غلط فہمیوں کا زہر اور بیداری
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
اسلام ٹائمز: پاکستان کا جوان آج بھی تیار ہے، اُسکی بندوق زنگ آلود نہیں، اُسکا بازو کمزور نہیں۔ لیکن صرف جذبہ کافی نہیں۔ پوری ریاستی مشینری کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ ہمیں ایک طویل جنگ کیلئے تیار رہنا ہے۔ عسکری، فکری اور بیانیاتی جنگ۔ امن کی خواہش اپنی جگہ، مگر غلط فہمیوں کا زہر اگر سرایت کر گیا تو یہ قوموں کی اجتماعی بصیرت کو مفلوج کر دیتا ہے۔ تحریر: ارشد مہدی جعفری
یہ قوم کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے سپاہی، انجینئر، پائلٹ اور افسر محض نوکری نہیں کرتے، وہ ایک نظریئے کے محافظ ہیں۔ بھارت سے کشیدگی ہو یا اندرونی خطرات، پاکستانی افواج کی تاریخ وفا، قربانی اور جذبے سے لبریز ہے۔ 2019ء میں، جب لائن آف کنٹرول پر ہر لمحہ جنگ کا خطرہ تھا، ملک کے دفاعی اداروں میں ایک سپاہی بھی ایسا نہ تھا، جو پیچھے ہٹنے کو تیار ہو اور اب 2025ء کی صورتحال، جس میں پاکستان کی فضائیہ نے بھارتی مہم جوئی کو ایک بار پھر منہ توڑ جواب دیا، اس جذبے کا تسلسل ہے۔ یہی وہ قوت ہے، جو دشمن کو حیرت میں ڈالتی ہے اور قوم کو فخر کا مقام دیتی ہے۔ ان واقعات کی صداقت پر تب ایک اور مہر ثبت ہوئی، جب بھارتی دفاعی اتاشی نے حالیہ جھڑپ کے کئی دن بعد یہ اعتراف کیا کہ پاکستانی فضائیہ نے کچھ بھارتی طیارے مار گرائے اور ایک اہم اسٹریٹجک مشن مکمل ناکام بنایا۔
یہ بیان نہ صرف بھارتی عوام بلکہ خود بھارتی عسکری قیادت کیلئے بھی ایک تلخ حقیقت ثابت ہوا، جس نے اس دعوے کی تصدیق کر دی کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت محض نمائشی نہیں، عملی اور مؤثر بھی ہے۔ لیکن تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ صرف جذبہ کافی نہیں ہوتا۔ جذبہ، تیاری، ہوشیاری اور پالیسی کی ہم آہنگی جب تک یکجا نہ ہوں، نتائج خوشگوار نہیں آتے۔ بھارت کی حالیہ شکستوں پر خوش ہونا بجا ہے، لیکن یہ سمجھ لینا کہ دشمن اب دس برس تک سنبھل نہیں پائے گا وغیرہ وغیرہ، یہ وہ بیانات ہیں، جو پاکستان میں مختلف ریٹائرڈ افسران کی طرف سے دیئے جا رہے ہیں، یہ وہی خطرناک خود فریبی ہے، جس نے کئی اقوام کو ماضی میں اندھیروں میں دھکیلا۔
بھارت کے حالیہ بیانات اور پالیسی سطح پر جو اشتعال انگیزی نظر آتی ہے، وہ محض خالی الفاظ نہیں۔ بھارت، اسرائیل کیساتھ مل کر ایک نیا عسکری اتحاد تشکیل دے چکا ہے، جس میں جدید ٹیکنالوجی، ہائبرڈ وارفیئر اور پروپیگنڈا جنگ شامل ہیں۔ اسرائیل جو اس وقت ایران کیساتھ برسرِ پیکار ہے، وہ اپنے تجربات کو جنوبی ایشیائی میدان میں منتقل کرنے کا خواہاں ہے۔ پاکستان اگر اس وقت ایران میں جاری جنگ کو محض "شیعہ سنی" یا "علاقائی" مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کرے گا، تو یہی غفلت کل ہمارے خلاف بھی استعمال ہوسکتی ہے۔ دنیا کی بڑی جنگیں، اکثر ایک طرف دشمن کے حملے سے اور دوسری طرف اپنی بے خبری سے لڑی گئی ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں قوم نے اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا، لیکن 1971ء میں سیاسی بے سمتی اور عسکری تنہائی نے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کر دیا۔
کارگل میں کامیابی میدان میں تھی، مگر سفارتکاری کی کمزوری نے اس کو اُلٹ دیا۔ افغان جہاد میں ہم نے ایک سپر پاور کو توڑ دیا، مگر اس کے بعد جو بے فکری اپنائی، وہ آج تک ہم پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔ آج بھی پاکستان کی ریاست قرضوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ چین سے قرضوں کی رول اوور پالیسیاں وقتی سکون تو دے سکتی ہیں، لیکن کسی بڑے بحران میں کام نہیں آتیں۔ جنگیں صرف اسلحے سے نہیں، معیشت، نظریئے اور حکمت عملی سے بھی لڑی جاتی ہیں۔ بھارت جیسے ملک کی جارحانہ حکمتِ عملی، جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری، میڈیا پراپیگنڈا مشین اور اسرائیل جیسے حلیف کیساتھ بڑھتے تعلقات کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ جنوبی ایشیا میں امن کی خواہش، صرف پاکستان کی طرف سے ہے۔ بھارت اگر اگلے دس برس تک خاموش بھی رہتا ہے، تو یہ خاموشی طوفان سے پہلے کا سناٹا بھی ہوسکتی ہے۔
ایسے میں ہمیں اپنی عسکری قوت کیساتھ ساتھ، سفارتی، تعلیمی اور ابلاغیاتی میدانوں میں بھی بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل کو صرف فیس بک پوسٹوں سے محبتِ وطن نہیں سکھائی جا سکتی، بلکہ سکولوں، کالجوں اور مساجد میں حب الوطنی کا شعور از سرِ نوء پیدا کرنا ہوگا۔ دشمن صرف سرحد پر نہیں، ہمارے موبائل فون میں، میڈیا میں اور سوشل نیٹ ورکنگ کے ذریعے ہماری سوچوں پر حملہ آور ہے۔ یہ کہنا درست ہے کہ بھارت کو پاکستان نے ہر بار ناکوں چنے چبوائے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی قوم اگر مسلسل فتوحات کے بعد بے فکر ہو جائے تو شکست اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ سپین، خلافتِ عثمانیہ اور حالیہ مثال شام، لیبیا اور عراق کی ہے، جہاں دشمن سے زیادہ اپنی نادانیوں نے نقصان پہنچایا۔ حالیہ علاقائی حالات، اسرائیل کی ایران میں رجیم چینج کی ناکام کوشش، امریکی بیانیے کی رسوائی اور ایران کی طاقتور مزاحمت بھی ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ صرف جنگی طاقت نہیں، نظریاتی استقلال اور حکمت عملی ہی اصل کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔ اسرائیل اور بھارت کی مشترکہ سازشیں صرف میزائل یا ٹیکنالوجی پر نہیں، بیانیے اور ذہن سازی پر مرکوز ہیں۔
وقت ہے کہ ہم بیدار ہو جائیں۔ جذباتی فخر میں کھو کر غافل نہ ہوں، بلکہ دشمن کے ہر اقدام پر نظر رکھتے ہوئے، قوم کو ایک نئی فکری، نظریاتی اور دفاعی حکمت عملی سے آراستہ کریں۔ جو اقوام اپنے دشمن کو کمزور سمجھتی ہیں، وہ اکثر اپنی تباہی خود لکھتی ہیں۔ پاکستان کا جوان آج بھی تیار ہے، اُس کی بندوق زنگ آلود نہیں، اُس کا بازو کمزور نہیں۔ لیکن صرف جذبہ کافی نہیں۔ پوری ریاستی مشینری کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ ہمیں ایک طویل جنگ کیلئے تیار رہنا ہے۔ عسکری، فکری اور بیانیاتی جنگ۔ امن کی خواہش اپنی جگہ، مگر غلط فہمیوں کا زہر اگر سرایت کر گیا تو یہ قوموں کی اجتماعی بصیرت کو مفلوج کر دیتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ وہ جیتتے ہیں، جو سوتے نہیں، جو خود کو شکست کے بعد بھی فتح کیلئے تیار رکھتے ہیں اور جو دشمن کے کمزور لمحے کو دھوکہ سمجھتے ہوئے اپنی تیاری مکمل رکھتے ہیں۔ اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے، آیا ہم اس بیداری کو زندگی کا حصہ بناتے ہیں یا صرف سالگرہوں اور یومِ دفاع کے موقع پر ایک نعرے کی صورت؟ تاریخ خاموش نہیں رہتی، وہ گواہی دیتی ہے اور جو قوم گواہی کے قابل نہ رہے، وہ صفحۂ تاریخ سے مٹ جایا کرتی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاکستان کی
پڑھیں:
ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
