غزہ کو بھوکا مارنے کا منصوبہ : مجرم کون ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
پاکستان بھر کے سوشل میڈیا اور میڈیا پر ایک مرتبہ پھر غزہ کی داستان ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ یہ ابال سات اکتوبر کے بعد بھی دیکھنے میں آیا تھا لیکن آج کل یہ ایک اور زاویہ کے ساتھ نظر آرہا ہے، یعنی غزہ میں بھوک اور قحط کے مسائل پر ہے۔ جی ہاں! یہ مسئلہ غزہ میں آج نہیں بلکہ گزشتہ چند ماہ سے جاری ہے۔ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں کوئی خوراک، دوا، ایندھن یا امداد اندر نہیں جانے دی جا رہی۔
نتیجتاً پورے علاقے میں قحط، بھوک، پیاس اور بیماریوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ راقم نے متعدد جلسوں اور تحریروں میں ہمیشہ اس اہم مسئلہ طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش جاری رکھی ہے۔ یہ ایک خوش آیند بات ہے کہ پاکستان کے ذرایع ابلاغ پر غزہ کی بھوک اور پیاس کو بیان کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا کے اثر ات سے یہ بات بھی بیان ہو رہی ہے کہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی قاتل فوج غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے مقامات پر جمع ہونیوالے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کو اس وقت اپنی نشانہ بازی کا شکار کرتے ہیں جب وہ ایک چھوٹی سی آٹے کی تھیلی یا تھوڑا سا پینے کا پانی حاصل کر کے اپنے پیاروں کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔
ایسے میں اچانک غاصب صیہونی درندہ فوجی ان کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کو اپنے پیاروں سے دور کر دیتے ہیں۔ اس عمل کو صیہونی غاصب حکومت اسرائیل کا میڈیا لوگوں کی انٹر ٹینمنٹ کے لیے پیش کرتا ہے۔ اسرائیل کی درندہ صفت فوج جو اپنے آپ کو فوج کہتی ہے، بچوں کو قتل کرنے کی وڈیوز اس انداز میں جاری کرتی ہے جیسے وہ کھیل اور تفریح کا سامان ہوں۔ آج ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ بچوں کے حقوق، انسانی حقوق اور وہ تمام نعرے جو مغربی دنیا بلند کرتی ہے، وہ سب کہاں چھپ گئے ہیں؟ کیا انسانیت کا معیار صرف مخصوص قوموں کے لیے ہے؟
بہرحال غزہ کی موجودہ صورتحال یہی ہے۔ بھوک اور پیاس سے بچے مر رہے ہیں۔ ان کو قتل کرنے والی صرف غاصب اسرائیلی فوج ہی ذمے دار تو نہیں ہے بلکہ یہی غاصب صیہونی فوج جب ان لوگوں کو قتل کرتی ہے اس کے بعد جو منرل واٹر پینے کا استعمال کرتی ہے وہ ہمارے ہی مسلمان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ ایسی اور متعدد اشیاء ہیں جو کہ مسلسل اسرائیلی فوج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مسلمان ممالک کی جانب سے سپلائی کی جا رہی ہے، یہ جو مسلمان ممالک اسرائیل کو کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء سپلائی کر رہے ہیں، ابھی تک ایک روٹی کا آٹا بھی غزہ کے مظلوموں تک نہیں بھیجا گیا ہے۔
حقیقت میں اسرائیلی غاصب فوج تو فلسطینیوں کی نسل کشی کی ذمے دار ہے ہی لیکن اس غاصب فوج کے ساتھ ساتھ یہ سارے مسلمان حکمران کہ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں، اشیائے خورونوش اسرائیل کے لیے بھیج رہے ہیں، یہ غاصب صیہونی فوج کی طرح فلسطینیوں کی نسل کشی کے برابر کے ذمے دار اور شریک جرم ہیں۔
آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، یعنی غزہ میں غاصب اسرائیل کی طرف سے عام شہریوں، بالخصوص حاملہ خواتین اور ضعیف العمر افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ غزہ میں حاملہ خواتین اور بزرگوں کی حالت زار دل دہلا دینے والی ہے۔ روزانہ درجنوں خاندان نیست و نابود ہو رہے ہیں، جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ انتہائی وسیع پیمانے پر ہولناک نسل کشی ہے۔
انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی مغربی حکومتیں خاموش ہیں۔ عالمی ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔ اس صورتحال میں عرب اور مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور چشم پوشی غزہ کے عوام کو دانستہ قحط کا شکار بنانے میں شراکت داری ہے۔ مسلم دنیا کے اقوام کی ذمے داری ہے کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خاموشی توڑے اور قابض اسرائیل کے جرائم پر کارروائی کے لیے فوری اقدامات کرے، بصورت دیگر یہ نسل کشی ختم نہ ہو پائے گی۔
غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور اس کے دہشت گرد وزیر اعظم نیتن یاہو ایک انسان کش درندہ ہے۔دوسری جانب غزہ کی اس ساری صورتحال پر اقوام متحد ہ نے بھی تصدیق کی ہے اور اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی ذمے دار ایجنسی ’انروا‘ کے ترجمان عدنان ابو حسنہ نے انتہائی دل سوز الفاظ میں کہا ہے کہ غزہ کی صورت حال مکمل طور پر قابو سے باہر ہو چکی ہے۔
انھوں نے تصدیق کی کہ غزہ میں انسانی امداد کا پورا نظام زمین بوس ہو چکا ہے اور اس وقت لاکھوں انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔اقوام متحدہ کے نمایندے نے واضح کیا ہے کہ یہ انسانی بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ قابض اسرائیل کے سیاسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ عدنان ابو حسنہ کا کہنا تھا کہ اگر قابض اسرائیل چاہے تو روزانہ سات سو ٹرک غزہ میں داخل ہو سکتے ہیں، مگر دانستہ طور پر انسانی امداد کو روکا جا رہا ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا ہے کہ غزہ کے کراسنگ پوائنٹس کو فی الفور کھولا جائے اور انسانی تنظیموں خصوصاً ’’ انروا‘‘ کو اپنا کام کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ کم از کم جانیں تو بچائی جا سکیں۔دوسری جانب ’’ انروا‘‘ کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے ایک المناک بیان میں کہا کہ غزہ میں قحط نے ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے دی ہے، اب کوئی محفوظ نہیں رہا۔
انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر، نرسیں، صحافی اور امدادی کارکن سب کے سب شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔ لازارینی نے کہا کہ ’’ اب تو وہ لوگ بھی جنھیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنی تھی، خود کسی نگہداشت کے محتاج ہو چکے ہیں۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ کئی افراد بھوک، کمزوری اور تھکن کے باعث دورانِ کام بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ کچھ صحافی ہیں جو ظلم و جور کی رپورٹنگ کے دوران گِر پڑتے ہیں، کچھ ڈاکٹر ہیں جو اپنی سانسیں بچاتے بچاتے دوسروں کا علاج چھوڑ دیتے ہیں۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلم دنیا کے حکمران کہاں ہیں؟ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی خاموشی معنی خیز ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غاصب صیہونی اسرائیل کے انھوں نے رہے ہیں کے ساتھ کرتی ہے غزہ کی رہا ہے کے لیے کہ غزہ
پڑھیں:
غزہ میں 10 ہزار سے زائد اسرائیلی فوجی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں، عبری میڈیا کا انکشاف
قابض اسرائیلی رژیم کے عبری میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ کیخلاف اسرائیلی جنگ میں کم از کم 10 ہزار اسرائیلی فوجی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں اسلام ٹائمز۔ غاصب صیہونی رژیم کے معروف عبری اخبار ہآرٹز نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ کے خلاف صیہونی جنگ میں 10 ہزار سے زیادہ اسرائیلی فوجی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔ دریں اثنا، یدیعوت احرونوت (Yedioth Aharonoth) کا بھی قابض صیہونی فوج میں گولانی بریگیڈ کے کمانڈر سے نقل کرتے ہوئے بھی لکھنا ہے کہ ہم اس جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک صرف اپنے بریگیڈ کے ہی (کم از کم) 127 فوجیوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ صہیونی فوجی کمانڈر نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ان شدید فوجی کارروائیوں کے وسیع حجم کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جن میں گولانی بریگیڈ نے جنگ کے آغاز سے ہی حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اسرائیلی فوجی کمانڈر کا مزید کہنا تھا کہ یہ ہلاکتیں گولانی یونٹ کے لئے نفسیاتی اور آپریشنل، دونوں میدانوں میں ایک "بڑا چیلنج" ہیں کیونکہ صیہونیوں کو اس شدت سے پہنچنے والے جانی نقصان کا کوئی اندازہ نہ تھا!