کوئٹہ سنجیدی ڈیگاری کیس میں مقتولہ کی والدہ بھی گرفتار
اشاعت کی تاریخ: 24th, July 2025 GMT
کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی عدالت میں سنجیدی ڈیگاری میں دہرے قتل کے کیس کی سماعت ہوئی، کیس میں مقتولہ کی والدہ کو گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
عدالت نے مقتولہ خاتون بانو کی والدہ گل جان بی بی کو 2 روز کے ریمانڈ پر سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے کردیا گیا۔
خیال رہے کہ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ کے علاقے ڈیگاری میں غیرت کے نام پر قتل کی گئی خاتون بانو کی والدہ نے بیٹی کے قتل کو بلوچی رسم و رواج کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے سزا قرار دیا تھا اور مبینہ قاتلوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
مقتولہ بانو کی والدہ کا ویڈیو بیان منظرِ عام پر آ یا تھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی بیٹی کو ایک لڑکے کے ساتھ تعلقات پر بلوچی معاشرتی جرگے کے فیصلے کے بعد سزا دی گئی۔
بیان میں کہا گیا کہ قاتلوں اور سہولت کاروں کے خلاف کارروائی حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لڑکا آئے روز ٹک ٹاک ویڈیوز بناتا تھا جس سے انکے بیٹے مشتعل ہو جاتے تھے، بیٹی بانو پانچ بچوں کی ماں تھی اور اس کا سب سے بڑا بیٹا 16 سال کا ہے۔
بیان میں مقتولہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں نے کوئی ناجائز فیصلہ نہیں کیا، یہ فیصلہ بلوچی رسم و رواج کے تحت کیا گیا تھا۔ اس فیصلے میں سردار شیر باز ساتکزئی کا کوئی کردار نہیں تھا اور جرگہ میں جو فیصلہ ہوا، وہ ان کے ساتھ نہیں بلکہ بلوچی جرگے میں ہوا۔
انہوں نے اپیل کی کہ سردار شیر باز ساتکزئی سمیت گرفتار افراد کو رہا کیا جائے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم پر قبر کشائی کی گئی تھی۔
پولیس نے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرتے ہوئے متعلقہ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے، جن میں دفعہ 302 (قتل) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 7 اے ٹی اے سمیت دیگر سنگین دفعات شامل ہیں۔
پولیس کا کہنا تھا کہ اب تک 20 افراد زیر حراست ہیں، جن میں سے سردار سمیت 11 کی گرفتاری ڈالی جا چکی ہے۔
ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
غیرت کے نام پر بلوچستان میں قتل خاتون کی والدہ کا تہلکہ خیز بیان، ملزمان کی رہائی کا مطالبہ
غیرت کے نام پر بلوچستان میں فائرنگ کرکے قتل کی گئی خاتون بانو کی والدہ کا تہلکہ خیز بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے کہا کہ بانو کو بلوچی رسم و رواج کے مطابق سزا دی گئی، معاملے میں گرفتار ملزمان کو رہا کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق مقتولہ کی والدہ نے اپنے جاری مبینہ بیان میں کہا کہ میرا نام گل جان ہے اور میں بانو کی ماں ہوں، میں اس قرآن پاک کو سامنے رکھ کر سچ بول رہی ہوں، جھوٹ نہیں بول رہی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بانو پانچ بچوں کی ماں تھی، وہ کوئی بچی نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کا بڑا بیٹا نور احمد ہے، جس کی عمر 18 سال ہے۔ دوسرا بیٹا واسط ہے، جو 16 سال کا ہے۔ اس کے بعد اس کی بیٹی فاطمہ ہے، جو 12 سال کی ہے۔ پھر اس کی بیٹی صادقہ ہے، جو 9 سال کی ہے۔ اور سب سے چھوٹا بیٹا زاکر ہے، جس کی عمر 6 سال ہے۔
والدہ نے کہا کہ کیا ایک بلوچ کا ضمیر یہ گوارا کرے گا کہ اتنے بچوں کی ماں کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جائے؟ بے شک، ہم نے انہیں قتل کیا، یہ کوئی بے غیرتی نہیں تھی بلکہ بلوچ رسم و رواج کے مطابق کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ تم ہمارے گھروں پر چھاپے بھیجتے ہو، ہمارا قصور کیا ہے؟ ہم نے جو بھی کیا، غیرت کے تحت کیا، کوئی گناہ نہیں کیا۔ میری بیٹی بانو اور احسان اللہ پڑوسی تھے۔
بانو 25 دن احسان کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور وہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔ 25 دن بعد وہ واپس آ گئی۔ تب بانو کے شوہر نے بچوں کی خاطر اسے معاف کر دیا اور اسے ساتھ رکھنے پر راضی ہو گیا۔ مگر احسان اللہ باز نہیں آیا، وہ ہمیں ویڈیوز بھیجتا تھا۔ ٹک ٹاک پر ہاتھ پر گولی رکھ کر کہتا تھا: ’جو مجھ سے لڑنے آئے، وہ شیر کا دل رکھ کر آئے۔‘ وہ ہمیں دھمکیاں دیتا تھا۔
والدہ نے کہا کہ میرے بیٹے کی تصویر پر کراس کا نشان لگا کر کہتا تھا: ’میں اسے مار دوں گا۔‘ اتنی رسوائی اور بے غیرتی ہم برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے جو بھی کیا، اچھا کیا۔ اس قرآن پر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انہیں قتل کرنا ہمارا حق تھا۔