کراچی (اسٹاف رپورٹر)سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حال ہی میں کچھ لوگ ہماری سیاسی کوششوں کو ’مائنس فارمولے‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جیسے یہ عمران خان کو کمزور کرنے یا پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر قبضہ کرنے کی سازش ہو، واضح رہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کے بغیر ممکن ہی نہیں، وہ اس کے بانی، چہرہ اور قوت ہیں۔سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ محمود مولوی، فواد چوہدری اور میں نے جو کاوش کی ہے یہ کسی سازش کا حصہ نہیں بلکہ ایک شعوری کوشش ہے کہ جس کے تحت پاکستانی سیاست کو ٹکراؤ سے نکال کر مفاہمت کی طرف واپس لایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مزاحمت اور مسلسل احتجاج کی سیاست نے پی ٹی آئی کے لیے صرف گرتی ہوئی سیاسی گنجائش، گرفتاریوں اور تھکن کے سوا کچھ نہیں چھوڑا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم رک کر سوچیں، جائزہ لیں اور دوبارہ تعمیر کریں۔ہم نے ذاتی طور پر پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں سے مشاورت کی، تقریبا سب نے تسلیم کیا کہ محاذ آرائی ناکام ہو چکی ہے اور مفاہمت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔مزید لکھا کہ جب ہم نے کوٹ لکھپت جیل میں چوہدری اعجاز سے اور پی کے ایل آئی ہسپتال میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، تو دونوں نے عمران خان کے ساتھ اپنی پختہ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ جمود ختم ہونا چاہیے، ان کا مطالبہ سیاسی سانس لینے کی معمول کی گنجائش تھا، سرنڈر نہیں۔
بدقسمتی سے رابطوں کی کمی، خوف اور سوشل میڈیا کی مسلسل گرمی نے پی ٹی آئی کے اندر کسی مکالمے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔سابق گورنر کا کہنا تھا کہ دوسری طرف بیرونِ ملک بیٹھے کچھ خودساختہ اینکرز نے دشمنی اور انتشار کو ہوا دے کر اسے ذاتی مفاد کا کاروبار بنا لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بڑھتی ہوئی سفارتی ساکھ نے پاکستان کے بارے میں دنیا کے تاثر کو بدل دیا، یہ توقع کہ غیر ملکی طاقتیں خود بخود عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں گی، پوری نہیں ہوئی۔یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر کوئی پی ٹی آئی رہنما سمجھتا ہے کہ تصادم اور احتجاج ہی درست راستہ ہے، تو وہ آگے بڑھے اور ہم میں سے ان لوگوں کو قائل کرے جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں، بحث و مباحثہ خوش آئند ہے مگر اندھی محاذ آرائی مستقل سیاسی حکمتِ عملی نہیں بن سکتی۔
ہماری کوشش آزاد، مخلص اور صرف ضمیر کی آواز پر مبنی ہے، ہم چاہتے ہیں معمول کی سیاست بحال ہو، ادارے اپنا کردار ادا کریں اور سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے۔اگر مفاہمت کو غداری سمجھا جاتا ہے، تو ٹھیک ہے، ہم دل سے پی ٹی آئی کی بقا اور پاکستان کے استحکام کے لیے سوچ رہے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما فواد چوہدری نے بھی یکم نومبر کو کہا تھا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں سب سے اہم یہ ہے کہ سیاسی درجہ حرارت نیچے لایا جائے اور وہ اس وقت تک کم نہیں ہو سکتا جب تک دونوں سائیڈ یہ فیصلہ نہ کریں کہ انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹنا اور ایک نے قدم بڑھانا ہے۔
سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں میں سابق پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایک قدم بڑھانا اور پی ٹی آئی نے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے، تاکہ ان دونوں کو جگہ مل سکے، پاکستان نے جو موجودہ بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔لہذا جب تک یہ درجہ حرارت کم نہیں ہوتا، اُس وقت تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔اس سے قبل 31 اکتوبر کو فواد چوہدری، عمران اسمٰعیل اور محمود مولوی نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے لاہور میں اہم ملاقات کی تھی۔