اسلام ٹائمز: اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے ابتدا سے ہی حنظلہ کشتی کو روکنے کے لیے دھمکی آمیز رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ ہویدا عراف کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے ساحل سے 100 میل دور غاصب صیہونی رژیم کی جنگی کشتیاں اور تقریباً 20 ڈرون طیارے کشتی کی طرف بڑھے اور اس کے قریب رہنے لگے۔ آخرکار 27 جولائی کی صبح صیہونی فوج کی اسپشل فورس یونٹ "کمانڈو 13" نے بین الاقوامی پانیوں میں اس کشتی پر دھاوا بول دیا اور کیمرے بند کر کے لائیو نشریات روک دیں۔ کشتی میں سوار تمام افراد کو گرفتار کر لیا اور کشتی کو اشدود بندرگاہ منتقل کر دیا۔ عالمی رائے عامہ نے اس اقدام پر اسرائیل کو "بحری قزاق" کا نام دیا اور اس کی شدید مذمت کی۔ یہ اسرائیلی اقدام جہاز رانی کے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ تحریر: مہدی سیف تبریزی
اتوار 27 جولائی کی صبح غاصب صیہونی رژیم کی بحریہ نے ایک غیرقانونی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف اقدام کرتے ہوئے فریڈم فلوٹیلا اتحاد سے وابستہ غزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والی کشتی "حنظلہ" کو غزہ سے صرف 40 کلومیٹر دور بین الاقوامی پانیوں میں روک کر اس پر قبضہ کر لیا۔ یہ کشتی غزہ کے فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان لے جا رہی تھی اور اس میں 12 مختلف ممالک سے انسانی حقوق کے 21 کارکن سوار تھے جن میں فرانس کے دو رکن پارلیمنٹ بھی شامل ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے اسرائیل کے اس اقدام کو "سمندری ڈاکہ" قرار دیا ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام نے نہ صرف عالمی سطح پر شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے بلکہ یورپ اور پوری دنیا میں فلسطین کی حمایت میں نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ غزہ میں شدید قحط اور بھوکے فلسطینیوں کی تصاویر اور حنظلہ کشتی میں سوار افراد کی شجاعت نے عالمی ضمیر کو جھنجوڑ دیا ہے۔
غزہ کا محاصرہ توڑنے کی کوشش
فریڈم فلوٹیلا اتحاد نے 2010ء سے غزہ کے خلاف اسرائیل کے ظالمانہ اور غیرقانونی محاصرے کو توڑنے کے لیے کوششوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ یہ اتحاد دنیا بھر کی مختلف این جی اوز، انسانی حقوق کے سرگرم اراکین اور فلسطین کے حامیوں نے تشکیل دیا ہے اور اس نے اب تک کئی بار سمندری راستے سے انسانی امداد غزہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی کوشش 2010ء میں انجام پائی جب مرمرہ جہاز غزہ کی طرف روانہ ہوا۔ غزہ کے ساحل کے قریب ہی صیہونی فوج نے اس پر حملہ کیا اور ترکی سے تعلق رکھنے والے 10 انسانی حقوق کے کارکنوں کو شہید کر ڈالا۔ اس اقدام کے بعد غزہ کا محاصرہ عالمی رائے عامہ کی توجہ کا مرکز بن گیا اور پوری دنیا میں اس ظالمانہ محاصرے کو توڑنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ 2011ء میں مریم، 2012ء میں ایسٹل اور 2016ء میں زیتونہ اولیوا کشتیاں بھی غزہ کی جانب روانہ کی گئیں لیکن اسرائیل نے انہیں راستے میں ہی روک دیا اور عملے کو گرفتار کر لیا۔
حنظلہ کشتی، مزاحمت اور اتحاد کی علامت
حنظلہ کشتی فریڈم فلوٹیلا اتحاد کی جانب سے غزہ کا ظالمانہ محاصرہ توڑنے کی 37 ویں کوشش تھی جس کا آغاز 13 جولائی 2025ء کے دن اٹلی کے جنوب میں واقع سیراکوزا بندرگاہ سے ہوا۔ اس کشتی کا نام ایک کارٹون کے کردار "حنظلہ" سے اخذ کیا گیا ہے جو فلسطینی کارٹونسٹ ناجی العلی نے بنایا تھا۔ یہ نام فلسطینی عوام کی مزاحمت اور استقامت کی علامت ہے۔ اس کشتی میں غذائی اشیاء، دوائیاں، خشک دودھ، کپڑے، میڈیکل آلات وغیرہ تھے اور اس کا مقصد نہ صرف غزہ کے فلسطینیوں کی مدد کرنا تھا بلکہ غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم اور انسانی المیے کی جانب عالمی توجہ بھی مرکوز کرنا تھا۔ اس کشتی کا سفر یوٹیوب پر لائیو دکھایا جا رہا تھا جبکہ جی پی ایس کے ذریعے اس کی پوزیشن بھی شائع کی جا رہی تھی۔ اس کشتی میں فرانس، جرمنی، ترکی، برازیل اور امریکہ سمیت 12 مختلف ممالک سے انسانی حقوق کے کارکن سوار تھے۔
صیہونی رژیم کا ردعمل
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے ابتدا سے ہی حنظلہ کشتی کو روکنے کے لیے دھمکی آمیز رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ ہویدا عراف کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے ساحل سے 100 میل دور غاصب صیہونی رژیم کی جنگی کشتیاں اور تقریباً 20 ڈرون طیارے کشتی کی طرف بڑھے اور اس کے قریب رہنے لگے۔ آخرکار 27 جولائی کی صبح صیہونی فوج کی اسپشل فورس یونٹ "کمانڈو 13" نے بین الاقوامی پانیوں میں اس کشتی پر دھاوا بول دیا اور کیمرے بند کر کے لائیو نشریات روک دیں۔ کشتی میں سوار تمام افراد کو گرفتار کر لیا اور کشتی کو اشدود بندرگاہ منتقل کر دیا۔ عالمی رائے عامہ نے اس اقدام پر اسرائیل کو "بحری قزاق" کا نام دیا اور اس کی شدید مذمت کی۔ یہ اسرائیلی اقدام جہاز رانی کے بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
