Express News:
2025-09-18@14:23:25 GMT

کیا عنوان دوں؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

’’ارے بھائی! آج ایک گورے سے میری ملاقات ہوئی تھی، وہ بار بار بلیک سیڈ آئل کے بارے میں کہہ رہا تھا، بہت تعریفیں کر رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ آپ کے پاکستان سے آتی ہے، وہ ایک چھوٹی سی تیل کی بوتل پاکستان کے اسٹور سے لی تھی، بہت مہنگی ملتی ہے، اکیاسی یورو کی وہ بوتل اور اس سے اسے بہت فائدہ ہوا تھا، بلڈ شوگر وغیرہ کو، تو میں نے سوچا پتا نہیں یہ بلیک سیڈ کیا ہے پھر میں نے ایک پاکستانی آنٹی سے پوچھا کہ یہ بلیک سیڈ کیا ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ یہ کوئی ایسی خاص چیز نہیں ہے، ہمارے پاکستان میں یہ ہر گھر میں ہوتی ہے، اسے کلونجی کہتے ہیں، تو پھر میں نے اسے گوگل پر سرچ کیا تو میں تو اس کے فوائد جان کر حیران رہ گیا، ہمیں تو بھائی کوئی قدر ہی نہیں۔ تو سب کو چاہیے کہ کلونجی استعمال کریں بھائی۔‘‘

کلونجی کی اہمیت سے ہم سب واقف ہیں، لیکن استعمال کی حد تک بات بہت مختلف ہے، حدیث نبویؐ ہے کہ ’’ کلونجی کے دانے میں سوائے موت کے ہر مرض کا علاج ہے۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ قدرت نے سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے دانوں میں کس قدر افادیت رکھی ہے۔

بچپن میں اچار میں کالے رنگ کے ان دانوں کی کبھی سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ کیا ہیں۔ وقت کے ساتھ پتا چلتا گیا اور صبح نہار منہ چٹکی بھر دانے ضرور پھانکے جاتے تھے کہ سنت بھی اور افادیت بھی، لیکن پھر ان دانوں میں جالے بنتے گئے۔ بچپن میں ان دانوں میں ایک ہلکی سی مرچ محسوس ہوتی تھی چبانے میں، لیکن آج بھی کھا کر دیکھیے کیسی مرچ اور کہاں کی مرچ۔ یہ تو تیل فری سوکھی بے سواد کلونجی ہے۔

بازار میں دستیاب عام کلونجی اسی طرح کی ہوتی ہے جس سے فیکٹری والے تیل نکال لیتے ہیں، پہلے یہ عمل صرف بڑے معروف ادارے کرتے تھے، پر آج ہر چھوٹے بڑے دکان دار نے کلونجی کے سونے جیسے تیل سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ عمل شروع کر رکھا ہے اور خالی پھوک بھی مہنگے دام بیچتے ہیں، جو ہم جیسے معصوم خرید کر استعمال بھی کر لیتے ہیں۔ ذرا سوچیے ایک چھوٹی سی بوتل اکیاسی یورو کی، گویا پاکستانی چھبیس ستائیس ہزار روپے کی ایک چھوٹی شیشی، جب کہ ڈھائی سو یا تین سو روپے کا پھوک۔ کلونجی پھوک بازار میں دستیاب ہے۔

اس کے فوائد حیرت انگیز ہیں جن میں ایک اہم بلڈ شوگر ہے جو ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھرکا مسئلہ ہے۔ بس صبح نہار منہ ایک چٹکی کلونجی جو بہ مشکل پانچ چھ دانوں پر مشتمل ہے، اس بڑے مرض کے لیے کافی ہے، صرف یہی نہیں بلکہ دل کی صحت، دانتوں، بالوں،کیل مہاسوں، نظام ہاضمہ سمیت نجانے کیا کیا متوازن کرتی ہے۔

اس میں قدرتی طور پر امائنو ایسڈ، فیٹی ایسڈ، پوٹاشیم،کیلشیم، آئرن، سوڈیم، الکلائیڈ سمیت پروٹینز شامل ہیں۔ قدرتی طور پر پائے جانے والے ان اہم عناصر کی بہترین کیمسٹری اسے بظاہر سیاہ رنگ کا ہلکا سا بیج بناتی ہے جو اپنے اندر انسانی صحت کے حوالے سے انتہائی اہم اور صحت بخش ہیں۔

ہم صحت کے حوالے سے مغرب کی جانب دیکھنا پسند کرتے ہیں کیوں کہ ہمارے خیال میں ان کے یہاں ریسرچ اعلیٰ درجے کی اور علاج اس سے بھی اعلیٰ درجے کا ہوتا ہے، یہ سچ بھی ہے کہ ریسرچ کا کام تو وہاں چلتا ہی رہتا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تو نجی حوالے سے دوائیاں بنانے والی کمپنیاں اپنے تحقیقی سیکشن پر بہت توجہ دیتی ہیں تاکہ ان کی بنائی گئی ادویات میں نقص نہ رہ جائے کیوں کہ ذرا سی کمی بیشی انسانی جان کی ہلاکت کا ذمے دار ہو سکتی ہے۔ ہمارے یہاں کی ذمے داری کی تو بات ہی کیا کریں، اس شعبے پر جتنی بھی بحث کی جائے بے سود ہی رہے گی۔

یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں ذہانت کی کمی نہیں، گھریلو خواتین جو دیسی ٹوٹکوں پر عمل کر کے اور کروا کے ہزاروں سے لاکھوں روپے کما رہی ہیں، ان کے علاوہ اطباء حضرات کی بھی چاندی ہو رہی ہے، اگر لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے تو نقصان بھی ہو رہا ہے، لیکن قدرتی طور پر پائے جانے والے اجزا کا استعمال انسانی صحت پر ہمیشہ ہی مثبت اثر ڈالتا ہے لیکن سونا بنانے والے اسے ملک میں پھوک بنا کر باہر جھونک رہے ہیں، اب ان کو کون پوچھے۔ ارے بھائی جتنا دل چاہے تیل نکالو۔ پر اس کے پھوک کو بازار میں مہنگے دام تو نہ بیچتے، جس کے استعمال کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔

’’میری بچی (شادی شدہ دو بچوں کی ماں) کی نی کیپ ٹوٹ گئی، وہ اتنی اذیت میں تھی کہ بس۔ گھر میں بچوں نے ذرا سا پانی گرا دیا تھا، بس اسے صاف کرنے بیٹھی اورکیسے پھسلی کہ گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اب یہاں (مشی گن، امریکا) میں پاکستان کی طرح نہیں ہوتا، بہرحال اس کے سوجن آئی، وہ ڈاکٹر کے پاس گئی کیوں کہ تکلیف تو تھی ہی لیکن سوجن نے تو تکلیف دوچند کر دی۔

اس ڈاکٹر نے دوائیاں وغیرہ دیں، ایکسرے وغیرہ کیا، اب پتا چلا کہ ہڈی ٹوٹی ہے اور اس کا آپریشن ہونا ہے، اس کا پرائمری ڈاکٹر کہیں چلا گیا، میری بچی نے کسی نہ کسی طرح آرتھوپیڈک کو قائل کیا، اب بچوں کا ساتھ، وہ تو میری چھوٹی وہاں تھی، اس نے گاڑی ڈرائیو کی، اب بچے بھی ساتھ، تو اس نے کہا تم رکو میں خود جاتی ہوں۔

ڈاکٹر کے پاس اس حالت میں وہ اتنے زینے چڑھ کر گئی، وہاں گئی تو اس کا سانس پھول رہا تھا، وہاں نرسز اسے فوراً ہارٹ کے سلسلے میں آئی سی یو لے جانے لگیں تو بچی نے چیخ چیخ کر کہا کہ’’ میں سیڑھیوں سے آئی ہوں، ظاہر ہے میرا سانس پھولنا ہی تھا، مجھے کوئی دل کا ایشو نہیں ہے، خدارا! مجھے آرتھوپیڈک سے ملنے دیں۔‘‘ (جس سے بڑی دقتوں سے اپائنمنٹ لیا تھا) وہ جانتی تھی کہ اس طرح ایک بار پھر اس کا گھٹنے کا آپریشن ٹل جائے گا، پھر جناب ایک چیخ پکار مچی، آرتھوپیڈک بھی آ ہی گیا، اس نے بچی کی ساری بات سنی، اس نے بتایا کہ میرا پرائمری ڈاکٹر گیا ہوا ہے، اس لیے مجھے خود یہ قدم اٹھانا پڑا۔

ڈاکٹر نے دیکھا تو اس نے کہا کہ ’’تم بالکل ٹھیک وقت پر  آئی ہو، تمہارے گھٹنے کی ہڈی تو چھلکے کی طرح  ٹوٹی ہے اور اس میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ ڈاکٹر سمجھ دار تھا اس نے فوراً آپریشن کرنے کو کہا اور شکر ہے کہ میری بچی کا آپریشن ہوا۔ سب کہتے ہیں کہ امریکا میں مریضوں کی اچھی دیکھ بھال ہوتی ہے، بالکل ہوتی ہے لیکن پاکستان کی طرح یہاں نہیں ہوتا، یہاں پہلے پرائمری ڈاکٹر کو دکھانا لازمی ہوتا ہے۔‘‘

وہ بول رہی تھیں اور ذہن میں کچھ اور باتیں بھی چل رہی تھیں۔

’’ذرا سی دیوار لگی اور ہڈی ٹوٹ گئی، پتا بھی نہ چلا، بعد میں تکلیف ہوئی اور سوجن بڑھی تو فلاں (ہڈیوں کا اسپتال) لے کر بھاگے، فوری ایکسرے ہوا اور پتا چلا کہ آپریشن ہوگا۔ دوسرے دن ہی آپریشن ہوا، ورنہ نجانے کتنی تکلیف برداشت کرنا پڑتی، دل تک پر اثر ہوتا ہے درد کا۔‘‘

سچ ہے کم سہولیات کے باعث ہم بہت پیچھے ہیں لیکن پھر بھی قدرت کے بنائے گئے نظام کے تحت چل رہے ہیں، ورنہ رکاوٹوں اور پیر کھینچنے والے تو بہت ہیں بس جسے اوپر والا رکھے اسے کون چکھے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رہا تھا ہوتی ہے

پڑھیں:

قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت

مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔

آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔

دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔

کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔

جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔

 سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔

ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔

 آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔

آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔

اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔

 ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔

قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects  یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔

کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور  'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔

ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘

یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage