اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت مکمل اقتصادی بحالی کیلئے دیرینہ اصلاحات، ڈھانچہ جاتی تبدیلیوں اور میرٹ پر مبنی نظام کو ترجیح دینے کیلئے پرعزم ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اڑان پاکستان سمر سکالرز پروگرام کیلئے منتخب طلباء سے خطاب میں کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں انتہائی شکرگزار اور نہایت پرجوش ہوں کہ علم و دانش کے ستاروں کے کہکشاں کے سامنے موجود ہوں۔ احسن اقبال کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اڑان پاکستان کے تحت اس شاندار اقدام کی بنیاد رکھی۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ جب انہوں نے2023 ء میں حکومت سنبھالی تو پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے سنگین خطرے کا سامنا تھا اور قوم کا مستقبل غیر یقینی حالات سے دوچار تھا۔ اکثریت کا خیال تھا کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا، جبکہ اقلیت کا ماننا تھا کہ ہم اس تباہی سے بچ نکلیں گے۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے طویل مذاکرات کیے اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہوگا اور آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرے گا۔ خوش قسمتی سے آئی ایم ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر سے میری تفصیلی بات چیت کے نتیجہ میں ہم نے اس بحران پر قابو پا لیا۔ اس وقت معیشت انتہائی خراب حالت میں تھی، مہنگائی کی شرح38 فیصد تک پہنچ چکی تھی جبکہ پالیسی ریٹ 22.
5 فیصد کی بلند سطح پر تھا۔ ملک میں کاروباری ماحول شدید غیر یقینی اور مایوسی کا شکار تھا۔ اگر گزشتہ برسوں کے مقابلہ میں دیکھا جائے تو ہم نے یہ بھاری ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھائی کہ ہم یگانگت کی طرف جائیں گے۔ ایمانداری اور مقصدیت سے کام لیں گے اور پوری سنجیدگی سے کوشش کریں گے اور بعد ازاں نتیجہ اللہ تعالی کی ذات پر چھوڑ دیں گے۔ آخر کار خوش قسمتی سے ہماری اجتماعی کوششیں رنگ لے آئیں اور آج ہم یہاں موجود ہیں۔ ہمارا پالیسی ریٹ 22.5 فیصد سے کم ہو کر11 فیصد پر آ گیا ہے اور مزید کافی گنجائش موجود ہے کہ پالیسی ریٹ اورکم ہوگا اور اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ لوگ اپنی رقوم بنکوں سے نکال کر ان جگہوں پر لگائیں گے جہاں انہیں زیادہ فائدہ ہو گا۔ اڑان پاکستان پروگرام اپنی اڑان بھر چکا ہے۔ ہمیں اسے تکمیل تک پہنچانے میں فقط چند ماہ لگے اور میں نے ذاتی طور پر ماہرین، سیاسی رہنمائوں، بیوروکریٹس کیساتھ متعدد ملاقاتیں کیں اور پھر آخرکار ہم اڑان پاکستان کو یہاں تک لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وزرا، بیوروکریٹس اور ان ماہرین کے ساتھ ہم نے ایک لائحہ عمل مرتب کیا جو بذات خود بہت دشوار تھا اور جس پر عمل درآمد اب بھی بہت مشکل ہے۔ ایسی اصلاحات جو بہت عرصے سے واجب تھیں۔ وزیراعظم نے نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں اصلاحات اور ڈیجیٹائزیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ادارے سے کرپٹ عناصر کو بغیر کسی دباؤ یا سفارش کے نکالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر سے کرپشن ختم کرنے کے لیے ان کے ذہن میں بہت واضح لائحہ عمل تھا اور انہوں نے ایسے فیصلے کیے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کیے گئے اور ان میں کسی قسم کی 'سفارش' کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔ ماضی میں ایف بی آر میں ڈیجیٹائزیشن صرف کاغذوں تک محدود تھی اور اس حوالے سے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کرپٹ اور چالاک عناصر نے نظام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایماندار اور محنتی بیوروکریٹس کی کمی تھی، بلکہ انہیں صرف موقع نہیں دیا گیا۔ اب بہترین افراد کو سامنے لایا گیا ہے، جن میں چیئرمین ایف بی آر بھی شامل ہیں، ان اقدامات کے نفاذ کے ذریعے محض ایک سال میں ریونیو کلیکشن12 ارب روپے سے بڑھ کر50 ارب روپے سے تجاوز کر گئی، جو صرف ایک شعبے میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ صرف ایک شعبہ کی مثال ہے، آپ سینکڑوں دیگر شعبوں میں بھی اتنی رقوم اکٹھی کر سکتے ہیں۔ اب ایف بی آر کو بہتر کام کرنا ہوگا، یہ بہت کٹھن کام ہے تاہم اس ملک کے عظیم بیٹوں اور بیٹیوں کو میں یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ قوم کی خدمت کیلئے ہم اپنی ذمہ داری ہر حال میں پوری کریں گے۔ میں نے کبھی کسی کامیابی کا سہرا اپنے سر نہیں لیا کیونکہ میں ٹیم ورک پر یقین رکھتا ہوں، حقیقی ٹیم ورک، ٹیم کے ان اراکین کا ہے جو کام کرتے ہیں، میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں اور جو کام نہیں کرتے انہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے اور یہ کوئی عجلت میں اٹھایا گیا قدم نہیں ہوتا بلکہ ان کے کام کا جائزہ کارکردگی کے نمایاں اشاریوں (کے پی آئیز) کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ کام تو کرنا ہوگا، کارکردگی دکھانا ہوگی، مجھے کسی شخص سے بغض نہیں ہے وہ تمام میرے انتہائی قابل احترام ساتھی ہیں، چاہے وہ بیوروکریٹس ہوں یا ماہرین، وزرا، وزرائے مملکت ہوں یا مشیر وغیرہ۔ وہ میرے لئے انتہائی محترم ہیں اگر وہ قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ اگر وہ قوم کی خدمت نہیں کر رہے تو میرا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، یہ بنیادی تبدیلی ہے۔ اس دور کا یہی طرزعمل ہونا ہے، چاہے جتنا بھی مشکل ہو مگر ہمیں اپنے اہداف حاصل کرنے ہیں، اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم اس ملک کے قیام کے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ٹھہرائیں گے۔ اور مجھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پوری سنجیدگی سے نتائج کا سامنا کرنا ہو گا اور اگر ہم ڈیلیور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالی کے لامحدود رحم وکرم سے ہم عوامی حلقوں میں اپنا سربلند رکھ سکیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں نے اپنی اور اپنی ساتھیوں کی سوچ اور منظر واضح کر دیا ہے اور آپ کیلئے نیک تمنائوں کا اظہار کرتا ہوں، آپ ہمارا مستقبل ہیں اور میں دل کی گہرائیوں سے یہ بات کر رہا ہوں کہ ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس ملک کی کامیابی کی کنجی آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اس لئے ہماری نواجوان نسل پر کیا گیا خرچ، خرچ نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے نوجوانوں کے سوالات کے جواب بھی دیئے۔ ایک طالب علم کے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پنجاب ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ اب پاکستان ایجوکیشن انڈوومنٹ فنڈ بن چکا ہے طالبہ کے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ان دس بدقسمت ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کو مئی کے مہینے میں بلاجواز جارحیت کا نشانہ بنایا گیا، پہلگام کا واقعہ افسوسناک تھا اور ہے اور پاکستان کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا۔ میں نے اپنے مشرقی ہمسائے کو سیدھی پیشکش کی کہ آئیں اس معاملے کی تحقیقات ایک بین الاقوامی ادارے سے کراتے ہیں، جس میں ایسے ممالک شامل ہوں جن پر دونوں ملک متفق ہوں، بھارت نے اس تجویز پر تبصرہ تک نہیں کیا، رضا مندی یا مخالفت کی تو بات الگ ہے۔ پھر 6 اور7 مئی کو پاکستان پر حملہ کر دیا جس کے نتیجہ میں بہاولپور اور دیگر علاقوں اور آزا جموں و کشمیر میں55 بے گناہ پاکستانی شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ ہم نے اپنے وطن کا دفاع کیا جو ہمارا بنیادی فرض اور ذمہ داری تھی، اپنے اس دفاع میں 6 بھارتی طیارے مار گرائے گئے اور پھر لیکن جیسا کہ یہ کافی نہ ہو9 اور10 مئی کی درمیانی شب بھارت نے دوبارہ حملہ کیا، پھر10 مئی کی صبح ہم نے بھرپور جوابی کارروائی کی اور دشمن کو حقیقی معنوں میں ایک سبق سکھایا۔ یہ کامیابی متفقہ سوچ اور عملی اتحاد کی مرہون منت تھی۔ پوری قوم کراچی سے پشاور تک اپنی مسلح افواج کیساتھ کھڑی تھی، ہماری مسلح افواج نے اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ مہارت، بصیرت اور بہادری کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجہ میں یہ فتح نصیب ہوئی۔ الحمد اللہ ہم نے جدید تکنیک اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک روایتی جنگ جیتی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا ایٹمی پروگرام صرف اپنے دفاع کیلئے ہے یہ جارحیت کیلئے نہیں ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہم نے کرپٹ اور نااہل افسروں کو فارغ کیا، گریڈ 20 سے گریڈ 22 تک کے افسروں کو گھر بھیجا جن کے حق میں ملک بھر سے سفارشیں آئیں۔ ملک میں ایسی تبدیلی ابھی ہوئی بھی نہیں ہوتی اور سفارشیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ وہ سفارشوں اور ٹیلی فون کالز کے حوالے سے تیار تھے لیکن ہم نے میرٹ پر فیصلے کئے۔ ہم نے ایف بی آر میں بہترین افسروں کی تعیناتی کے لیے ماہرین اور بیوروکریسی کے ساتھ مسلسل اجلاس کیے اور ہر ہفتے اصلاحات کے لیے خود اجلاس کی صدارت کی۔ اللہ ان سے پوچھے گا کہ دنیا میں کیا کام کیا؟ تو اللہ سے کہیں گے کہ میرٹ پر کام کیا، تیز طرار بیوروکریٹس کو پتہ ہوتا ہے کہ کام کیسے کرنا ہے۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ:
وزیراعظم نے کہا کہ
اڑان پاکستان
ایف بی آر
تھا اور
اور ان
ہوں کہ
ہے اور
پڑھیں:
200 روپے والے پرائز بانڈ کی قرعہ اندازی کے نتائج کا اعلان
ویب ڈیسک: قومی بچت اسکیم کے تحت 200 روپے مالیت کے قومی انعامی بانڈز کی ملتان میں ہونیوالی 103ویں قرعہ اندازی کے نتائج کا اعلان کردیا گیا۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق، 200 روپے والے پرائز بانڈ کا پہلا انعام 7 لاکھ 50 ہزار روپے کا نکلا جو بانڈ نمبر 401981 کے حصے میں آیا۔
اسی طرح دوسرے انعام کی رقم 2 لاکھ 50 ہزار روپے فی کس رکھی گئی تھی، جس کے پانچ خوش نصیب فاتح قرار پائے۔ ان بانڈ نمبرز میں 043052، 529272، 612161، 825972 اور 896794 شامل ہیں۔
پاکستان سے ایران جانیوالے زائرین کو اغوا کروانے والے نیٹ ورک کا کارندہ گرفتار
جبکہ سب سے زیادہ تعداد میں انعامات تیسرے درجے کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ تیسرے انعام کی مالیت 1250 روپے فی کس ہے.
200 روپے مالیت کے بانڈز خاص طور پر عوام میں بے حد مقبول ہیں کیونکہ یہ کم قیمت ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ قومی بچت اسکیم کے تحت ہر سال مختلف مالیت کے پرائز بانڈز کی قرعہ اندازی ہوتی ہے، جن میں 100، 200، 750، 1500 اور اس سے بڑی مالیت کے بانڈز شامل ہیں۔ ہر قرعہ اندازی میں لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں اور اپنی قسمت آزماتے ہیں۔
تقریبا 15 ہزار شہریوں کی جیبیں کٹ گئیں