صیہونی رژیم کے پروپیگنڈے کی ناکامی
غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامی مغربی ذرائع ابلاغ نے گذشتہ کئی سالوں سے یہ پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت اپنے دفاع کی خاطر ہے اور قانونی جواز رکھتی ہے۔ لیکن عالمی میڈیا پر غزہ کے بھوکے بچوں اور قحط زدہ خواتین اور بوڑھوں کی تصاویر بڑے پیمانے پر شائع ہو چکی ہیں جس کے بعد سوشل میڈیا اور آزادی ذرائع ابلاغ میں اسرائیلی بیانیہ شدید کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ ایسی بے شمار رپورٹس سامنے آ چکی ہیں جن میں بھوک کے باعث فلسطینی بچوں کی شہادت، ایمبولینسز کے لیے ایندھن کے فقدان اور دیگر انسانی المیے بیان کیے گئے ہیں۔ لہذا دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں عوامی مہم روز بروز تیز ہوتی جا رہی ہے۔ صیہونی حکمران غزہ کے خلاف جارحیت کو "دہشت گردی کے خلاف جنگ" ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن دنیا اب اصل حقیقت سے واقف ہو چکی ہے۔
یورپ میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کی مہم
عالمی سطح پر بیداری کی لہر طاقتو ہر جانے اور عالمی رائے عامہ کے دباو کے تحت اس وقت یورپی ممالک خودمختار فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمونوئیل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور کر رہا ہے۔ اس کے بقول یہ اقدام دو ریاستی راہ حل کو مضبوط بنانے کے لیے انجام پائے گا۔ اسی طرح برطانیہ نے بھی اقوام متحدہ کے آئندہ اجلاس میں فرانس اور سعودی عرب سے مل کر اس مسئلے پر بات کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یہ تبدیلیاں اس عوامی دباو کا نتیجہ ہیں جو غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کا ظلم و ستم اور بربریت منظرعام پر آ جانے کے بعد پیدا ہوا ہے۔ یہ عوامی دباو فلسطین سے متعلق مغربی سفارتکاری میں فیصلہ کن موڑ آنے کا باعث بن سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غاصب صیہونی رژیم عالمی رائے عامہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی حنظلہ کشتی کشتی میں کر رکھا کشتی کو کے خلاف کی کوشش دیا اور اس کشتی دیا ہے کے لیے کر لیا غزہ کے اور اس
پڑھیں:
رکن ممالک اسرائیل کیساتھ تجارت معطل اور صیہونی وزرا پر پابندی عائد کریں، یورپی کمیشن
یورپی کمیشن کے مطابق اسرائیلی جارحیت یورپی یونین اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے احترام کو لازمی قرار دینے والے آرٹیکل 2 کی خلاف ورزی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ یورپی کمیشن نے اپنے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ غزہ جنگ کے باعث اسرائیل کے ساتھ تجارتی مراعات معطل کردی جائیں۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی یونین کی خارجہ پالیسی سربراہ کاجا کالاس نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ بعض اسرائیلی مصنوعات پر اضافی محصولات لگائیں۔ انھوں نے اپیل کی کہ اسرائیلی آبادکاروں اور انتہاپسند اسرائیلی وزراء ایتمار بن گویر اور بیتزالیل سموتریچ پر پابندیاں عائد کرنے کی اپیل کی۔ یورپی کمیشن کے مطابق اسرائیلی جارحیت یورپی یونین اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے احترام کو لازمی قرار دینے والے آرٹیکل 2 کی خلاف ورزی ہیں۔ انھوں نے غزہ میں بگڑتی انسانی المیے، امداد کی ناکہ بندی، فوجی کارروائیوں میں شدت اور مغربی کنارے میں E1 بستی منصوبے کی منظوری کو خلاف ورزی کی وجوہات بتایا۔
یورپی کمیشن کی صدر اورسلا فان ڈیر لاین نے فوری جنگ بندی، انسانی امداد کے لیے کھلی رسائی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ تعاون روک دیا جائے گا۔ تاہم یورپی یونین کے 27 رکن ممالک میں اس تجویز پر مکمل اتفاق نہیں ہے۔ اسپین اور آئرلینڈ معاشی پابندیوں اور اسلحہ پابندی کے حق میں ہیں جبکہ جرمنی اور ہنگری ان اقدامات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یورپی کمیشن کی یہ تجویز اس وقت سامنے آئی ہے جب یورپ بھر میں ہزاروں افراد اسرائیل کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور منگل کو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو نسل کشی قرار دیا گیا۔