روپے کی ایک چھوٹی شیشی، جب کہ ڈھائی سو یا تین سو روپے کا پھوک۔ کلونجی پھوک بازار میں دستیاب ہے۔
اس کے فوائد حیرت انگیز ہیں جن میں ایک اہم بلڈ شوگر ہے جو ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھرکا مسئلہ ہے۔ بس صبح نہار منہ ایک چٹکی کلونجی جو بہ مشکل پانچ چھ دانوں پر مشتمل ہے، اس بڑے مرض کے لیے کافی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ دل کی صحت، دانتوں، بالوں،کیل مہاسوں، نظام ہاضمہ سمیت نجانے کیا کیا متوازن کرتی ہے۔
اس میں قدرتی طور پر امائنو ایسڈ، فیٹی ایسڈ، پوٹاشیم،کیلشیم، آئرن، سوڈیم، الکلائیڈ سمیت پروٹینز شامل ہیں۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے ان اہم عناصر کی بہترین کیمسٹری اسے بظاہر سیاہ رنگ کا ہلکا سا بیج بناتی ہے جو اپنے اندر انسانی صحت کے حوالے سے انتہائی اہم اور صحت بخش ہیں۔
ہم صحت کے حوالے سے مغرب کی جانب دیکھنا پسند کرتے ہیں کیوں کہ ہمارے خیال میں ان کے یہاں ریسرچ اعلیٰ درجے کی اور علاج اس سے بھی اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے، یہ سچ بھی ہے کہ ریسرچ کا کام تو وہاں چلتا ہی رہتا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو نجی حوالے سے دوائیاں بنانے والی کمپنیاں اپنے تحقیقی سیکشن پر بہت توجہ دیتی ہیں تاکہ ان کی بنائی گئی ادویات میں نقص نہ رہ جائے کیوں کہ ذرا سی کمی بیشی انسانی جان کی ہلاکت کا ذمے دار ہو سکتی ہے۔ ہمارے یہاں کی ذمے داری کی تو بات ہی کیا کریں، اس شعبے پر جتنی بھی بحث کی جائے بے سود ہی رہے گی۔
یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں ذہانت کی کمی نہیں، گھریلو خواتین جو دیسی ٹوٹکوں پر عمل کر کے اور کروا کے ہزاروں سے لاکھوں روپے کما رہی ہیں، ان کے علاوہ اطباء حضرات کی بھی چاندی ہو رہی ہے، اگر لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے تو نقصان بھی ہو رہا ہے، لیکن قدرتی طور پر پائے جانے والے اجزا کا استعمال انسانی صحت پر ہمیشہ ہی مثبت اثر ڈالتا ہے لیکن سونا بنانے والے اسے ملک میں پھوک بنا کر باہر جھونک رہے ہیں، اب ان کو کون پوچھے۔ ارے بھائی جتنا دل چاہے تیل نکالو۔ پر اس کے پھوک کو بازار میں مہنگے دام تو نہ بیچتے، جس کے استعمال کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔
’’میری بچی (شادی شدہ دو بچوں کی ماں) کی نی کیپ ٹوٹ گئی، وہ اتنی اذیت میں تھی کہ بس۔ گھر میں بچوں نے ذرا سا پانی گرا دیا تھا، بس اسے صاف کرنے بیٹھی اورکیسے پھسلی کہ گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اب یہاں (مشی گن، امریکا) میں پاکستان کی طرح نہیں ہوتا، بہرحال اس کے سوجن آئی، وہ ڈاکٹر کے پاس گئی کیوں کہ تکلیف تو تھی ہی لیکن سوجن نے تو تکلیف دوچند کر دی۔
اس ڈاکٹر نے دوائیاں وغیرہ دیں، ایکسرے وغیرہ کیا، اب پتا چلا کہ ہڈی ٹوٹی ہے اور اس کا آپریشن ہونا ہے، اس کا پرائمری ڈاکٹر کہیں چلا گیا، میری بچی نے کسی نہ کسی طرح آرتھوپیڈک کو قائل کیا، اب بچوں کا ساتھ، وہ تو میری چھوٹی وہاں تھی، اس نے گاڑی ڈرائیو کی، اب بچے بھی ساتھ، تو اس نے کہا تم رکو میں خود جاتی ہوں۔
ڈاکٹر کے پاس اس حالت میں وہ اتنے زینے چڑھ کر گئی، وہاں گئی تو اس کا سانس پھول رہا تھا، وہاں نرسز اسے فوراً ہارٹ کے سلسلے میں آئی سی یو لے جانے لگیں تو بچی نے چیخ چیخ کر کہا کہ’’ میں سیڑھیوں سے آئی ہوں، ظاہر ہے میرا سانس پھولنا ہی تھا، مجھے کوئی دل کا ایشو نہیں ہے، خدارا! مجھے آرتھوپیڈک سے ملنے دیں۔‘‘ (جس سے بڑی دقتوں سے اپائنمنٹ لیا تھا) وہ جانتی تھی کہ اس طرح ایک بار پھر اس کا گھٹنے کا آپریشن ٹل جائے گا، پھر جناب ایک چیخ پکار مچی، آرتھوپیڈک بھی آ ہی گیا، اس نے بچی کی ساری بات سنی، اس نے بتایا کہ میرا پرائمری ڈاکٹر گیا ہوا ہے، اس لیے مجھے خود یہ قدم اٹھانا پڑا۔
ڈاکٹر نے دیکھا تو اس نے کہا کہ ’’تم بالکل ٹھیک وقت پر آئی ہو، تمہارے گھٹنے کی ہڈی تو چھلکے کی طرح ٹوٹی ہے اور اس میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ ڈاکٹر سمجھ دار تھا اس نے فوراً آپریشن کرنے کو کہا اور شکر ہے کہ میری بچی کا آپریشن ہوا۔ سب کہتے ہیں کہ امریکا میں مریضوں کی اچھی دیکھ بھال ہوتی ہے، بالکل ہوتی ہے لیکن پاکستان کی طرح یہاں نہیں ہوتا، یہاں پہلے پرائمری ڈاکٹر کو دکھانا لازمی ہوتا ہے۔‘‘
وہ بول رہی تھیں اور ذہن میں کچھ اور باتیں بھی چل رہی تھیں۔
’’ذرا سی دیوار لگی اور ہڈی ٹوٹ گئی، پتا بھی نہ چلا، بعد میں تکلیف ہوئی اور سوجن بڑھی تو فلاں (ہڈیوں کا اسپتال) لے کر بھاگے، فوری ایکسرے ہوا اور پتا چلا کہ آپریشن ہوگا۔ دوسرے دن ہی آپریشن ہوا، ورنہ نجانے کتنی تکلیف برداشت کرنا پڑتی، دل تک پر اثر ہوتا ہے درد کا۔‘‘
سچ ہے کم سہولیات کے باعث ہم بہت پیچھے ہیں لیکن پھر بھی قدرت کے بنائے گئے نظام کے تحت چل رہے ہیں، ورنہ رکاوٹوں اور پیر کھینچنے والے تو بہت ہیں بس جسے اوپر والا رکھے اسے کون چکھے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سیاسی لیبارٹری
کبھی کبھی سیاست کے صحرا میں جب دھوپ تیز ہو جائے منظر دھندلا جائے اور امیدیں سوکھنے لگیں تو کچھ آوازیں ابھرتی ہیں کچھ نعرے گونجنے لگتے ہیں۔ ایسے نعرے جو برسوں سے سننے کو ملتے رہے ہیں اور جن کا انجام کبھی سچائی تک نہیں پہنچا۔ ان ہی میں سے ایک نعرہ ہے قومی حکومت۔یہ نعرہ کچھ ایسا ہے جیسے ریت میں پانی کی جھلک جو دور سے سیرابی کا وعدہ کرے مگر قریب جا کر فقط سراب نکلے۔میں نے سیاست کو صرف اخباروں کے صفحات یا ٹی وی کی سکرین پر نہیں دیکھا۔ میں نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھتے، بگڑتے، سنورتے اور پھر بکھرتے دیکھا ہے۔ ضیاالحق کے عہدِ اقتدار سے لے کر آج کے سیاسی بیانیوں تک میں اس ملک کے ہر نشیب و فراز کا گواہ رہا ہوں۔میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ راولپنڈی کی سڑکیں، عسکری گاڑیوں کی دھمک اور قومی سلامتی کے نعرے ہر طرف سنائی دیتے تھے۔ جنرل محمد ضیا الحق کا دور تھا۔ ریاست کا ہر شعبہ وردی کی چھتری تلے پنپ رہا تھا۔ مذہب کو سیاست کا جزو بنایا جا رہا تھا اور احتساب کو منتخب سیاست دانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ضیا الحق نے کبھی قومی حکومت کا اعلان نہیں کیا مگر ان کی حکومت ہی ایسی تھی جس میں منتخب چہرے محض ایک جمہوری چادر کے نیچے بٹھا دیے گئے تھے۔ وزارتیں دی جا رہی تھیں مگر اختیار کہیں اور تھا۔ یہ تجربہ قوم نے انیس سو ستتر سے لے کر گیارہ سال تک برداشت کیا یہاں تک کہ میں ایک فضائی حادثے نے اس باب کو بند کر دیا۔پھر بی بی آئی، بے نظیر بھٹو۔ ان کے چہرے پر سیاسی بلوغت کی جھلک، والد کی جدوجہد کا عکس اور جمہوریت کی امید جھلکتی تھی۔ مگر طاقت کے ایوان انہیں مکمل اختیار دینے کو تیار نہ تھے۔ کبھی صدر غلام اسحاق خان کبھی عدلیہ اور کبھی عسکری اشرافیہ سب نے اس جمہوریت کو ناپختہ رکھنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔پھر میاں نواز شریف آئے۔ بینظیر گئیں، پھر آئیں، پھر گئیں۔ اور یوں دو دہائیاں گزر گئیں۔ کبھی اقتدار میں ایک پارٹی تو کبھی دوسری۔ عوام کا حال وہی، غربت وہی، وعدے وہی مگر چہرے بدلتے رہے۔
انیسویں صدی کے آخری سال کے آخر یعنی اکتوبر میں تاریخ نے خود کو ایک بار پھر دہرایا۔ جنرل پرویز مشرف نے آئین کو پامال کیا اور مارشل لا کی نئی چادر اوڑھ لی۔ مگر اس بار چادر پر اصلاحات، ترقی ، احتساب کے موتی چمک رہے تھے۔بیسویں صدی یعنی سال میں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دے قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔ پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو ابتدائی دنوں میں قومی حکومت کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ کہا گیا کہ اب سب جماعتوں کو ملا کر ایک ہم آہنگ حکومت بنائی جائے گی جو سیاست سے گند صاف کرے گی۔ قاف لیگ کی صورت میں ایک نئی سیاسی قوت تراشی گئی جسے ’’قومی مفاد‘‘کے نام پر میدان میں اتارا گیا۔اس وقت بھی سنا کہ چار سو کرپٹ افراد کی لسٹیں تیار ہیں۔ یہ لوگ ملک کو لوٹ چکے ہیں اب نیا پاکستان بنے گا۔ مگر پھر وہی پرانے چہرے نئی جماعتوں میں شامل ہو کر حکومت کا حصہ بن گئے۔ عوام کا مقدر وہی رہا۔ مایوسی، غربت، بے روزگاری۔سال میں تحریک انصاف نے مینار پاکستان پر ایک تاریخی جلسہ کیا۔ عمران خان نے تقریر کی، وعدے کیے اور عوام کو ایک نیا خواب دکھایا۔ احتساب، انصاف، قرضوں سے نجات باوقار خارجہ پالیسی ۔ سب کچھ سن کر لگا کہ اب شاید واقعی ایک نیا پاکستان بنے گا۔پھر نواز شریف کو پانامہ کی فرضی کاغذی رپورٹوں اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے نااہل کیا گیا۔ بیانیہ بنایا گیا کہ چوروں سے نجات چاہیے۔ پوری دنیا کے میڈیا پر پیسے کے بل بوتے پر نواز شریف کے نام کے ساتھ چور کے لفظ کی تشہیر کروائی گئی۔ چند بکائو یوٹیوبرز کے ذریعے ایک بیانیہ بنایا گیا اور عمران خان کو لاڈلا قرار دیا گیا۔
2018 ء کے انتخابات میں انجینئرنگ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا۔ ایک نئی حکومت بنائی گئی جس کا دعوی تھا کہ وہ اسٹیٹس کو کو توڑے گی۔ ایک نعرہ تھا نیا پاکستان۔مگر تین سال کے اندر اندر حالات ایسے ہو گئے کہ ملکی وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔ تحریک انصاف کے دور میں پاکستان کا کرپشن انڈیکس آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا، ادارے کمزور ہوئے، میڈیا دبایا گیا، عدلیہ تقسیم ہوئی اور معیشت زمین بوس ہو گئی۔ مہنگائی آسمان پر اور سچائی جیلوں میں قید ہو گئی۔پارلیمنٹ میں ایسے لوگ بٹھائے گئے جنہیں سیاست کا ’’س‘‘بھی نہیں آتا تھا۔ فٹ پاتھ پر پیدل گھومنے والے اقتدار کے ایوانوں میں گھومنے لگے، سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر آنے والے لینڈ کروزرز میں پھرنے لگے۔ تین سال میں پاکستان کا قرضہ اتنا بڑھا دیا گیا کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ ریکارڈ پر آیا۔پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ پھر ایک بار پھر آوازیں آئیں کہ قومی حکومت بنا دی جائے اور عمران خان کو اگلے دس سال کے لئے صدر بنا دیا جائے۔یہ نعرہ کوئی نیا نہیں۔ ہر آمر، ہر کمزور حکومت اور ہر انجینئرنگ کے ماہر نے اس نعرے کو آزمایا ہے۔ اس کے پیچھے دلیل یہی دی جاتی ہے کہ ملک بحران میں ہے لہٰذا اب تمام جماعتوں کو ملا کر ایک غیر جماعتی حکومت بنائی جائے۔لیکن ہم پوچھتے ہیں کب، کہاں، اور کس آئینی شق میں قومی حکومت کا ذکر ہے؟ کیا یہ عوامی مینڈیٹ کا انکار نہیں؟ کیا یہ جمہوریت کی نفی نہیں؟ اور کیا یہ اصل مسئلوں سے توجہ ہٹانے کا ایک اور حربہ نہیں؟ ہم نے دیکھا ہے کیسے مخصوص صحافیوں، تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں کو استعمال کر کے رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے۔ ایک بیانیہ تیار ہوتا ہے اور پھر اسے میڈیا کے ذریعے عوام پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پاکستان میں نگران حکومتوں کا تصور آئینی طور پر موجود ہے جن کا کام صرف اور صرف منصفانہ انتخابات کرانا ہے۔ ان کا دائرہ محدود اور مدت مختصر ہوتی ہے۔ مگر جو کچھ بار بار قومی حکومت کے نام پر بیچا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک بے آئین، غیر قانونی اور غیر نمائندہ تجربہ ہوتا ہے۔ملک کو چلانے کے لیے صرف نیک نیتی کافی نہیں بلکہ آئینی دائرہ، عوامی مینڈیٹ اور شفاف نظام بھی ضروری ہے۔
قومی حکومت کی آڑ میں جب بھی جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا نتیجہ مزید ابتری کی صورت میں نکلا۔آج کی اتحادی حکومت جس نے 2024ء میں اقتدار سنبھالا، اپنی آئینی مدت 2029ء میں مکمل کرے گی۔ اس دوران اگر کارکردگی اچھی ہو گی تو عوام دوبارہ ووٹ دیں گے اور اگر نہ ہو گی تو عوام کا فیصلہ مختلف ہو گا۔ یہی جمہوریت ہے یہی آئینی عمل۔مگر اگر کسی کو لگتا ہے کہ پانچ چھ افراد بیٹھ کر فیصلے کریں، سب سیاسی جماعتوں کو بائی پاس کر کے اقتدار سنبھال لیں تو یہ خیال آج کے باشعور عوام کی توہین ہے۔قوم اب وہ نہیں رہی جو ماضی میں ہر فریب پر یقین کر لیتی تھی۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے، معلومات عام ہیں اور شعور کی سطح بلند ہو چکی ہے۔قومی حکومت کا نعرہ ایک ایسا سیاسی افسانہ ہے جسے ہر بار نئے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر اب وقت ہے کہ قوم اس سراب کو پہچانے اور مطالبہ کرے کہ فیصلے صرف بیلٹ باکس کے ذریعے ہوں نہ کہ بریف کیس، اسٹیبلشمنٹ یا کسی ’’سیاسی لیبارٹری‘‘کے ذریعے۔ پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف آئینی جمہوری اور شفاف سیاسی عمل سے جڑا ہے۔ کوئی قومی حکومت، کوئی انجینئرنگ، کوئی مصنوعی بندوبست اس قوم کو پائیدار ترقی کی طرف نہیں لے جا سکتا۔شفافیت ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے قومیں بنتی ہیں، سنبھلتی ہیں اور آگے بڑھتی ہیں۔